"MIK" (space) message & send to 7575

چند مال داروں کی دنیا

دولت کا حصول انسان کا ایک بنیادی معاملہ رہا ہے۔ جو لوگ دنیا داری کو کچھ نہیں گردانتے اور دنیا کو ہاتھ کا میل قرار دیتے نہیں تھکتے وہ بھی تھوڑے سے مال کا آسرا پیدا ہوتے ہی سارے اصول بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ یہ تماشے آپ نے بارہا دیکھے ہوں گے۔ دنیا کو پانے کی ہوس بیشتر معاملات میں اتنی وسیع اور قوی ہوتی ہے کہ اخلاقی و روحانی اقدار اس کے آگے بند باندھنے میں ناکام رہتی ہیں۔ ہاں! اس ناکامی کو بھی کامیابی کے کھاتے میں ڈالنے کی ذہنیت پروان چڑھاتے ہوئے کام جاری رکھا جانا چاہیے۔ صلاحیت و سکت کا تنوع دنیا میں نیرنگی پیدا کرتا ہے۔ اگر سبھی یکساں صلاحیت و سکت کے حامل ہوں تو دنیا میں کہیں بھی نیرنگی دکھائی نہ دے۔ آج ہمیں دنیا جو رنگ رنگ دکھائی دے رہی ہے تو اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ صلاحیتیں بھی مختلف ہیں اور سکت بھی یکساں نہیں۔ کوئی بہت کچھ کرلیتا ہے اور کسی سے زیادہ نہیں ہو پاتا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جو کم کر پارہا ہے اُسے کمتر قرار دے کر نظر انداز کیا جائے۔ اِسی طور اگر کسی میں بہت زیادہ صلاحیتیں بھری ہیں تو وہ بھی اپنے آپ کو ہر معاملے میں عقلِ کُل نہ سمجھے۔ غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل ہونا اچھی بات ہے مگر یاد رکھا جائے کہ آخرت میں ہر چیز کی طرح اِس کا بھی حساب لیا جائے گا کہ گوناگوں صلاحیتوں کا حامل ہونے پر بھی کسی کی مدد کی یا نہیں کی، کسی کو بہتر زندگی کی طرف رواں کرنے میں معاون ثابت ہوئے یا نہیں۔
یہ دنیا کس طور چلنی چاہیے اس کا تعین ہمارا معاملہ نہیں۔ یہ کام بہت پہلے ہوچکا ہے۔ جس رب نے ہمیں خلق کیا ہے اُسی نے دنیا کو چلانے کے اطوار بھی طے کیے ہیں۔ اِس پوری کائنات کی طرح ہماری دنیا کو چلانے کا نظام بھی خالقِ کائنات نے چند اصولوں کی بنیاد پر استوار کیا ہے۔ ان اصولوں کو چیلنج کیا جاسکتا ہے نہ تبدیل۔ ہمیں اِن اصولوں کے مطابق تبدیل ہونا ہے کیونکہ ہمارے خالق کی منشا یہی ہے۔ اپنے کلام کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ہمیں واضح طور وہ سب کچھ بتادیا ہے جو اُس کے نظام میں ہے اور جس کے مطابق وہ ہمیں زندگی بسر کرنے کی راہ سجھاتا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ ہم محض کٹھ پتلی کی طرح جیے جائیں، ہماری اپنی خواہش یا مرضی کوئی حیثیت نہ رکھتی ہو۔ اپنے طے کردہ نظام کی حدود میں ہمارے پنپنے کی بھی گنجائش رکھی گئی ہے۔ یہ اس لیے لازم تھا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات عادل ہے اور عدل کا تقاضا ہے کہ ہمارے لیے کوئی راہ متعین کرتے وقت ہماری شخصیت کے پنپنے کی گنجائش بھی رکھی جاتی۔ اور یہ گنجائش رکھی گئی۔
ہم سب طے کردہ نظام کے تحت کام کر رہے ہیں۔ اِس نظام کے دائرۂ کار میں ہمارے لیے بہت کچھ ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم کچھ پانا چاہتے ہیں یا نہیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ہمیں دنیا کا کوئی بھی معاملہ سرسری نہیں لینا چاہیے کیونکہ ہم سے کسی بھی معاملے میں اپنائی گئی طرزِ فکر و عمل کا جواب مانگا جائے گا۔ اور ہمیں جواب دینا پڑے گا۔ ایک طرف تو ہمیں اپنی صلاحیت و سکت کا جواب دینا ہے اور دوسری طرف اس بات کے لیے بھی جواب دہ ہونا ہے کہ ہم نے دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کس حد تک کی۔ اللہ تعالیٰ کے نظام کی حدود اور اپنی ذمہ داریوں کا خیال رکھنے والوں کے لیے یہ دنیا قدم قدم پر دارالمحن ہے۔ ایک طرف تو یہاں ہر آن امتحان ہے اور دوسری طرف مشکلات بھی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کے درجے میں رکھتے ہوئے نہ صرف یہ کہ جھیلنا ہے بلکہ اس بات کا خیال بھی رکھنا ہے کہ اپنی کسی بھی مشکل کے تدارک میں دوسروں کو تکلیف نہ پہنچے۔ اگر کسی وجہ سے بہت سا کچرا آپ کے گھر کے سامنے پڑا ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اُسے سمیٹ کر پڑوسی کے دروازے پر ڈال دیا جائے۔ ایسی صورت میں پریشانی ختم نہیں ہوگی بلکہ اُس کا صرف مقام بدل جائے گا۔ کسی بھی پریشانی کو یوں ختم کیا جانا چاہیے کہ وہ محض منتقل نہ ہو بلکہ اُس کا حقیقی تدارک ہو جائے۔ قدرت کے طے کردہ نظام کے تحت کام کرنے کی صورت انسانوں کے لیے آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ مشکلات صرف اُس وقت پیدا ہوتی ہیں جب انسان طے کرتا ہے کہ جو نظام اُسے بخشا گیا ہے وہ تمام زمینی حقائق سے ہم آہنگ نہیں اور یہ کہ اب خود ہی کوئی نظام وضع کرنا پڑے گا۔ قدرت کے طے کردہ اصولوں سے رُو گردانی کی صورت میں انسان کے لیے جو مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں وہ آج ہمارے اطراف بہت بڑے پیمانے پر دکھائی دے رہی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اپنی ہی پیدا کردہ مشکلات میں گِھرے ہوئے ہیں۔ اور یہ عمل جاری ہے یعنی ہم مسلسل گھرتے چلے جارہے ہیں۔
انسان جب صرف اپنے بارے میں سوچتا ہے تب معاشی سطح پر تفاوت کا معاملہ پریشان کن شکل اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔ دولت کے حوالے سے عدم مساوات کسی بھی ماحول یا معاشرے کے لیے انتہائی نوعیت کی پیچیدگیاں پیدا کرتی ہے۔ آج کے بیشتر تباہ حال معاشروں کا جائزہ لیجیے، تجزیہ کیجیے تو یہی معلوم ہوگا کہ وہاں معاشی عدم مساوات نے پَر پھیلائے اور سب کچھ لپیٹ میں لے لیا۔ آج ہمارے ہاں بھی یہی ہو رہا ہے یعنی امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ بعض معاشروں میں یہ معاملہ سنگین شکل کا حامل ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں عام آدمی کو ایسی بہت سی سہولتیں میسر ہیں جن کا پس ماندہ معاشروں میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا مگر پھر بھی عدم مساوات تو ہے ہی اور اُس سے چشم پوشی برتی نہیں جاسکتی۔
کسی بھی معاشرے میں دولت کی تقسیم کے حوالے سے عدم مساوات مکمل طور پر انسانوں کی پیدا کردہ نہیں۔ اللہ کے نظام میں بھی اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ کوئی زیادہ کمائے اور کوئی کم۔ جس میں صلاحیتیں زیادہ ہوں گی وہ زیادہ کمائے گا۔ جو زیادہ محنت کرے گا وہ بھی زیادہ پائے گا۔ یہ کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں۔ خرابیاں اُس وقت پیدا ہوتی ہیں جب غیر معمولی صلاحیت و سکت کے حامل افراد معاملات پر اپنا تصرّف قائم کرتے ہوئے دوسروں کا حق مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ضرورت سے کہیں زیادہ کمانا بُری بات نہیں، دوسروں کو ضرورت کے مطابق کمانے کے قابل بھی نہ چھوڑنا البتہ بہت بُری بات ہے۔ یہ رجحان انتہائی قبیح ہے جس کے تدارک کے لیے سوچنے کی ضرورت ہے۔ آج دنیا کا نظام کچھ اِس نہج کا ہے کہ دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہوتی جارہی ہے۔ یہ بہت حد تک ٹیکنالوجی کا کمال ہے۔ انسان میں پائی جانے والی طمع اپنی جگہ مگر ٹیکنالوجی اِس طمع کو پروان چڑھاتے ہوئے ساری دنیا کی دولت کو چند ہاتھوں میں ڈال رہی ہیں۔ دولت جن کے ہاتھوں میں مرتکز ہو رہی ہے وہ ایسا عالمی نظام چاہتے ہیں جس میں سب کچھ اُن کی مرضی کے مطابق چلتا رہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ کمزوروں کو بُری حالت میں رکھا جائے، اُن کے ابھرنے کی گنجائش ہی ختم کردی جائے۔ اور ایسا ہی کیا جارہا ہے۔
آج دنیا چند مال داروں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر رہ گئی ہے۔ اُن کی مرضی سے فیصلے ہو رہے ہیں اور اُنہی کی مرضی کے مطابق دنیا کو چلایا جارہا ہے۔ جس طور کسی ماحول میں فرد کے پنپنے کی گنجائش کم رہ جاتی ہے بالکل اُسی طور آج پورے پورے معاشرے مجبورِ محض اور غیر مؤثر ہیں۔ اُن کی حیثیت عضوِ معطل کی سی رہ گئی ہے۔ اب دنیا بھر میں انتہائی مال دار افراد اور اُن کے قائم کردہ اداروں کے خلاف تحریک شروع ہوئی ہے۔ اِن افراد اور اداروں کے خلاف دستخطی مہم میں 50 کروڑ سے زائد افراد حصہ لے چکے ہیں۔ پس ماندہ معاشروں کو قعرِ مذلّت سے نکالنے کے لیے دولت کی منصفانہ تقسیم کی طرف جانا لازم ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انتہائی مال دار افراد کے خلاف تحریک جاری رہنی چاہیے۔ دنیا کے انتہائی امیر اور مال دار افراد کی چیرہ دستیوں کے آگے بند باندھنا ناگزیر ہے۔ تاخیر صرف نقصان سے ہم کنار کرے گی۔ عالمی معاشی نظام کو قدرت کے اصولوں کے مطابق چلانے کے لیے اُن تمام معاشروں کو متحد ہونا پڑے گا جن میں اب بھی کچھ سکت باقی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں