"MIK" (space) message & send to 7575

کیسے رہوں چپ …

بہت سی بنیادی عادتیں اب درجۂ کمال میں ہیں۔ ایک دور تھا کہ بزرگ سکھایا کرتے تھے ضرورت کے مطابق بولا کرو، ورنہ خاموش رہا کرو۔ بچے سیکھتے تھے کہ کب اور کتنا بولنا چاہیے۔ بزرگوں کی نصیحت پر عمل پیرا رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کو ترجیح دی جاتی تھی۔ بزرگ کسی کو غلط یا بے بنیاد مشورہ دیتے بھی نہیں تھے۔ بولنے کے معاملے میں وہ خود بھی خصوصی تربیت کا اہتمام کرتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ بولنے کا معاملہ انتہائی درجے کی احتیاط کا طالب ہے۔ بولنا انسانی فطرت کا بنیادی جز ہے۔ ہم جن عادتوں اور خصوصیات کے ذریعے زندگی بسر کرتے ہیں اُن میں بولنا بھی شامل ہے۔ بولنا واقعی بہت بڑی نعمت ہے اور اس ایک نعمت کی بنیاد پر ہماری زندگی میں بہت کچھ تبدیل ہوتا ہے‘ ہمیں بہت کچھ ملتا ہے۔ بولنے ہی کی بدولت انسان ما فی الضمیر بیان کرنے میں کامیاب ہو پاتا ہے، اپنی بات دوسروں کو سُنا اور سمجھا پاتا ہے۔ بولنے کی وقعت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ ہمارے معاملات کا ایک بڑا حصہ بولنے کی صلاحیت اور لیاقت ہی سے وابستہ ہے۔ یہ ہر عہد کا معاملہ رہا ہے۔
آج کے انسان کی ایک بنیادی غلط فہمی یہ ہے کہ وہ بولنے ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھا ہے۔ انسان کو بولنے ہی کے لیے نہیں خلق کیا گیا۔ ہمارے خالق و رب کی مرضی ہے کہ ہمیں جو بھی صلاحیت اور لیاقت عطا کی گئی ہے اُس سے کماحقہٗ مستفید ہوں اور دوسروں کو بھی مستفید کریں۔ بولنا چونکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ خصوصی نعمت ہے اس لیے اِس سے مستفید ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو مستفید بھی کرنا ہے۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب توازن برقرار رکھا جائے۔ بولنے اور بولتے رہنے میں بہت فرق ہے۔ یہ فرق وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو اسے سیکھنے کی کوشش کریں۔ بولنے کی عادت کو ہنر یا فن میں تبدیل کیجیے تو زندگی کا رنگ ڈھنگ بدل جاتا ہے۔ بولنا آتا ہو تو اور بھی بہت کچھ آ جاتا ہے۔ آج کی دنیا میں کامیابی یقینی بنانے میں ایک بنیادی کردار بولنے کی صلاحیت و سکت کا ہے۔ بولنے کی صلاحیت کو باضابطہ ہنر میں تبدیل کرکے اپنی شخصیت کو نیا رنگ دینے والے اپنی الگ شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ دنیا اُنہیں نئے اور معیاری رنگ روپ میں قبول کرتی ہے۔ ریڈیو کی صدا کاری اور کیمرے کے سامنے اداکاری بولنے کے فن میں مہارت ہی کی بدولت ممکن ہے۔ سکھانے کا عمل بولنے کے فن کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ دکانداری اور مارکیٹنگ بھی بولنے کی صلاحیت ہی کی مرہونِ منّت ہے۔ یہ سب کچھ خود بخود نہیں آجاتا، سیکھنا پڑتا ہے۔ اور سیکھتے وہی ہیں جو زانوئے تلمذ تہ کرتے ہیں۔ بہت سوں کو دیکھا ہے کہ بولنے کے شعبے سے وابستہ ہوتے ہوئے بھی بولنا سیکھتے نہیں اور یوں حقیقی کامیابی سے دور رہتے ہیں۔
فی زمانہ بولنے کے حوالے سے بہت ہی عجیب تصورات پنپ گئے ہیں۔ عام آدمی کے ذہن میں یہ بات میخ کی طرح ٹھونک دی گئی ہے کہ بولنا ہی زندگی ہے۔ بولنا یعنی اپنے خیالات کا اظہار کرنا۔ عام آدمی یہ سمجھنے لگا ہے کہ جو کچھ اُس کے ذہن میں ہے وہ حقیقی خیالات کا درجہ رکھتا ہے اور اُسے دنیا کے سامنے آنا ہی چاہیے۔ کسی بھی صورتِ حال کے حوالے سے ذہن میں پنپنے والا خام نوعیت کا ردِعمل بھی اب لوگ اپنے تک محدود نہیں رکھتے بلکہ کسی نہ کسی طور اُسے دوسروں تک منتقل کرنے کو زندگی کا ایک بنیادی فریضہ گردانتے ہیں! کیا واقعی ایسا ہے کہ جو کچھ ہمارے ذہن میں ابھرتا اور پنپتا ہے وہ اس قابل ہے کہ دوسروں تک پہنچادیا جائے؟ کسی طور نہیں! عام آدمی جنہیں خیالات سمجھتا ہے وہ محض تاثرات ہوتے ہیں جو کسی بھی واقعے یا معاملے کے فوری ردِعمل کا درجہ رکھتے ہیں۔ محض ردِعمل کو ہم پختہ خیالات کا درجہ نہیں دے سکتے۔ کسی بھی شخص کے ذہن میں ابھرنے والے تصورات جب معقول توجہ سے کوئی باضابطہ شکل اختیار کرتے ہیں تب وہ اس قابل ہو پاتے ہیں کہ دنیا کے سامنے پیش کیے جائیں۔ ایسی حالت میں بھی اتنا تو دیکھنا ہی پڑتا ہے کہ جو کچھ لوگوں سے بیان کیا جارہا ہے وہ بیان کیا جانا چاہیے یا نہیں۔ بہت سے معاملات میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کے پاس بیان کرنے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے مگر وہ زیادہ قابلِ قبول نہیں ہوتا اور بیان کرنے کی صورت میں فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچتا ہے۔ کوئی بھی معقول بات بے محل کی جائے تو مضر ثابت ہوتی ہے۔ کسی زمانے میں لتا منگیشکر کا گایا ہوا ایک فلمی گانا ہٹ ہوا تھا جس کے بول تھے...
کیسے رہوں چُپ کہ
میں نے پی ہی کیا ہے
ہوش ابھی تک ہے باقی
اور ذرا سی دے دے ساقی
آج کل کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اب چُپ رہنا ایک نایاب فن ہے جو کسی کسی کو آتا ہے اور وہ بھی خاصی ریاضت کے بعد۔ ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ لوگ یہ فن سیکھنا چاہتے ہی نہیں۔ سوچ لیا گیا بلکہ ٹھان لی گئی ہے کہ سوچے سمجھے بغیر بولنا ہے، بولتے رہنا ہے۔ اس روش پر گامزن رہنے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب کم و بیش ہر طرح کے ماحول میں بلا تکان بولنے والوں کی اکثریت ہے۔ بولنے میں اچھی خاصی توانائی صرف ہوتی ہے۔ یہ تو بولنے والے کا معاملہ ہوا۔ سننے والے کا نقصان زیادہ ہے۔ اگر نامعقول، غیر ضروری اور سراسر فضول باتیں گوش گزار کی جاتی رہیں تو سننے والوں کی ذہنی الجھن بڑھ جاتی ہے۔ وہ بہت سی غیر ضروری باتیں سنتے رہنے کی صورت میں اپنے ذہن کو سوچنے کی حالت میں نہیں رکھ پاتے۔ کبھی کبھی ایسا ممکن نہیں ہوتا کہ کوئی اپنا ماحول تبدیل کرے اور فضول بولنے والوں سے دور ہو۔ ایسے میں لاحاصل باتیں سننے کے سوا چارہ نہیں ہوتا۔ ذہن میں اگر بہت کچھ اَن چاہا ہو تو انسان محسوس کرتا رہتا ہے کہ توانائی ضائع ہو رہی ہے۔ یہ محض احساس نہیں‘ حقیقت ہے۔ ذہن دوسروں کی فضول باتوں کے ہاتھوں الجھا ہوا ہو تو تعمیری انداز سے کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہتا۔ عام آدمی کو اپنی زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے بہت سے مراحل سے گزرنا ہے، بہت کچھ سیکھنا ہے۔ معاملات صرف معاش سے شروع ہوکر معاش پر ختم نہیں ہونے چاہئیں۔ معاشی سرگرمیاں زندگی کے بنیادی معاملے کا درجہ رکھتی ہیں مگر ایسا نہیں ہے کہ کوئی محض معاشی سرگرمیوں میں کامیابی کی بنیاد پر معیاری زندگی بسر کرنے میں کامیاب ہوجائے۔ زندگی مختلف معاملات میں مثالی نوعیت کے توازن کا نام ہے۔ معیشت کے ساتھ معاشرت بھی تو ہے۔ دو وقت کی روٹی والی سطح سے بلند ہونا ہے، اپنے وجود کو احسن طریقے سے بروئے کار لانے کے بارے میں سوچنا اور ڈھنگ سے رُو بہ عمل لانے کیلئے تیار بھی کرنا ہے۔ کیا یہ سب کچھ خود بخود ہوسکتا ہے؟ یقینا نہیں! خود بخود کچھ بھی نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی حالات کی مہربانی سے ہمیں کچھ فائدہ پہنچ جاتا ہے مگر یہ محض اتفاق کا معاملہ ہے، کوئی کلیہ نہیں۔ بولنے کا ہنر ہمیں سکھاتا ہے کہ زندگی معیاری انداز سے بسر کرنے کی معقول صورت کیا ہوسکتی ہے۔ ہم اپنے ماحول میں موجود لوگوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ جنہیں بولنا آتا ہے اُن سے ہم بولنا سیکھ سکتے ہیں اور جو بولنے کے حوالے سے معمولی سا بھی شعور نہیں رکھتے اُن سے ہم یہ سیکھ سکتے ہیں کہ کب بولنا اور کب خاموش رہنا چاہیے۔ بولنے یا بولتے ہی چلے جانے کو زندگی سمجھ لینے سے ہمارے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ ذہن کو سوچنے پر مائل کرنا فی زمانہ بہت مشکل کام ہے کیونکہ ذہن میں ہر طرف سے اِتنا کچھ داخل ہو رہا ہے کہ سوچنے کی مشق بار بار رُک جاتی ہے۔ ایسے میں جتنی اہمیت بولنے کی ہے کم و بیش اُتنی ہی اہمیت چپ رہنے کی بھی ہے۔ ہم یومیہ بنیاد پر ایسا بہت کچھ دیکھتے، پڑھتے یا سنتے ہیں جو ذہن کو الجھاتا ہے۔ جو کچھ ذہن میں داخل ہوتا ہے وہ کچھ نہ کچھ بولنے پر اُکساتا ہے۔
یہ فیصلہ صرف آپ پر منحصر ہے کہ کتنا بولنا ہے اور کس حد تک خاموش رہنا ہے۔ خاموشی کی اہمیت کو بالعموم نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ بلا جواز اور بلا تکان بولتے رہنے سے توانائی بھی ضائع ہوتی ہے اور فریقِ ثانی کی ذہنی الجھن بھی بڑھتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں