بدلتی ہوئی عادتوں نے پورے معاشرے کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ عادتوں کا بدلنا اچھی بات ہے مگر صرف اُس وقت جب اچھائی دکھائی دے رہی ہو۔ عادتوں کے بدلنے کی صورت میں اگر صرف بُرائی دکھائی دے رہی ہو تو لوگ مزید الجھتے ہیں۔ انفرادی الجھنیں بہت زیادہ پریشان کن نہیں ہوتیں مگر جب انسان پورے معاشرے کے آئینے میں اپنا آپ پرکھتا ہے تب دل بیٹھ بیٹھ جاتا ہے۔ اجتماعیت کے اپنے فوائد اور نقصانات ہیں۔ اگر کسی اچھے کام کے لیے سب جمع ہوں تو نتائج بہت حوصلہ افزا برآمد ہوتے ہیں اور انفرادی کارکردگیوں کا مجموعہ اپنی اصل سے کئی گنا ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس کسی بُرے کام کے حوالے سے اجتماعیت اپنی اصل سے کہیں زیادہ پریشانی لاتی ہے‘ بہت بڑی مصیبت بن جاتی ہے۔
آن لائن کلچر کے دور میں جینے کے اپنے فوائد اور اپنے ہی نقصانات ہیں۔ فوائد بھی اتنے ہیں کہ شمار کرتے جائیے اور تھک جائیے۔ دوسری طرف نقصانات کا معاملہ بھی ایسا ہے کہ گنتے جائیے اور ذہنی انتشار کا گراف بلند کرتے جائیے۔ ہر وقت آن لائن رہنے کو اپنے مزاج کا حصہ بنانے والوں کو ہم نے انتہائی نوعیت کی ذہنی پیچیدگیوں سے دوچار ہی دیکھا ہے۔ ایسا بھلا کیوں نہ ہو کہ وقت کا یومیہ حصہ تو سب کیلئے یکساں ہے۔ ہر انسان کو اللہ کی طرف سے روزانہ جو چوبیس گھنٹے عطا کیے جاتے ہیں اُنہیں ڈھنگ سے بروئے کار لانے کے لیے سوچنا پڑتا ہے۔ یہ کام خود بہ خود نہیں ہوتا‘ شعوری کوشش لازم ٹھہرتی ہے۔ شعوری کوشش یعنی یہ کہ معاملات پر اچھی طرح غور کیا جائے‘ منصوبہ سازی کی جائے اور پورے ناپ تول کے ساتھ جیا جائے۔ وقت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے کی اور کوئی صورت نہیں۔ اپنے ماحول میں اور اس سے باہر کامیاب زندگی بسر کرنے والوں کے شب و روز پر ایک طائرانہ سی نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ وقت کو پورے حساب کتاب سے بروئے کار لانے کی شعوری کوشش ہی انسان کو بڑی اور حقیقی کامیابی سے ہم کنار کرتی ہے۔ وقت کا معاملہ بہت عجیب ہے۔ اِسے ضائع کرنے والے برباد ہو جاتے ہیں اور پوری شعوری کوشش کے ساتھ اسے ڈھنگ سے بروئے کار لانے کی کوشش کرنے والوں کو بھی کم ذہنی انتشار نہیں ملتا۔ خیر‘ متوجہ ہونے کی صورت میں وقت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے کی سبیل تو نکلتی ہے اور انسان کم وقت صرف کرکے زیادہ کام کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے۔
ماہرین کو بہت سے رجحانات پریشانی سے دوچار کیے ہوئے ہیں۔ ایک خطرناک رجحان یہ ہے کہ لوگ اب صبر و تحمل کی دولت سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ آن لائن کلچر نے انسان کی بے صبری کو ہلاکت خیز انداز بخشنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ انٹرنیٹ کا بڑھتا ہوا استعمال انسان کو اُس مقام تک لے آیا ہے جہاں صرف بے صبری رہ گئی ہے۔ انٹرنیٹ بہت زیادہ استعمال کرنے کے عادی صبر کی دولت سے ایسے محروم ہیں کہ دیکھے ہی بنتی ہے۔ آج کا انسان بہت سے معاملات میں ایسی ذہنی پیچیدگیوں کا شکار ہے جن کا کل تک تصور بھی نہ تھا۔ پچیس تیس سال پہلے تک زندگی میں تیزی نہ تھی۔ انسان نے کم و بیش تین ہزار سال کی فکری کاوشوں کی بدولت جو ترقی ممکن بنائی تھی اُس کے نتیجے میں بہت کچھ حاصل ہوا تھا مگر پھر بھی تین عشروں پہلے تک زندگی کی رفتار قابو میں تھی۔ ایجاد و اختراع کا بازار ایسا گرم نہ تھا کہ سبھی کچھ بھسم کر ڈالے۔ بازاروں میں مصنوعات کے ڈھیر نہیں لگے تھے۔ زندگی کو آسان بنانے والی اشیاء بازار میں آ تو رہی تھیں مگر اپنا کام ہی کر رہی تھیں یعنی زندگی کو آسان بنا رہی تھیں۔ معاملہ آج کا سا نہ تھا کہ جو کچھ آسانی کے نام پر آرہا ہے وہ زندگی کو مزید مشکل بنارہا ہے۔
اب معاملہ عجلت پسندی کی منزل میں اٹک گیا ہے۔ زندگی کی ٹرین بے صبری کے سٹیشن پر رُک گئی ہے‘ بلکہ رُکی ہوئی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ٹرین آگے بڑھے تو کیسے بڑھے۔ ہم گرین سگنل دینے کو تیار ہی نہیں۔ ہمارے نزدیک بے صبری کے اسٹیشن پر ٹھہرنے‘ بلکہ ٹھہرے رہنے کا مزا کچھ اِس نوعیت کا ہے کہ دل بھرنے کا نام نہیں لے رہا۔ ہم نے اِسی طرزِ حیات کو زندگی سمجھ کر اِس منزل میں ٹھہرے رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
نفسی امور کی پیچیدگیوں پر نظر رکھنے والوں کو اس بات کا دکھ ہے کہ لوگ اب کسی بھی معاملے پر خاطر خواہ توجہ مرکوز رکھنے کی صلاحیت و سکت سے محروم ہو چکے ہیں۔ انٹرنیٹ پر مختلف ایپس کی مدد سے جتنا بھی مواد عام آدمی تک پہنچ رہا ہے وہ اُس کی وصول کرنے کی صلاحیت سے کہیں زیادہ ہے۔ انسان کو بھوک لگی ہو تو جو کچھ بھی میسر ہو وہ اچھا ہی لگتا ہے۔ اور اگر کھانے پینے کی اشیاء ضرورت سے کہیں زیادہ ہوں اور تنوع بھی بے مثال ہو تو؟ کیا ایسی حالت میں انسان اپنی ضرورت سے زیادہ کھا سکتا ہے؟ کھا تو سکتا ہے مگر اُس کا نتیجہ بھگتنے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ ہمارے سامنے کھانے پینے کے لیے چاہے کچھ بھی دھرا ہو‘ ہمیں اُتنا ہی کھانا چاہیے جتنا کھایا جا سکتا ہے۔ آج کے انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ انٹرنیٹ کے دستر خوان سے ایک وقت میں دس وقتوں کا کھانا کھارہا ہے! اِس کے نتیجے میں بدہضمی ناگزیر ہے۔ جب ذہن کو بہت زیادہ کھلایا جائے گا تو اُس کا معدہ بھی خرابی کی طرف ہی جائے گا۔
آج پاکستانی معاشرے کا بھی وہی حال ہے جو دوسرے بہت سے پس ماندہ معاشروں کا ہے۔ لوگ اپنے معاملات درست کرنے پر متوجہ رہنے کے بجائے صرف اس بات سے مطمئن ہیں کہ انٹرنیٹ کی دنیا سے مستفید ہوتے ہوئے دل کو خوش رکھنے کا اہتمام تو کر پاتے ہیں۔ سوال انٹرنیٹ کے ذریعے تفریحِ طبع کا اہتمام کرنے کا نہیں۔ اگر اتنا بھی ہو تو کچھ خاص بُرا نہ سمجھا جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ عام پاکستانی انہماک کی دولت سے ہاتھ دھو چکا ہے۔ بے صبری مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔ لوگ سبھی کچھ بہت تیزی سے دیکھنا‘ سمجھنا اور برتنا چاہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ لوگ انٹرنیٹ کو تفریحِ طبع کے لیے استعمال کرتے وقت بھی بھرپور لطف سے محروم رہتے ہیں۔ تین چار منٹ کا گانا بھی سنا نہیں جاتا۔ لوگ محض دس پندرہ سیکنڈ کے لیے کوئی گیت سن کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ بہت حد تک غیر محسوس طور پر ہوتا ہے۔ شارٹ وڈیوز دیکھنے کا شوق اس حد تک پروان چڑھ چکا ہے کہ اب طویل دورانیے کی کام کی وڈیو دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔ لوگ چاہتے ہیں کہ ایک سے ڈیڑھ منٹ کی وڈیوز میں سبھی کچھ بیان ہو جائے‘ سبھی کچھ دیکھنے اور سُننے کو مل جائے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب انہماک کا انتہائی دورانیہ محض تیس سیکنڈز کے آس پاس رہ گیا ہے۔ لوگ سوشل میڈیا پر پیش کیا جانے والا مواد دیکھتے وقت بھی کسی ایک پوسٹ کا مواد سرسری طور پر دیکھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ایک گھنٹے میں ڈھائی تین سو پوسٹوں کا مواد دیکھ کر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایک دنیا دیکھ لی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس طور دیکھنا کسی بھی درجے میں دیکھنا نہیں ہوتا کیونکہ اِس طور نہ کچھ سمجھ میں آتا ہے اور نہ ہی اُس سے مستفید ہوا جاسکتا ہے۔
آج کی نئی نسل بہت کچھ بہت تیزی سے جاننا چاہتی ہے اور اس کوشش میں وہ کچھ بھی نہیں جان پاتی۔ قدرت نے ہمارے لیے جو رفتار مقرر کی ہے اُس سے زیادہ یا کم رفتار کے ساتھ چلنا ہمارے لیے یا تو کسی کام کا نہیں ہوتا یا پھر مطلوب نتائج نہیں دے پاتا۔ بے صبری ایک ایسا وصف ہے جو انسان کو صرف انتشار کی طرف لے جاتا ہے۔ لازم ہے کہ اِس سے جان چُھڑا کر اہم معاملات پر بھرپور یا مطلوب توجہ دی جائے۔ کسی بڑے مقصد کی تکمیل کے لیے مطلوب انہماک اب ہمارے ہاں جن میں پایا جاتا ہے وہ خال خال ہیں۔ یہ مفت کی‘ بلا جواز بے قراری اور بے صبری ہمیں کہیں کا رہنے نہ دے گی۔