صدیوں تک انسان ظاہر پر باطن کو ترجیح دیتا رہا ہے۔ زندگی کے دو واضح رُخ ہیں : ظاہر اور باطن۔ ظاہر یعنی باہر کی دنیا۔ یہ فطری یا قدرتی ماحول کی دنیا ہے جس کا اثر محسوس ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ اگر سورج کے سامنے ہوں اور سر پر چھت یا کوئی سایا بھی نہ ہو تو دھوپ ہمیں پریشان کرکے رہے گی۔ دھوپ میں کھڑے ہوکر ہم ٹھنڈک محسوس کرنے کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔ ایسی کوشش لاحاصل رہتی ہے۔ فطری یا قدرتی ماحول میں پائی جانے والی زندگی ہمیں بہت کچھ سکھاتی ہے۔ یہ حقیقت پسندی بھی سکھاتی ہے اور زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے پر مائل کرتی ہے۔ یہ حقیقی دنیا ہمارے لیے ہر اعتبار سے ناگزیر ہے یعنی اِس سے مفر ممکن نہیں۔
باطن کی دنیا یعنی اِسی قدرتی ماحول میں رہتے ہوئے اخلاقی، تہذیبی اور ثقافتی اصولوں کی بنیاد پر ایک ایسا ماحول تیار کرنا‘ جو دل کی دنیا کو آباد کرے۔ دل کی دنیا آباد کرنے کی صورت میں انسان بہت سے علائق سے بچتا ہے۔ دل کی دنیا میں سکون، توازن اور استحکام ہو تو انسان باہر یعنی ظاہر کی دنیا کے ہاتھوں پیدا ہونے والی بہت سی مشکلات کا ڈٹ کر سامنا کرتا ہے۔ موجودہ دور سے قبل‘ ہر دور میں باطن کی دنیا کو ظاہر کی دنیا پر ترجیح دینے والوں کی اکثریت رہی ہے۔ ہر عہد کے انسان نے چاہا کہ ظاہر کی دنیا کے ہاتھوں پیدا ہونے والی مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے اپنے اندر زیادہ سے زیادہ استحکام یقینی بنایا جائے۔ باطن کی دنیا آباد کرنے کی صورت میں ایسا بہت کچھ نصیب ہوتا ہے جس کا عام طور پر تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ہر عہد میں اہلِ دانش نے بتایا کہ کامیاب انسان وہی ہے جو ظاہر ہی کو سب کچھ نہ سمجھے بلکہ باطن کی گہرائی میں اُتر کر اپنے لیے زیادہ سے زیادہ گنجائش پیدا کرے۔ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ گنجائش یعنی دوسروں سے ہٹ کر، مختلف انداز سے معقول طرز کی ایسی ترقی جس کے ذریعے محض مادّی سکھ نصیب نہ ہو بلکہ روحانی ارتقا کی گنجائش بھی سلامت رہے۔
مغربی معاشروں نے کم و بیش چار صدیوں کے دوران فطری علوم و فنون کے حوالے سے عدیم المثال پیشرفت یقینی بناکر ایک ایسی دنیا تیار کی جس نے ہمیں بہت کچھ دے کر ہم سے بہت کچھ چھین بھی لیا ہے۔ پوری دیانت اور غیر جانبداری سے تجزیہ کرنے بیٹھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ مغرب نے ہمیں جو کچھ دیا ہے وہ بہت کم ہے اور اِس کے بدلے میں ہم سے جو کچھ چھین لیا ہے‘ وہ کہیں زیادہ ہے۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ مغرب کی دنیوی ترقی و خوش حالی خالص مادّہ پرست اور الحادی ہے یعنی فطری علوم و فنون میں مہارت پیدا کرنے پر زور دینے کے ساتھ ساتھ اِس بات پر بھی زور دیا جاتا رہا ہے کہ اِس دنیا سمیت پوری کائنات کو خود بخود معرضِ وجود میں آنے والی تسلیم کیا جائے، یہ مان لیا جائے کہ ہمارا کوئی خالق نہیں اور یوں کوئی رب اور ہادی بھی نہیں۔ یعنی یہ کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ اپنے طور پر‘ خود بخود ہو رہا ہے۔ مغرب کا زور اس بات پر ہے کہ سب کچھ ہمِیں کو طے کرنا ہے۔ انسان کے لیے کیا اچھا ہے اور کیا بُرا‘ یہ خود انسان کو طے کرنا ہے۔ یعنی مان لیا جائے کہ کوئی ایسی برتر اور طاقتور ہستی نہیں جو اِس پورے نظامِ ہستی سے بلند ہو اور ہمارے معاملات طے کرتی ہو، ہمارے لیے ضابطۂ حیات متعین کرے، حال و حرام کے فیصلے کرے۔
مغرب نے جس طرح کی ذہن سازی کی اُس نے صرف خرابیاں پیدا کی ہیں۔ تین‘ ساڑھے تین صدیوں کے دوران اِنسان نے دنیا ہی کو سب کچھ سمجھنے کی ذہنیت کے ساتھ اپنے حالات بدلنے کی کوشش کی اور اِس کا نتیجہ اب ہمارے سامنے ہے۔ زندگی کے باطنی، اخلاقی، تہذیبی، ثقافتی اور روحانی پہلو کو یکسر نظر انداز کرنے کا جو بھیانک نتیجہ برآمد ہوسکتا تھا‘ وہ آج ہمارے سامنے ہے۔ کوئی لاکھ انکار کرے‘ حقیقت مگر یہی ہے کہ مغرب کی پیدا کردہ مادّہ پرست ذہنیت نے دنیا کو ایسے خطرات سے دوچار کردیا ہے جن کے ہاتھوں وجودِ انسانی ہی خطرے میں پڑچکا ہے۔ خالص مادّہ پرست اور الحادی ذہنیت نے دنیا ہی کو سب کچھ سمجھنے کا رجحان یوں پروان چڑھایا ہے کہ آج کا انسان صرف ظاہری معاملات میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ علامہ اقبالؔ نے درست کہا تھا ؎
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
ظاہر کی آنکھ ہمیں کچھ بھی نہیں دکھا سکتی۔ کسی بھی شے کی حقیقت کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے دل کی آنکھیں کھولنا پڑتی ہیں۔ دل کی آنکھ ہی ہمیں وہ سب کچھ دکھاتی ہے جسے سمجھے بغیر ہم ڈھنگ سے جینے کے قابل نہیں ہوسکتے۔ دل کی آنکھیں کھلی رکھی جائیں تو ایسا بہت کچھ دکھائی دیتا ہے جو بالعموم دکھائی نہیں دے سکتا۔
ہر عہد کے اہلِ دانش اور اہلِ بصیرت نے عام آدمی کو ذہنی الجھنوں سے دور رکھنے کی خاطر اُس کی تربیت کا اہتمام کیا۔ اُن کی کوشش رہی کہ انسان کو وہ سب کچھ دیا جائے جس کے بغیر اُس کا روحانی ارتقا ممکن نہیں بنایا جاسکتا۔ اِس کے لیے دو محاذوں پر متحرک رہنا لازم تھا۔ پہلا محاذ تھا پند و نصائح کا۔ اور دوسرا محاذ اُن پر خود عمل پیرا ہونے کا تھا۔ گزشتہ ادوار میں اہلِ بصیرت جو کچھ بھی سکھانے کی کوشش کرتے تھے اُس پر خود بھی عمل پیرا رہتے تھے تاکہ سیکھنے والوں کے ذہن میں کوئی ابہام باقی نہ رہے، وہ قول و فعل کا تضاد دیکھ کر الجھ نہ جائیں۔ زندگی کو مثبت اقدار سے ہم کنار کرنے کے معاملے میں بات اُنہی کی اثر کرتی ہے جن کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو۔ آج کا المیہ یہ ہے کہ جنہیں مادّہ پرستی، الحاد اور ظاہر پرستی کے خلاف کھڑا ہونا ہے، سینہ سپر ہونا ہے‘ وہی مال و متاع کے پھیر میں پڑگئے ہیں۔ اساتذہ، مصنفین، مقررین اور دیگر کو معاشرے کی اصلاح کے لیے میدان میں آنا پڑتا ہے۔ آج یہ سب طبقات میدان میں تو ہیں مگر مال بنانے کے لیے‘ اپنی اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے۔ خالص مادّہ پرست ذہنیت کے ساتھ باطن کی تربیت پر مامور ہونے والے معاشرے کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ کوئی دنیا پرست اور الحادی ذہنیت کا حامل معلم اگر دنیا پرستی سکھا رہا ہو تو کوئی ہرج نہیں۔ مسئلہ اس وقت کھڑا ہوتا ہے جب کوئی خالص مادّہ پرست روحانیت کی تبلیغ کرنے لگے۔ اُس کے قول و فعل کا تضاد متعلقین کو پریشانی سے دوچار رکھتا ہے۔ آج ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کو روحانیت کی ضرورت ہے۔ اخلاقی اور تہذیبی اقدار پر زور دینا لازم ہے۔ لوگوں کو اللہ سے لَو لگانے پر مائل کرنا ناگزیر ہوچکا ہے مگر دیکھا گیا ہے کہ جنہوں نے معاشرے کی راہ نمائی کرنی ہے‘ وہ بیشتر طبقات بھی مادّہ پرستی کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔
آج کی دنیا کو خالص روحانی اقدار کی طرف جانا ہے۔ انسانیت کی بقا صرف اِس بات میں ہے کہ انسان اپنے باطن کو درست رکھنے پر متوجہ ہو۔ ہم باطن اور روح کو نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔ ہم نے سوچ لیا ہے کہ تہذیب کوئی چیز نہیں ہوتی، اخلاقی اقدار کسی کام کی نہیں۔ ایسی سوچ ہر دور میں پیدا ہوتی رہی ہے اور اِس کے توڑ کے لیے کچھ لوگ میدان میں آتے رہے ہیں۔ ہر عہد کے اہلِ بصیرت نے آگے بڑھ کر اِس سیلِ بلا کے آگے بند باندھنے کی کوشش کی ہے اور بہت حد تک کامیاب رہے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اٹھانے والے بھی مال پانی کے چکر میں رہنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ ظاہر پر باطن کو ترجیح دینے کا موسم آچکا ہے۔ ضرورت شدید سے شدید تر ہوتی جارہی ہے۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ انسان اپنی ترجیحات کا تعین کرے۔ دنیا پرستی کا زہر اپنے دل و دماغ کی رگوں سے نکالے اور اُسی راستے پر گامزن ہو جو اللہ تعالیٰ نے اُس کے لیے طے کیا ہے۔