جھویر چند میگھانی کا شمار گجراتی زبان کے بڑے ادیبوں میں ہوتا ہے۔ اُن کے صاحبزادے مہیندر میگھانی اور پوتے گوپال میگھانی نے بھی گجراتی زبان و ادب کی غیرمعمولی خدمت انجام دی ہے اور سستی و معیاری کتابوں کی اشاعت کا ادارہ کئی عشروں تک چلایا ہے۔ ایک بار کسی نے گجراتی زبان و ادب کے قارئین سے متعلق پوچھا تو جھویر چند میگھانی نے کہا ''ہمارے لوگ تو گائے کی طرح ہیں جو سبز چارے کے ساتھ ساتھ کچرا بھی چَر جاتی ہے‘‘۔ جھویر چند میگھانی نے یہ بات کم و بیش 60 سال پہلے کہی تھی۔ المیہ یہ ہے کہ اُن کا کہا آج بھی برحق ہے!
اردو والوں کا معاملہ بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ ہمارے ہاں بھی قارئین نے معاملات کو ایسا ڈھیلا چھوڑا ہے کہ ہر بنی ہوئی بات بگڑتی ہی چلی گئی ہے۔ گجراتی زبان ہی کے ایک معروف ادیب سُریش جوشی نے کہا ہے کہ بعض ''اَن پڑھ مصنفین‘‘ نے گجراتی زبان و ادب پڑھنے والوں کا مزاج بگاڑ دیا ہے۔ سُریش جوشی نے یہ بات انتہائی پست نوعیت کی کتابوں کی بڑھتی ہوئی فروخت کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہی تھی۔ اُن کی بات صرف گجراتی زبان و ادب تک محدود نہیں۔ برِصغیر کی بیشتر زبانوں کا یہی حال ہے۔
پاکستان میں باقاعدگی سے پڑھنے والوں کی تعداد روز بروز گھٹ رہی ہے۔ مطالعے کو زندگی کے لیے ناگزیر معاملہ سمجھنے والوں کو اب بہت دور سے دیکھا اور پہچانا جا سکتا ہے۔ عام آدمی کو اپنا اور اہلِ خانہ کا پیٹ بھرنے کی جدوجہد ہی سے فرصت نہیں۔ ایسے میں وہ کیا پڑھے اور کیا سوچے؟ جنہیں اللہ نے مالی آسودگی عطا کی ہے‘ اُنہیں پڑھنے سے کچھ خاص شغف نہیں۔ چند سر پھرے ہیں جو آج بھی اپنی محنت کی کمائی سے ہر ماہ کچھ نہ کچھ نکال کر کتابیں خریدتے ہیں‘ خود بھی پڑھتے ہیں اور دوسروں کو بھی پڑھنے کی تحریک دیتے ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ پاکستانی معاشرے میں مطالعے کا رجحان خاصا توانا تھا۔ عام آدمی بھی کچھ نہ کچھ پڑھنے پر یقین رکھتا تھا۔ اور کچھ نہیں تو سستے ڈائجسٹ ہی سہی۔ ڈائجسٹوں کی مدد سے لاکھوں پاکستانیوں نے دنیا بھر کی زبانوں کے شاہکار پڑھے۔ عوامی مزاج کی کہانیاں شائع کرنے والے ڈائجسٹ غیرمعمولی مقبولیت سے ہم کنار ہوئے۔ پاکستان کے بہت سے علاقوں میں ڈائجسٹ آج بھی شوق سے پڑھے جاتے ہیں۔ خواتین میں ڈائجسٹ پڑھنے کا رجحان کسی زمانے میں غیرمعمولی نوعیت کا تھا۔ کالج اور جامعات کی سطح پر تعلیم پانے والی لڑکیاں فیشن کے طور پر ڈائجسٹ پڑھا کرتی تھیں۔ عمومی سطح کے ڈائجسٹوں میں شائع ہونے والی تحریروں کے مطالعے سے ذہن تو وسیع نہیں ہو پاتا تھا مگر ہاں مطالعے کا شوق پنپتا رہتا تھا۔ جرائد کے ساتھ ساتھ لوگ کتابیں بھی شوق سے پڑھا کرتے تھے۔ بڑے اور چھوٹے ہر طرح کے شہروں کے کم و بیش تمام علاقوں میں ایسی دکانیں قائم تھیں جہاں سے پڑھنے کے لیے کرائے پر کتابیں حاصل کی جا سکتی تھیں۔
چالیس پچاس سال پہلے زبان و ادب کے حوالے سے مختلف رجحانات عام تھے۔ لوگ ناول اور کہانیوں میں زیادہ دلچسپی لیتے تھے۔ مغرب اور دیگر خطوں کی شاہکار قرار پانے والی کتابوں کے تراجم بھی غیر معمولی مقبولیت سے ہم کنار ہوا کرتے تھے۔ انگریزی کے تمام معیاری ناولوں اور کہانیوں کا برِصغیر کی کم و بیش تمام ہی بڑی اور نمایاں زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ 1940ء سے 1970ء تک کے عشروں میں اردو داں طبقے کو بھی دنیا بھر کی زبانوں کے تراجم پڑھنے کو ملے۔ امریکا اور برطانیہ میں شائع ہونے والی تمام بڑی اور مقبول کتابوں کو اردو کے قالب میں ڈھالا جا چکا ہے۔ اُس عہد کے ذوق کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ لوگ ڈرامے بھی پڑھ لیا کرتے تھے جبکہ یہ صِنف عام آدمی کو پسند نہیں آتی کیونکہ یہ پڑھنے سے زیادہ پیش کرنے کا معاملہ ہے۔
پھر اب کیا ہوگیا ہے کہ معیاری کتابوں کی اشاعت ممکن ہی نہیں ہو پا رہی؟ یہ معاملہ خاصا پہلو دار ہے۔ ایک طرف ناشر ہیں جو معاملات درست کرنے پر آمادہ نہیں۔ وہ اپنا منافع نہ گھٹانے پر بضد ہیں۔ دوسری طرف قارئین کی ترجیحات بہت بدل گئی ہیں۔ وہ اول تو زیادہ مطالعے کے شوقین نہیں رہے اور جنہیں مطالعے کا شوق ہے وہ معیار کے حوالے سے انتہائی لاپروا ہیں۔ قارئین میں فیڈ بیک دینے کا رجحان بھی بہت کمزور ہوچکا ہے۔ وہ کسی کتاب کو پڑھنے کے بعد اُس پر رائے زنی کے قائل نہیں رہے۔ آج کل کسی بھی کتاب کو پڑھ کر اُس پر کوئی تبصرہ کرنا بہت آسان ہوگیا ہے۔ ناشر یا مصنف کو ای میل بھی کی جا سکتی ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعے بھی اپنی رائے سے مطلع کیا جا سکتا ہے۔ ٹائپنگ کا وقت نہ ہو تو آڈیو فائل بھیجی جا سکتی ہے۔ فیڈ بیک ملنے پر مصنفین اپنا معیار بلند کرنے کی تحریک پاتے ہیں اور ناشر کی بھی راہ نمائی ہوتی ہے کہ کیا شائع کرنا چاہیے۔ آج بازار میں ایسے بہت سے مصنفین ہیں جنہیں ہم‘ سُریش جوشی کے بقول‘ بلا خوفِ تردید ''اَن پڑھ مصنفین‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ ایک دور تھا کہ لکھنے کے آداب سیکھنے ہی میں آٹھ دس برس لگ جاتے تھے۔ اِس پر بھی بڑے بڑے مصنفین قلم برداشتہ نہیں لکھتے تھے بلکہ اپنے لکھے ہوئے کو سو بار پڑھ کر اُسے سنوارتے تھے‘ خامیاں دور کرتے تھے۔ یوں تحریر کا حُسن بہت نمایاں ہوکر سامنے آتا تھا۔ مصنفین جانتے تھے کہ قارئین اُن پر گرفت کر سکتے ہیں۔ یہی سبب تھا کہ وہ اپنی تحریر کا معیار بلند کرنے پر خاص توجہ دیتے تھے۔ اخبارات و جرائد کے مدیروں کے نام خطوط اِتنے آتے تھے کہ تھیلے بھر جاتے تھے۔ اِن خطوط کو پڑھا بھی جاتا تھا اور جوابی لفافہ موجود ہونے کی صورت میں بہت سے قارئین کو براہِ راست جواب بھی دیا جاتا تھا۔ جب مصنف اور ناشر کا قاری سے تعلق قائم تھا تب ڈھنگ سے لکھنے پر توجہ دی جاتی تھی اور ناشر بھی کتاب کو ڈھنگ سے شائع کرتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ معیار میں کمی کی صورت میں فروخت متاثر ہو سکتی ہے۔ مصنف بھی جانتا تھا کہ اگر وہ ڈھنگ سے نہیں لکھے گا تو لوگ پڑھیں گے نہیں۔
اب یہ خوف ختم ہو چکا ہے۔ پڑھنے والوں نے اپنے پَر سمیٹ لیے ہیں۔ وہ اگر کچھ پڑھ بھی لیتے ہیں تو تبصرے کے نام پر چند جملے بھیجنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔ یہی سبب ہے کہ بہت سے ایسے لوگ بھی میدان میں آگئے ہیں جو کسی بھی اعتبار سے مصنف نہیں مگر اُن کی کتابیں شائع بھی ہو رہی ہیں اور لوگ خرید بھی رہے ہیں۔ سطحی فکشن لکھا جارہا ہے‘ غیرمعیاری نان فکشن بھی چلن میں ہے تو اس لیے کہ اُسے پڑھنے والے موجود ہیں۔ قارئین اپنے مفاد کے حوالے سے حسّاس مزاج کے حامل ہوں تو مصنف اور ناشر دونوں کو اپنا معیار بلند کرنا ہی پڑے گا۔ کسی بھی کتاب کا مقبول ہو جانا اُس کے معیاری ہونے کی دلیل نہیں۔ بہت سی کتابیں محض فیشن کے طور پر قبول کر لی جاتی ہیں۔ بعض کتابیں کسی خاص مذہب یا مسلک سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر مقبولیت سے ہم کنار ہوتی ہیں۔
پاکستان میں مطالعے کا رجحان شدید کمزوری کی حالت میں ہے۔ اس رجحان کو نئی زندگی دینے کی ضرورت ہے۔ معروف شخصیات کو اپنے انٹرویوز میں کامیابی کے گُر بیان کرتے وقت مطالعے کی اہمیت بھی بیان کرنی چاہیے۔ سیاست دانوں کو بھی مطالعے کی اہمیت اُجاگر کرنی چاہیے تاکہ عام آدمی دوبارہ مطالعے کی طرف راغب ہو۔ ساتھ ہی ساتھ عوام کو مطالعے کا شوق پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ مصنفین پر گرفت بھی کرنی چاہیے۔ بیشتر مصنفین تحقیق کے بغیر لکھتے ہیں اور قلم برداشتہ پر زیادہ یقین رکھتے ہیں یعنی جو ایک بار لکھ دیا ہے بس اُسی کو اشاعت کے لیے بھیج دیتے ہیں۔ اپنی تحریر کا حُسن بڑھانے کے شوقین مصنفین خال خال ہیں۔ گیند اب قارئین کے کورٹ میں ہے۔ اُنہیں تحریر کا معیار بلند کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ عظیم امریکی شاعر والٹ وِھٹ مین نے کہا تھا ''اگر ہم چاہتے ہیں کہ عظیم شعراء پیدا ہوں تو حقیقی سُخن فہم بھی پیدا کرنا ہوں گے۔‘‘