نویں اور دسویں جماعت کے امتحانات ہوچکے ہیں۔ اب گیارہویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات ہو رہے ہیں۔ ہر سال جب امتحانات کا موسم آتا ہے تب اُمیدوں، آرزوؤں اور امنگوں کا موسم بھی وارد ہوتا ہے۔ نئی نسل میں ویسے ہی آنے والے دور کے حوالے سے غیر معمولی جوش و خروش پایا جاتا ہے جو امتحانات کے موسم میں مزید بڑھ جاتا ہے۔ یہ جوش و خروش نعمت سے کم نہیں کیونکہ اِسی کی بدولت زندگی کا رخ تبدیل ہوتا ہے، کچھ نیا کرنے کا حوصلہ ملتا ہے، اپنے پورے وجود کو بروئے کار لانے کی ذہنیت پروان چڑھتی ہے۔ اولاد کا جوش و جذبہ دیکھ کر والدین بھی خاصے پُرجوش دکھائی دیتے ہیں۔ اولاد کے تاب ناک مستقبل کے بارے میں سوچنے کی تھوڑی بہت تحریک ملتی ہے اور اِس حوالے کچھ کرنے کی راہ بھی نکلتی ہے۔
فی زمانہ ایک بہت بڑا اور بہت حد تک بنیادی مسئلہ نئی نسل کو راہِ راست پر ڈالنا ہے۔ اٹھتی جوانی میں مستقبل کے حوالے سے آنکھوں میں خواب بسے رہتے ہیں۔ خوش فہمیاں اور غلط فہمیاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ نئی نسل چونکہ جذباتی ہوتی ہے اور حقیقت کی دنیا سے زیادہ آشنا بھی نہیں ہوتی اس لیے اہم فیصلوں کے معاملے میں اُس کی ''دانش‘‘ پر بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔ نئی نسل اپنے لیے درست راہ کا تعین بالعموم نہیں کر پاتی اور اس حوالے سے راہ نمائی کی حاجت مند ہوا کرتی ہے۔ عنفوانِ شباب کا عالم ذہن کو متوازن رہنے نہیں دیتا۔ ایسے میں انسان ایسا بہت کچھ سوچتا ہے جو اُس کی ضرورت اور گنجائش سے زیادہ یا ہٹ کر ہوتا ہے۔ اگر بروقت راہ نمائی کا اہتمام نہ کیا جائے تو معاملات الجھتے چلے جاتے ہیں۔
ترقی یافتہ اور مہذب معاشروں میں نئی نسل کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنے پر غیر معمولی توجہ دی جاتی ہے۔ یہ سر بسر عقلِ سلیم کا تقاضا ہے۔ نئی نسل کے لیے اگر کوئی سوچ سکتا ہے تو وہ تجربہ کار نسل ہی ہے جو عملی زندگی کی کئی بہاریں دیکھ چکی ہو۔ وہ جب نئی نسل کے بارے میں کچھ سوچتی ہے تو بہتری کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ ایسے میں بدلتے ہوئے زمانے کے تقاضوں کو سمجھنا اور برتنا قدرے آسان ہو جاتا ہے۔
ہر عہد کے نوجوانوں نے عملی زندگی شروع کرتے وقت غیر معمولی دباؤ یا ذہنی تناؤ محسوس کیا ہے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں جس پر ضرورت سے زیادہ پریشان ہوا جائے۔ اگر آج کی نئی نسل عملی زندگی کے حوالے سے الجھی ہوئی ہے تو یہ فطری امر ہے۔ کسی بھی عہد میں نئی نسل کے لیے جو الجھنیں اور پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں وہی آج بھی پائی جارہی ہیں۔ قدم قدم پر خوف بھی محسوس ہوتا ہے اور دل میں پروان چڑھنے والا ولولہ ہر خوف کو بالائے طاق رکھ کر آگے بڑھنے کی تحریک دے رہا ہوتا ہے۔ عنفوانِ شباب کی منزل میں پائے جانے والے خوف سے پریشان ہونے کے بجائے اُسے ہضم کرنے کی تربیت دی جانی چاہیے تاکہ نئی نسل کو اندازہ ہو کہ کوئی بھی خوف اس لیے نہیں ہوتا کہ ہمت ہار کر بیٹھ رہا جائے بلکہ در حقیقت ہر خوف صرف اس لیے ہوتا ہے کہ نئی سوچ اور نئے لائحۂ عمل کے ساتھ میدان میں آکر اپنے آپ کو ثابت کرنے کی ذہنیت اپنائی جائے۔ حتمی تجزیے میں تو خوف ہی ہمیں کچھ نیا اور منفرد کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ اگر معاملات پریشان نہ کریں تو ہم سوچیں کیوں؟ مختلف مشکلات ہی تو ہمیں سوچنے اور کچھ کرنے کی راہ پر ڈالتی ہیں۔
نوجوان چاہے کسی معاشرے، نسل، مذہب اور ثقافت کے ہوں، اُنہیں بڑوں کی طرف سے حوصلہ افزائی اور راہ نمائی کی ضرورت پڑتی ہی ہے۔ اپنے لیے موزوں ترین راہِ عمل کا انتخاب کرنے کی اہلیت رکھنے والے نوجوان ہر معاشرے میں خال خال ہوتے ہیں۔ یہ مرحلہ ہوتا ہی ایسا ہے کہ مؤثر اور متعلق راہ نمائی کے بغیر کام بنتا نہیں۔ چند ایک نوجوان اپنے طور پر کچھ طے کرلیتے ہیں اور کامیاب بھی ہو جاتے ہیں مگر اُن کا یہ عمل کُلیے کا درجہ نہیں رکھتا۔ قدرت نے بعض انسانوں میں غیر معمولی ذہانت رکھی ہوتی ہے۔ وہ ماحول کے مطابق بہت تیزی سے تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگ دوسروں کے لیے مثال کا درجہ رکھتے ہیں مگر ہر نوجوان یا ہر انسان اس سطح کا نہیں ہوتا کہ اپنے طور پر کچھ طے کرے اور کامیابی کی راہ پر گامزن ہو جائے۔ تخصیص کو تعمیم قرار دے کر مطمئن نہیں ہوا جاسکتا۔
آج پاکستانی نوجوانوں کے ذہن بھی الجھے ہوئے ہیں۔ بہت سے عوامل نے مل کر اُنہیں راہِ راست سے بہت دور کردیا ہے۔ بہت سی قبیح عادات نے نئی نسل کو جکڑ رکھا ہے جس کے نتیجے میں وہ ڈھنگ سے جینے کے قابل نہیں ہو پارہے۔ تعلیم و تربیت میں بھی کمی پائی جاتی ہے اور زندگی بسر کرنے کے آداب کے حوالے سے بھی وہ بہت حد تک کورے ہیں۔ اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے کی زندگی جس نوعیت کے نظم و ضبط کی متقاضی ہے وہ اُن میں برائے نام پایا جاتا ہے۔ نوجوانوں کی اکثریت غیر معمولی صلاحیت و سکت کے باوجود کچھ خاص نہیں کر پارہی۔ اس کا بنیادی سبب ہے کہ زندگی سے نظم و ضبط اور منصوبہ سازی کا عنصر غائب ہے۔ زندگی کو بسر نہیں کیا جارہا بلکہ اُسے وقت اور حالات کے دھارے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ جہاں جی چاہے لے جائے۔ یہ روش بالکل درست نہیں! زندگی کوئی ایسا معاملہ نہیں جسے حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ اِسے محض امیدوں کا جھولا نہیں جھلایا جاسکتا۔ لازم ہے کہ زندگی کا معیار بلند کرنے کے حوالے سے منظم اور مربوط سوچ اپنائی جائے۔ نئی نسل کے حوالے سے یہ معاملہ یوں بھی غیر معمولی اہمیت اور حساسیت اختیار کر جاتا ہے۔
ہم ہر شعبے میں شدید مسابقت کی دنیا میں جی رہے ہیں۔ ایک دور تھا کہ صلاحیت کا اظہار کرنے کے مواقع کم مل پاتے تھے۔ اب صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع تو بہت ہیں، ٹھوس انداز سے کچھ کر دکھانے کی گنجائش کم رہ گئی ہے۔ اب کسی بھی شعبے میں کچھ نہ کچھ کرنے میں تو کوئی بھی کامیاب ہوسکتا ہے؛ تاہم نام کمانے اور اپنی صلاحیت و سکت کا لوہا منوانے کے معاملے میں ایسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ دانتوں پسینہ آ جاتا ہے۔
تمام کامیاب، منظم اور مہذب معاشروں میں نئی نسل کو بہتر زمانوں کے لیے تیار کرنے پر اچھی خاصی توجہ دی جاتی ہے۔ بہت چھوٹی عمر سے رجحان کا تعین کرکے متعلقہ مہارت پیدا کرنے پر بہت محنت کی جاتی ہے۔ بچے جب عہدِ شباب کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں تب تک اُن کے کیریئر کی راہ بہت حد تک متعین ہوچکی ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ خود بخود یا بچوں کی مرضی سے نہیں ہوتا بلکہ بڑوں کو اُن کا مستقبل تابناک بنانے کے لیے سنجیدہ ہونا پڑتا ہے۔ جب شعوری کوشش کی جاتی ہے تب بچوں کو درست یا موزوں راہ ملتی ہے۔ ہمارے ہاں نئی نسل کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنے کے حوالے سے شعور کی جو سطح درکار ہے وہ والدین میں نہیں پائی جاتی۔ سچ تو یہ ہے کہ اِس کا احساس تک نہیں ہے۔ معاملات کو یوں چھوڑ دیا جاتا ہے گویا وہ خود بخود درست ہو جائیں گے، نئی نسل اپنے طور پر بہت کچھ بن جائے گی۔ یہ تمام معاملات شعوری کوشش کے متقاضی ہوتے ہیں اور ہر بڑی کامیابی شعوری کوشش ہی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ہمیں بھی اپنی نئی نسل کو تابناک مستقبل کے لیے تیار کرنے کے معاملے میں شعوری کد و کاوش کی طرف جانا ہوگا۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کسی بھی بچے کو بہتر مستقبل کے لیے اُسی وقت اچھی طرح تیار کیا جاسکتا ہے جب اُسے اُس کے مزاج اور شغف سے مطابقت رکھنے والے شعبے میں آگے بڑھنے کی تحریک دی جائے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں بچوں کا رجحان جانچنے پر بہت محنت کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں اکثر یہ ہوتا ہے کہ نوجوانوں کو سات آٹھ سال تک محنت کرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ وہ غلط شعبے میں آگئے ہیں۔ پھر کچھ لوگ بحالتِ مجبوری اُسی شعبے سے چمٹے رہتے ہیں اور کچھ لوگ نیا شعبہ منتخب کر لیتے ہیں۔ اس صورت میں بھی پہلے شعبے میں کی جانے والی محنت تو غارت جاتی ہی ہے‘ نئے شعبے میں بھی دگنی محنت کرنا پڑتی ہے۔ زندگی بھر کے لیے راہ منتخب کرنے پر کی جانے والی محنت منزل کی طرف پہلا بڑا قدم ہے۔