بہتر زندگی یقینی بنانے کی خواہش ہر انسان کے دل میں پائی جاتی ہے۔ جو لوگ زندگی بھر کچھ نہیں کرتے‘ وہ بھی اس بات کے خواہش مند ہوتے ہیں کہ زندگی ڈھنگ سے گزرے، بہت کچھ ملے، مادّی آسائشیں میسر ہوں، تنگی نہ ہو، بے فکری ہو اور جو دیکھے وہ رشک کرے۔ یہ خواہش محض خواہش کی منزل میں رہے تو کچھ نہیں ہوتا۔ کسی بھی خواہش کے حتمی اثرات اُسی وقت نمودار ہوتے ہیں جب انسان عمل کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔
ہر پس ماندہ معاشرے میں ایک خصوصیت بہت نمایاں رہتی ہے‘ یہ کہ لوگ خواہش کو خواہش کی منزل میں رہنے دیتے ہیں، عمل کی دنیا کا حصہ بنانے کی لگن اپنے اندر پیدا نہیں کر پاتے۔ محض سوچنے اور خواہش کرلینے سے کوئی بھی کام ہو نہیں جاتا۔ اور خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بھی پہلے تو قابلیت پیدا کرنا پڑتی ہے۔ جب تک مطلوب قابلیت نہ پائی جاتی ہو تب تک انسان کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں کرسکتا۔ ہر دور میں صرف وہی لوگ کامیابی سے ہم کنار ہوتے رہے ہیں جنہوں نے اپنی کسی بھی خواہش کو عملی جامہ پہنانے سے قبل مطلوب قابلیت یقینی بنانے پر توجہ دی ہے، جی جان سے محنت کی ہے۔ قابلیت میں اضافہ بھی کافی نہیں۔ سوال مہارت کا ہے۔ مہارت کے ساتھ ساتھ لگن بھی لازم ہے۔ جب انسان میں بھرپور صلاحیت و سکت پائی جاتی ہو تب قابلیت اور مہارت میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ کام کرنے کی بھرپور لگن پیدا کرنا بھی لازم ٹھہرتا ہے۔ یہ تمام عوامل مل کر انسان کو بھرپور کامیابی کی طرف لے جاتے ہیں۔
ہم سب زندگی بھر اس بات کے خواہش مند رہتے ہیں کہ جو زندگی ہم بسر کر رہے ہیں اُس سے نجات پاکر نئی اور بہتر زندگی کی طرف جائیں۔ بہتر زندگی ناممکن نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہوتا تو دنیا میں کوئی بھی بہتری کے لیے بھرپور کوشش پر یقین بھی نہ رکھتا اور محنت بھی نہ کرتا۔ کوئی بھی شخص اپنے معاملات درست کرنے پر اُسی وقت متوجہ ہوتا ہے جب اُسے اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے اُس کا کوئی نہ کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہوگا۔ بہتر زندگی کے لیے پہلا مرحلہ ذہن سازی کا ہے۔ سب سے پہلے یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ زندگی کو بہتر بنانا ہے، کچھ نہ کچھ گنجائش پیدا کرنی ہے۔ گنجائش پیدا کرنے ہی کی صورت میں زندگی کا معیار بلند کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ یہ گنجائش سب سے پہلے ذہن میں پیدا ہوتی ہے۔ جب ہم کسی معاملے میں آمادگی ظاہر کرتے ہیں تب تبدیلی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اگر انسان کسی کام کے کرنے پر آمادہ ہی نہ ہو تو پھر قابلیت اور مہارت بھی کسی کام کی نہیں ہوتی۔ تمام مراحل آمادگی کے بعد کے ہیں۔ آمادگی یعنی فیصلہ! یہ طے کرنا کہ کرنا کیا ہے۔ بہت سے لوگ اِسی منزل میں اٹک کر رہ جاتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں حقیقی ترقی کی بنیاد صرف اور صرف قابلیت پر ہوتی ہے۔ چند مراحل اِس سے پہلے ہیں اور چند اِس کے بعد کے۔ کوئی بھی مرحلہ چھوڑا نہیں جاسکتا مگر تمام مراحل کو یکساں اہمیت کا حامل بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حقیقی ترقی کے لیے عزمِ محکم لازم ہے مگر یہ حتمی منزل نہیں۔ مطلوب قابلیت اور مہارت پیدا کرنا بھی لازم ہے اور اس مرحلے کو ہم کسی بھی حال میں نظر انداز نہیں کرسکتے۔ کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے کی بھرپور کامیابی کے اسباب جاننے کی کوشش کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اُس معاشرے سے وابستہ افراد نے کچھ کرنے کا سوچا، مطلوب قابلیت اور مہارت پیدا کی اور پھر بھرپور لگن کے ساتھ کام میں جت گئے۔ ترقی یقینی بنانے کا یہی ایک طریق ہے۔ بہت سوں کو بیٹھے بٹھائے بہت کچھ مل جاتا ہے۔ کچھ لوگ کرپشن کے ذریعے بہت کچھ پالیتے ہیں۔ کیا یہ سب کامیابی ہے؟ کسی بھی درجے میں نہیں! کامیابی صرف وہ ہوتی ہے جو محکم ارادے، مطلوب قابلیت و مہارت اور بھرپور لگن کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے اور نیت یہ رہی ہو کہ اپنے فائدے میں کسی کا نقصان نہ ہو۔
ہر دور میں وہی معاشرے نمایاں رہے ہیں جنہوں نے حالات کے تقاضوں کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے آپ کو بدلنے پر توجہ دی۔ اپنے آپ کو بدلنا یعنی جو کچھ درکار ہے وہ حاصل کرنا۔ ہر دور چند ایک معاملات میں نئی قابلیت اور اُس کے حوالے سے قابلِ رشک مہارت کا طالب ہوتا ہے۔ عصری تقاضوں کے مطابق خود کو بدلنا ہی پڑتا ہے۔ دکاندار وہی کامیاب رہتا ہے جو گاہکوں کی ضرورت کے مطابق مال اپنے پاس رکھتا ہے۔ کامیاب بھی وہی ہوتے ہیں جو عصری تقاضوں کے مطابق اپنے اندر قابلیت پیدا کرتے ہیں، کچھ بننے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں اور اس حوالے سے اپنے آپ کو آزمانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ دوسروں کی بات پھر کبھی سہی‘ ہم اپنے معاشرے کی بات کرتے ہیں۔ پاکستانی معاشرہ آج بہت سے معاملات میں پستی کی نئی گہرائیوں کو چھو رہا ہے۔ ہر طرف پژمردگی سی چھائی ہوئی ہے۔ لوگ بیشتر معاملات میں مایوس ہیں، ہمت ہار بیٹھے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے بھی ہے کہ بہت سے معاشرتی علائق سے جان چھڑانے پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ دنیا بھر کی بُری عادتوں کو زندگی کا حصہ بناکر ہم نہایت سادگی سے یہ چاہتے ہیں کہ بہت کچھ بہت آسانی سے میسر ہو۔ ایسا ہوسکتا ہے؟ جناب! کائنات کے اصول کسی کے لیے نہیں بدلتے۔ پھر بھلا ہمارے لیے ایسا کیوں ہونے لگا؟
کسی بھی دور میں ڈھنگ سے جینے کے لیے جو کچھ بھی درکار ہوتا ہے اُسے ہم اُس دور سے مطابقت رکھنے والی مجموعی قابلیت قرار دے سکتے ہیں۔ ہر انسان ایک خاص حد تک جاسکتا ہے مگر جب پورا معاشرہ متحرک ہوتا ہے تب انفرادی کارکردگی کے مجموعے سے کچھ زیادہ حاصل ہو پاتا ہے۔ اجتماعیت کا یہی کمال ہے۔ ہر عہد چند بڑے چیلنج لے کر آتا ہے۔ ہر بڑا چیلنج ہمیں آزماتا ہے۔ ہم میں جو بھی صلاحیت و سکت پائی جاتی ہے اُس کا امتحان ہی اس بات کا تعین کرتا ہے کہ ہم کیا کرپائیں گے اور ہمیں کیا مل پائے گا۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ کسی بھی شعبے سے متعلق اپنی صلاحیت ہی کو سب کچھ سمجھ لیتے ہیں۔ صلاحیت سب میں پائی جاتی ہے۔ اللہ نے کوئی ایک انسان بھی ایسا خلق نہیں کیا جس میں کوئی صلاحیت نہ پائی جاتی ہو مگر محض صلاحیت کا ہونا کامیابی کی ضمانت نہیں۔ سپورٹس مین بہت سے انسانوں میں چھپے ہوئے ہیں مگر وہی لوگ اچھا سپورٹس مین بن پاتے ہیں جو اپنے اندر کے ٹیلنٹ کو بھرپور محنت کے ذریعے باہر لاتے ہیں۔ بالکل اِسی طور ہر انسان کو فطری طور پر سُر اور تال کی سمجھ ملتی ہے۔ ایسا نہ ہو تو کوئی موسیقی سے محظوظ ہی نہ ہوسکے مگر گلوکار وہی بن پاتے ہیں جو اپنی فطری صلاحیت کو پروان چڑھاتے ہیں۔ بولنا تو سبھی کو آتا ہے مگر ڈھنگ سے وہی بول پاتے ہیں جو بولنے کا ہنر سیکھتے ہیں۔ ہر انسان بہت کچھ کرسکتا ہے مگر وہ بالعموم کسی ایک شعبے میں آگے بڑھتا ہے کیونکہ اُس نے اُس مخصوص شعبے ہی میں قابلیت یقینی بنانے کی ٹھانی ہوتی ہے۔
فطری صلاحیت پروان چڑھانے کے نتیجے میں قابلیت پنپتی ہے۔ گانے کا شوق سبھی کو ہوتا ہے مگر موسیقار اُسے موقع دیتے ہیں جو بھرپور لگن کے ساتھ سیکھتا ہے اور مل کر کام کرنے میں الجھن محسوس کرتا ہے نہ پیدا کرتا ہے۔ اگر کسی کو گانا آتا ہو مگر وہ آرکسٹرا یعنی سازندوں کی ضرورت کو نہ سمجھتا ہو، گانے کی اچھی طرح مشق نہ کرے اور ریکارڈنگ کے وقت الجھنیں پیدا کرے تو موسیقار اُسے دوبارہ موقع دینے سے کترائے گا۔ اپنی صلاحیت کو دوسروں کے لیے زیادہ سے زیادہ قابلِ قبول بنانے کا نام ہے مہارت۔ معاشرے صرف اور صرف قابلیت کی بنیاد پر ترقی سے ہم کنار ہوتے ہیں۔ انفرادی سطح پر بھی یہی معاملہ ہے۔ کسی بھی شعبے میں قابلیت کا گراف بلند کرتے جانا بھی ناگزیر ہے۔ ایسا نہ کیا جائے تو کامیابی محدود رہتی ہے۔ کوئی گلوکار اگر مختلف انداز کے گانے آسانی سے گاسکے تو زیادہ قابلِ قبول ہوتا ہے۔ کوئی اداکار مختلف کردار آسانی سے کرے تو لوگ اُسے قبول کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہی حال دوسرے تمام شعبوں کا بھی ہے۔ کوئی صرف فکشن لکھ سکتا ہو اور نان فکشن کی طرف نہ آتا ہو تو محدود رہتا ہے۔ کوئی رپورٹر اگر تجزیہ نگار بھی ہو اور تجزیہ کار بھی تو زیادہ نام اور دام کماتا ہے۔