"MIK" (space) message & send to 7575

اُدھار کا پھندا

سرمایہ دار کا اصل مقصد اپنے مفادات کی تکمیل ہوتا ہے۔ معیشتوں کو اپنے بس میں کرنے کے لیے بڑی بڑی کاپوریشنز نے ہمیشہ ایسے ہتھکنڈے اختیار کیے جن سے معاشرتی، اخلاقی اور تہذیبی خرابیوں نے جنم لیا اور دنیا بھر میں اربوں افراد کو شدید مشکلات سے دوچار کیا ہے۔ آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور اس کے ختم ہونے کے آثار نہیں۔ سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت میں سب کچھ سرمایے کے گرد گھومتا ہے۔ بڑے سیٹھ اچھی طرح جانتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ مال بٹورنے کی ذہنیت معاشرے کو بھی داؤ پر لگاسکتی ہے مگر پھر بھی وہ اپنی ذہنیت ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ کارپوریٹ دنیا مال بنانے کے معاملے میں سفّاک واقع ہوئی ہے۔ معاشرتی بہبود اُسے پسند نہیں۔ کاروباری معاملات کو انسانیت کے اعلیٰ ترین آدرشوں سے دور رکھا جاتا ہے تاکہ مال کمانے کا سلسلہ آسانی کے ساتھ جاری رکھا جاسکے۔
کورونا کی وبا کے دو‘ ڈھائی برس کے دوران دنیا بھر میں بہت سی ایسی معاشی تبدیلیاں تیزی سے ابھریں جن کے پنپنے کی توقع تو تھی؛ تاہم یہ کسی نے نہ سوچا تھا کہ یہ سب کچھ اس قدر جلد ہو جائے گا۔ ''بائے ناؤ، پے لیٹر‘‘ (ابھی خریدیے، بھگتان بعد میں کیجیے) کا کلچر اتنی تیزی سے پروان چڑھا کہ دنیا حیران رہ گئی۔ عام آدمی اس وبا کے دوران چونکہ بیشتر اوقات گھر تک محدود رہا‘ اس لیے آمدن بھی بُری طرح متاثر ہوئی۔ بہت کچھ آسانی سے دستیاب نہ تھا۔ ایسے میں BNPL (بائے ناؤ، پے لیٹر) فیکٹر زندگی کا حصہ بن کر رہ گیا۔ لوگوں کو ایک طرف تو اُدھار خریداری کی سہولت مل رہی تھی اور دوسری طرف اُنہیں کہیں جانا بھی نہیں پڑ رہا تھا۔ عام آدمی یہ سوچ کر خوش ہوتا رہا کہ فری ہوم ڈِلیوری کی سہولت نے زندگی آسان بنادی ہے۔ کیا واقعی؟ زندگی آسان ہوگئی؟ عام آدمی اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہا کہ بی این پی ایل فیکٹر زندگی کا حصہ بن جائے تو بہت کچھ اُلٹ‘ پلٹ جاتا ہے۔ اُدھار کی زندگی کسی بھی سطح پر کسی کو حقیقی خوش حالی سے ہم کنار نہیں کرسکتی۔ کورونا کی وبا کے دوران دنیا بھر میں کروڑوں افراد اُدھار کے جال میں یوں پھنسے کہ اب اُن کے لیے اِس جال کو توڑنا یا اِس سے نکلنا انتہائی دشوار ثابت ہو رہا ہے۔ بی این پی ایل فیکٹر کو غیر معمولی مقبولیت سے ہم کنار کرنے میں کئی معاملات نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس طریقِ تجارت کو سب سے زیادہ مقبولیت ہفتہ وار یا ماہانہ ادائیگی کے نظام نے بخشی۔ کسی بھی چیز کو خریدتے وقت صرف 6، 9 یا 12 اقساط میں سے صرف پہلی قسط ادا کرنا ہوتی ہے۔ لوگ صرف ایک سہولت پر مر مِٹتے ہیں کیونکہ تمام قیمت فوری طور پر نہیں چکانا پڑتی۔ یہ انسان کی نفسی ساخت میں پائی جانے والی ایک بنیادی کمزوری ہے جس کا کاروباری طبقہ خوب فائدہ اٹھاتا ہے۔ ہر معاشرے میں ایسے لوگ بڑی تعداد میں ہیں جو اپنی تنخواہ یا مجموعی آمدن سے کہیں زیادہ خرچ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ مائیکرو فنانس اداروں سے رابطہ کیجیے، آسان اقساط پر ایک لاکھ روپے تک کی کوئی بھی چیز حاصل کیجیے اور اپنی سہولت کے مطابق پیمنٹ پلان تیار کروائیے۔ آپ چاہیں تو تین ماہ میں بھی پوری قیمت چکاسکتے ہیں اور ایسا نہ کرنا چاہیں تو دُکاندار یا ادارہ آپ کو بارہ ماہ میں قیمت چکانے کی سہولت بھی فراہم کرسکتا ہے۔
اقساط میں وصولی کرنے والے اداروں کا طریقِ کار بہت باریک ہے۔ عام آدمی اِسے سمجھ نہیں پاتا۔ کسی تنخواہ دار سے وصولی کے لیے یہ لوگ بینک اکاؤنٹ سے براہِ راست وصولی کی اجازت حاصل کرلیتے ہیں۔ اگر متعلقہ فرد کے بینک اکاؤنٹ میں مقررہ تاریخ پر پیسے نہ ہوں تو یہ اوور ڈرافٹ کے ذریعے وصولی کرتے ہیں اور اوور ڈرافٹ کی فیس متعلقہ فرد کو ادا کرنا پڑتی ہے۔ یہ سب کچھ بہت خاموشی اور باریکی سے ہوتا ہے۔ خریداری کے وقت متعلقہ فرد تمام شرائط کا بغور جائزہ نہیں لیتا۔ عموماً اِسی چیز کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ اگر کوئی شرائط پر معترض ہو تو یہ چلتا کردیتے ہیں کہ کہیں اور سے خریداری کرلو۔ انسان مجبور ہوکر تمام شرائط مان لیتا ہے۔ جو کچھ بھی وصول کرنا ہو، سروس فیس کے نام پر وصول کیا جاتا ہے۔ یہ سروس فیس کیا ہے اِس کی توضیح شاذ و نادر ہی کی جاتی ہے۔ آسٹریلیا کی ایک بی این پی ایل کمپنی کے خلاف 2021ء میں تمام خدمات کو مفت بتاکر لوگوں کو دھوکا دینے کا مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔ دیگر کئی بی این پی ایل کمپنیوں کے خلاف بھی اِس طرح کے مقدمات دائر کیے گئے۔
انفرادی سطح پر معاشی خود مختاری کو عام کرنے کے نام پر مغربی معاشروں میں کسی چیز کی قیمت اقساط میں ادا کرنے کا کلچر بہت پہلے پروان چڑھایا گیا تھا اور اس کے نتائج بھی دنیا نے دیکھے ہیں۔ امریکا اور یورپ میں آج بھی کوئی شخص جب عملی زندگی شروع کرتا ہے تو کوئی بھی چیز بہت آسانی سے خرید سکتا ہے۔ اُدھار کا کلچر عام ہے۔ تنخواہ ہفتہ وار ہو یا ماہوار، مختلف اشیا کی قیمت ادا کرنے کے نام پر انسان خالی ہاتھ رہ جاتا ہے اور یوں اُسے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ بی این پی ایل کلچر کے عام ہونے سے مادّہ پرستی بھی عام ہوتی گئی۔ مغربی معاشروں میں اب عام آدمی کو کسی سے کوئی غرض نہیں کیونکہ جو کچھ بھی اُسے درکار ہے وہ معاشرہ اسے دے رہا ہے۔ اور اِس کے بدلے جی بھر کے وصولی بھی کر رہا ہے۔ مغربی معاشروں میں پائی جانے والی اِس عِلّت کو اب دنیا بھر کے معاشرے بہت تیزی سے اپنارہے ہیں۔ بی این پی ایل کلچر نے مغرب کو کیا دیا جو کسی اور کو دے گا؟ وہاں خاندانی نظام تباہ ہوکر رہ گیا۔ رشتوں کا احترام بھی نہیں بچا۔ معاشی خود مختاری کے نام پر ہر شخص اپنی مرضی کے مطابق جینے کا عادی ہوچکا ہے۔ وہ بڑوں کی بات سنتا ہے اور نہ ہی چھوٹوں کے لیے شفقت کا جذبہ رکھتا ہے۔ اُسے معلوم ہے کہ بچے بڑے ہوں گے تو اُس کی طرح‘ وہ بھی اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کو ترجیح دیں گے۔
کورونا کی وبا کے دوران دنیا بھر میں بی این پی ایل کمپنیوں کا کاروبار خوب بڑھا ہے۔ 2019ء میں اس کاروبار کا حجم 33 ارب ڈالر تھا۔ 2021 میں یہ حجم 120 ارب ڈالر سے زیادہ ہوچکا تھا۔ پاکستان میں بھی یہ کلچر پروان چڑھا ہے۔ کراچی، لاہور اور دیگر بڑے شہروں میں کریڈٹ کارڈ کے ذریعے خریداری کا رجحان عام ہوا ہے۔ ایک طرف آمدن کم ہے اور خواہشات زیادہ اور دوسری طرف کورونا کی وبا کے ہاتھوں دو سال میں جو معاشی مشکلات پیدا ہوئیں اُن کے نتیجے میں لوگوں پر دباؤ مزید بڑھا ہے۔ اس کا حل یاروں نے یہ تلاش کیا ہے کہ اُدھار خریداری کی جائے، کریڈٹ کارڈ کے ذریعے قیمت ماہ بہ ماہ ادا کی جائے۔ ایسی صورت میں چیز مہنگی ملتی ہے۔ پھر ایک بڑی مصیبت یہ بھی ہے کہ جب بہت کچھ آسانی سے مل رہا ہو تو لوگ خریدتے چلے جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں آمدن پر دباؤ بڑھتا ہے۔ اقساط ادا کرنے کے لیے بعض اہم اخراجات سے منہ موڑنا پڑتا ہے۔ یہ ایک کارپوریٹ جال ہے جس میں انسان پھنستا ہی چلا جاتا ہے۔ کوئی بھی چیز بعد میں قیمت چکانے کی سہولت کے تحت مل رہی ہو تو انسان بعد کی مشکلات کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا اور خریداری کرتا چلا جاتا ہے۔ ہوش اُس وقت آتا ہے جب پانی سر سے اونچا ہونے لگتا ہے۔ تب تک‘ ظاہر ہے کہ بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ ایسے میں بعض ناپسندیدہ فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ بہت سوں کو اُدھار کی اِس چَکّی میں یوں پستے ہوئے دیکھا کہ مکان یا پلاٹ بھی داؤ پر لگ جاتے ہیں۔ شہروں کی غیر حقیقت پسندانہ طرزِ زندگی اُدھار کے کلچر کو تیزی سے فروغ دے رہی ہے۔ لوگ اپنی ضرورت کے مطابق خریداری کرتے چلے جاتے ہیں اور اُدھار کی دلدل میں دھنستے جاتے ہیں۔ دوسروں کا انجام دیکھ کر بھی کوئی سبق سیکھنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ معقول بیک اَپ ہو تو تھوڑا بہت خطرہ مول لیا جاسکتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہیے۔ اس حوالے سے شعور کی سطح بلند کرنے کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں