یوسف خان یعنی دلیپ صاحب کو ہم سے بچھڑے ایک سال ہوگیا۔ دلیپ صاحب بھرپور زندگی بسر کرنے کے بعد دنیا سے رخصت ہوئے۔ اُنہوں نے زندگی کے کسی بھی پہلو کو تشنہ رہنے نہیں دیا۔ کیریئر بھی شاندار رہا اور گھریلو زندگی بھی قابلِ رشک رہی۔ ساتھ ہی ساتھ زندگی بھر فلاحی سرگرمیوں کے حوالے سے قائدانہ کردار بھی ادا کرتے رہے۔ سائرہ بانو سے اُنہوں نے 1966ء میں شادی کی تھی۔ دلیپ صاحب شادی کی 55 ویں سالگرہ منانے کے بعد دنیا سے گئے۔ اُن کی ازدواجی زندگی مجموعی طور پر خوش گوار رہی۔ سائرہ بانو نے وفا شعار اور مہربان بیوی ہونے کا حق ادا کیا۔ آخری پندرہ سال اُنہوں نے دلیپ صاحب کا اِتنا خیال رکھا کہ دنیا حیران رہ گئی۔ وہ خود بھی بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکی تھیں مگر شوہر کی صحت اور آرام کا خیال رکھنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔
دلیپ صاحب کو تا دمِ مرگ بالی وُڈ یعنی ممبئی کی فلم انڈسٹری میں بے تاج بادشاہ کی حیثیت حاصل رہی۔ اُنہوں نے 1950ء کے عشرے ہی سے فلم انڈسٹری میں قائدانہ کردار ادا کرنا شروع کردیا تھا۔ یہ کردار اُنہیں کسی نے طشتری میں رکھ کر نہیں دیا بلکہ اُنہوں نے بھرپور محنت کے ذریعے یقینی بنایا۔ دلیپ صاحب کو عنفوانِ شباب ہی سے مطالعے کا غیر معمولی شوق تھا۔ فلمی دنیا میں قدم رکھنے تک وہ بہت کچھ پڑھ چکے تھے۔ فلموں میں آنے کے بعد مزید پڑھنا پڑا کیونکہ یہ نیا شعبہ تھا جس میں وہی لوگ آگے بڑھ سکتے تھے جو خوب پڑھتے اور سوچتے تھے۔ بالی وڈ میں ہمیشہ مختلف انداز اور مزاج کے گروپ رہے ہیں۔ اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کے حامل افراد بھی فلموں کا حصہ رہے ہیں اور عمومی سی ذہنیت کے حامل افراد بھی فلمی دنیا کے ساتھ ساتھ چلتے رہے ہیں۔ ایک بات طے ہے‘ وہ یہ کہ جو انڈسٹری کے نظم و ضبط کا احترام نہیں کرتا وہ زیادہ دور اور زیادہ دیر تک چل نہیں پاتا۔ دلیپ صاحب کا حلقہ اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کے حامل افراد کا تھا۔ وہ خود بھی انتہائی سنجیدہ تھے اور دوسروں میں بھی یہی وصف دیکھنا چاہتے تھے۔ چند برس قبل شایع ہونے والی اپنی آپ بیتی ''دی سبسٹنس اینڈ دی شیڈو‘‘ میں انہوں نے اپنے بارے میں اور اپنے فن کے بارے میں بہت کچھ بتایا۔ انہوں نے فلم انڈسٹری میں قدم رکھنے کے بعد پیش آنے والی مشکلات اور اُن کے تدارک کے مراحل سے اپنے چاہنے والوں کو آگاہ کیا۔ اس کتاب کو پڑھ کر بہت سوں کو اندازہ ہوگا کہ گہر بننے تک قطرے پر کیا کیا گزری!
کسی بھی شعبے میں نام کمانا کبھی آسان نہیں رہا۔ ہر دور کے انسان کو کچھ بننے کے لیے بہت محنت کرنا پڑی ہے۔ ہمیں یہ بات بھولنی نہیں چاہیے کہ جب دلیپ صاحب نے کیریئر شروع کیا تھا تب ممبئی کی فلم انڈسٹری موجود تو تھی مگر وہ اِس کا عہدِ طفولیت ہی تھا۔ نمو کی بہت گنجائش تھی۔ تب تک بہت سے معاملات میں تکنیک خام تھی۔ کہانیاں کمزور ہوا کرتی تھیں، کہانیوں کی ٹریٹمنٹ میں جان پیدا کرنا کم لوگوں کو آتا تھا۔ بیشتر فلم ساز یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ کسی بھی فلم کو تمام پہلوؤں سے مکمل اور بے داغ کیسے بنایا جاسکتا ہے۔
دلیپ صاحب نمایاں حد تک صاحبِ مطالعہ تھے۔ جب فلم انڈسٹری میں مارکیٹنگ کے جدید ترین تصورات عام نہیں ہوئے تھے تب انہوں نے فلم میکنگ کو انڈسٹری اور فلم کو پروڈکٹ کے طور پر دیکھنا شروع کیا۔ اِس حقیقت کو سمجھنے میں انہوں نے زیادہ دیر نہیں لگائی کہ کوئی بھی فلم محض گانوں، کہانی یا اداکاری کے بل پر کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اُنہوں نے فلمی حلقوں میں اس سوچ کو عام کیا کہ کسی بھی فلم کو تقریباً تمام پہلوؤں سے جامع ہونا چاہیے۔ گانے بھی اچھے ہونے چاہئیں، کہانی بھی جاندار ہونی چاہیے، مکالمے بھی سنسنی خیز اور ڈرامائی ہونے چاہئیں، سنیماٹو گرافی (کیمرا مین شپ) کا شعبہ بھی نظر انداز نہ کیا جائے، سیٹ دلکش اور منظر کی ضرورت کی مطابق ہونا چاہیے، آؤٹ ڈور لوکیشن بھی بے جان نہیں ہونی چاہیے۔ 1940ء کے عشرے میں کہانی اور مکالموں پر زیادہ زور نہیں دیا جاتا تھا۔ سکرین پلے میں ڈرامائیت کا عنصر بھی زیادہ توجہ کا حامل نہیں ہوتا تھا۔ عام فلم میکر یہ سمجھتا تھا کہ چند اچھے گانے اور رقص شامل کرکے فلم کو کامیابی سے ہم کنار کیا جاسکتا ہے۔ یہ فارمولا اِتنا استعمال کیا گیا کہ چند ہی برس میں گِھس اور پِٹ گیا۔ دلیپ صاحب نے اداکاری کو باضابطہ فن میں تبدیل کیا۔ اُن سے پہلے کے اداکار کیمرے کے سامنے کھڑے ہوکر چند جملے بول لینے کو اداکاری سمجھ کر خوش ہولیا کرتے تھے۔ منظر کے تقاضوں کے مطابق تیاری کرنے میں بیشتر اداکار زیادہ دلچسپی نہیں لیتے تھے۔ دلیپ صاحب بہت سوچ سمجھ کر فلم قبول کرتے تھے۔ وہ ہر آفر کو سب کچھ سمجھ کر قبول کرنے کا نتیجہ دیکھ چکے تھے۔ کئی اداکار محض اس لیے ناکام ہوئے کہ ایک فلم کے کامیاب ہوتے ہی کئی بے تُکی فلمیں قبول کیں اور پھر اُن عامیانہ فلموں کے ہاتھوں اُن کی مقبولیت کا گراف گرتا چلا گیا۔
دلیپ صاحب کسی بھی فلم کی تیاری کے دوران سکرپٹ رائٹرز، موسیقار، نغمہ نگار، سنیماٹو گرافر وغیرہ کے ساتھ بیٹھ کر فلم کے ایک ایک پہلو پر دل کھول کر تبادلۂ خیال کیا کرتے تھے۔ وہ محض سکرپٹ نہیں بلکہ پوری فلم میں ڈوب جایا کرتے تھے۔ اُنہیں صرف اپنی کارکردگی کے اعلیٰ معیار سے غرض نہیں ہوتی تھی بلکہ دوسروں سے بھی بہترین معیار کی توقع رکھتے تھے، اِس کا تقاضا کرتے تھے۔ وہ جب بھی کسی فلم کی شوٹنگ میں مصروف ہوا کرتے تھے تب وہ فلم خبروں میں بھی نمایاں ہونے لگتی تھی۔ سیٹ پر رونما ہونے والے واقعات بھی لوگوں کے لیے بہت دلچسپ ہوا کرتے تھے۔ دلیپ صاحب اپنے کام سے اس قدر انصاف کرتے تھے کہ اُن کے ساتھ کام کرنے والے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے تھے اور وہ بھی اپنا معیار بلند کرنے میں خوب دلچسپی لیتے تھے۔دلیپ صاحب نے ثابت کیا کہ کوئی چاہے تو اپنے شعبے کی کمزوری کے باوجود اپنے آپ کو مضبوط بنا سکتا ہے۔ وہ اُن نمایاں شخصیات میں سے تھے جنہوں نے بھارتی فلم انڈسٹری کو مضبوط بنانے اور ایک باضابطہ شکل دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ دلیپ صاحب کو سوانح، ناول، ڈرامے اور کلاسیکی ادب سے خاص شغف تھا۔ گھر میں بیشتر وقت مطالعے پر صرف کرتے تھے یا پھر اپنی کسی فلم کے سکرپٹ میں ڈوبے رہتے تھے۔ یہ سب کچھ اُن کی شخصیت میں خوب داخل اور شامل ہوا۔ سکرین کے سامنے اُن کے تاثرات بتاتے تھے کہ وہ اپنے کام میں کتنے ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہ سب کچھ وسیع البنیاد مطالعے کے ذریعے ہی سے ممکن ہوسکا۔دلیپ صاحب نظم و ضبط کے پابند تھے۔ افراتفری اُنہیں بالکل پسند نہ تھی۔ شور تو بہت دور کا معاملہ رہا، شوٹنگ کے دوران وہ کسی بھی طرح کی معمولی سی بے جا یا غیر ضروری آوازبھی پسند نہیں کرتے تھے۔ کام کے وقت اُنہیں صرف کام پسند تھا۔ اُن سے تین نسلوں نے صرف اداکاری نہیں بلکہ کام سے محبت کرنے کا ہنر بھی سیکھا۔ آج اُنہیں غیر معمولی مقام حاصل ہے تو یہ سب یونہی نہیں ہے۔ وہ مرتے دم تک خبروں میں رہے تو اِس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ وہ کام کے معیار کے حوالے سے کسی بھی نوع کی سودے بازی کے روادار نہ تھے۔ اُن کی چند ایک فلمیں ناکام بھی رہیں مگر اُن کی محنت بہرحال سراہی گئی۔
دلیپ صاحب کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ وہ اپنے وقت سے بہت آگے تھے۔ راج کپور، دیو آنند، بی آر چوپڑا، یش چوپڑا، نوشاد علی، محبوب خان، ستیہ جیت رے، راج کھوسلا، شکتی سامنت، وجے آنند اور دوسری بہت سی فلمی شخصیات نے مل کر بالی وڈ کو عروج بخشا۔ بعد کی نسلوں میں امیتابھ بچن، ونود کھنہ، راجیش کھنہ، شتروگھن سنہا، متھن چکر ورتی، اوم پوری، امریش پوری، نصیرالدین شاہ، شاہ رخ خان، عامر خان، سلمان خان اور دوسرے بہت سے فنکاروں نے بھی اپنے فن کا لوہا منوایا۔ اِس پوری کہکشاں میں دلیپ صاحب سب سے روشن ستارہ ہیں۔ دلیپ صاحب کی شخصیت ہر اُس انسان کے لیے تحریک و تحرّک کا ذریعہ ہے جو کچھ کرنا چاہتا ہے۔ اُن کی شخصیت کی تشکیل اور کامیابی کے سفر سے متعلق پڑھ کر نئی نسل بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔ دلیپ صاحب کی آپ بیتی تو بہت کچھ بیان کرتی ہی ہے، دوسرا بہت سا مواد بھی اُنہیں سمجھنے میں غیر معمولی حد تک مدد دیتا ہے۔