یونان کے کسی فلسفی نے کہا تھا کہ جو شخص علم کے حصول کے لیے سرگرداں بھی ہو اور آرام و سکون کا طالب بھی ہو تو اُسے اہلِ علم میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ اس عظیم جملے میں آرام سے مراد محض عمومی آرام نہیں بلکہ یہ وسیع تر مفہوم کا قصہ ہے۔ اس ایک لفظ میں بھرپور مادّی آسودگی بھی سمائی ہوئی ہے۔
ہر دور میں حقیقی اہلِ علم ہی سب سے زیادہ مشق و مشقّت کے عادی پائے گئے ہیں۔ کسی بھی عالم کا بنیادی کام کیا ہے؟ زیادہ سے زیادہ جاننا اور دوسروں تک پہنچانا تاکہ اُن کی زندگی میں بھی کوئی مثبت تبدیلی رونما ہو۔ عام آدمی زیادہ سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے نہ سکت۔ وہ کھانے پینے اور سونے جاگنے کے معمول ہی سے بلند نہیں ہو پاتا۔ یومیہ بنیاد پر مشقت کرکے اپنے اور اہلِ خانہ کے لیے کچھ کمانے کی تگ و دَو میں مصروف رہنے والے کسی بھی انسان سے آپ علم و فن کی خدمت کے حوالے سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟ اِس میں بے چارے عام آدمی کا قصور بھی کچھ نہیں۔ علم و فن کے لیے اللہ نے کچھ لوگوں کو منتخب کیا ہوتا ہے۔ اُنہی کو یہ کام کرنا ہوتا ہے۔ دوسرے اپنے طور پر کچھ کر گزریں تو یہ علم و فن کا نصیب۔
ہر عہد اپنے ساتھ بہت سے مسائل بھی لاتا ہے اور اُن کے حل کی راہیں بھی سُجھاتا ہے۔ ہر عہد میں اللہ تعالٰی چند افراد کو منتخب کرتے ہیں جنہیں اپنے عہد کے ادراک کی منزل سے گزرتے ہوئے تفہیم کی منزل تک جانا ہوتا ہے۔ یہ کام صرف اور صرف محنت اور لگن کی بنیاد پر ہو سکتا ہے۔ کسی بھی دور میں حقیقی علمی کام محض مالی منفعت کی بنیاد پر نہیں ہو پایا۔ سرکاری ادارے بناکر چند افراد کو ذمہ داری سونپنے سے یہ کام نہیں ہو سکتا۔ کسی بھی دور میں سرکاری اداروں میں پلنے والے نام نہاد اہلِ علم نے اپنی ذاتی حیثیت میں کوئی ایسا بڑا کام نہیں کیا جسے دنیا نے یاد رکھا ہو اور آج تک مستفید ہو رہی ہو۔ اگر ہم اسلامی دنیا کی علمی روایات کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ ہر دور میں خالص علمی اور تحقیقی کام صرف اور صرف ذاتی خواہش‘ لگن اور محنت کی بنیاد پر ہوا ہے۔ جنہیں علم و فن کے حصول اور پھر اُن کی اشاعت کی فکر لاحق ہو وہ کبھی اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ جو محنت وہ کریں گے اُس کے عوض کیا ملے گا۔ اگر بات معاوضے سے شروع ہوکر معاوضے ہی پر ختم ہو تو پھر علم کے حصول میں راہ پر گامزن ہونے سے کہیں بہتر ہے کہ انسان صنعت و تجارت کے شعبے سے وابستہ ہو جائے۔
علم اصلاً مال و دولت کا معاملہ ہے ہی نہیں۔ علم و فن کی حقیقی خدمت کرنے کی لگن رکھنے والے ہمہ وقت یہی سوچتے رہتے ہیں کہ کس طور دنیا کو زیادہ سے زیادہ دانش سے ہم کنار کریں۔ علم و فن کے سمندر کی گہرائیوں کا اندازہ لگانے کی یہ لگن اللہ کی عطا کردہ ہوا کرتی ہے۔ جنہیں علم کی سچی لگن عطا کی جاتی ہے وہ اپنی ذمہ داری سے غافل نہیں رہتے۔ اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ زندگی‘ دنیا اور کائنات کو سمجھنے کی راہ پر گامزن رہتے ہوئے لوگوں کی راہ نمائی کریں تاکہ وہ بھی اپنی زندگی‘ دنیا اور کائنات کو سمجھنے کے قابل ہو سکیں اور معیاری زندگی بسر کرنے کی طرف آسکیں۔
کسی بھی انسان کے لیے مادّی آسودگی بھی ناگزیر ہے مگر یہ معاملہ کسی مقام پر رُکتا نہیں۔ جب کوئی دولت کے حصول کی راہ پر گامزن ہوتا ہے تو بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور پھر اس تگ و دَو میں حرام و حلال کا فرق بھی مٹتا چلا جاتا ہے۔ دولت کے حصول کی ہوس کہیں بھی مستقل طور پر رُکنے کا تو کیا‘ دَم بھر سانس لینے کا بھی نام نہیں لیتی۔
یہ جملہ ہم کم و بیش روز ہی سُنتے ہیں کہ دنیا بدل گئی ہے اور وہ کل والی دنیا رہی نہیں۔ بات بالکل درست ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ بدلتے رہنا دنیا کا نمایاں ترین وصف ہے۔ ہر دور میں دنیا بدلتی ہی رہی ہے۔ جب ترقی کی رفتار بہت تیز نہیں ہوئی تھی تب بھی دنیا بدل ہی رہی تھی۔ یہ تبدیلی ہی کا نتیجہ ہے کہ آج عام آدمی کو بھی ایسی سہولتیں میسر ہیں جو شہنشاہوں تک کو میسر نہ تھیں۔ اگر آج کا عام آدمی ٹائم مشین میں بیٹھ کر محض دو سال سال پہلے کے زمانے میں جائے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جائے گا کہ اُس عہد کے شہنشاہ کے لیے وہ تمام آسائشیں ممکن نہیں ہو پائی تھیں جو آج کے عام آدمی کو بہت آسانی سے اور بہت کم خرچ پر میسر ہیں۔ کسی اور چیز کو تو چھوڑیے‘ پنکھے ہی کی مثال لیجیے۔ تب کے شہنشاہوں کو حبس دور کرنے اور دربار کا ماحول ترو تازہ رکھنے کے لیے پنکھا جھلنے والے رکھنا پڑتے تھے۔ آج ہم بٹن دباکر پنکھا آن کرتے ہیں اور پُرلطف ہوا کے مزے لیتے ہیں۔ یہ تو بالکل عمومی سطح ہوئی۔ آج عام آدمی فضائی سفر بھی کر سکتا ہے۔ تب شہنشاہ بھی زیادہ سے زیادہ اتنا کر پاتے تھے کہ تیز ترین گھوڑے پر بیٹھ کر فاصلے طے کیا کرتے تھے۔ خیر، یہ اہلِ علم و فن کا کام ہے کہ وہ مختلف زمانوں کا تجزیہ کرکے عام آدمی کو اِس دنیا کی حقیقت سے رُوشناس کرائیں‘ اُس میں شعور کی سطح بلند کریں‘ اُسے بہتر زندگی کے لیے اِس طور تیار کریں کہ زندگی کا معیار بلند کرنے کے حوالے سے پیش رفت ممکن ہو۔
ہر عہد کے مسائل خصوصی توجہ کے طالب ہوتے ہیں۔ یہ کام عام آدمی کا نہیں اور اُس کے بس کا بھی نہیں۔ اِس کے لیے قدرت کچھ لوگوں کو منتخب کرتی ہے اور اُنہیں یہ فریضہ سونپتی ہے کہ اپنے عہد کی تفہیم میں عام آدمی کی مدد کریں۔ یہ کام صرف اور صرف ذاتی لگن کی بنیاد ہی پر ڈھنگ سے کیا جا سکتا ہے۔ بہت سے سرکاری ادارے بھی علم و فن کی ترویج کے لیے قائم کیے جاتے ہیں مگر اِن اداروں کی کارکردگی ہمارے سامنے ہے۔ چند ایک معاملات میں تو یہ ادارے کچھ کر پاتے ہیں مگر مجموعی طور پر اِن کی کارکردگی مثالی نوعیت کی نہیں ہوتی۔ بڑی بڑی تنخواہیں لینے والے بھی علم و فن کی ترویج میں کوئی خاص کردار ادا کرنے کی لگن اپنے اندر پیدا نہیں کر پاتے۔ بادشاہوں اور نوابوں کے دربار سے بہت سے شعراء وابستہ رہا کرتے تھے مگر ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اُنہوں نے علم و فن کی دنیا کو کچھ خاص نہیں دیا۔
علم کی سچی لگن انسان کو ہر طرح کے معاوضے کے تصور سے بے نیاز و بیگانہ کردیتی ہے۔ علم کا معاملہ اتنا عجیب ہے کہ عام آدمی کو یہ سمجھایا ہی نہیں جا سکتا کہ کوئی انسان کیوں مادّی آسودگی یا مالی منفعت کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے کچھ حاصل کرکے دنیا کو دینا چاہتا ہے۔ یہ اُنہی کا کام ہے جنہیں اس کے لیے قدرت منتخب کرتی ہے۔ آج بھی وہی لوگ زیادہ صاحبِ علم ہیں جو کسی صلے کی پروا کیے بغیر محض سچّی لگن کی بنیاد پر کام کرتے ہیں اور دنیا کو بہت کچھ دینے کی فکر میں غلطاں رہتے ہیں۔
علم و فن کا صِلہ ہے کیا؟ حقیقی مسرّت‘ قلب کی گہرائی میں پنپنے والا اطمینان کا احساس اور تصنع سے پاک حقیقی تفاخر۔ جب کوئی علم و فن کی راہ پر گامزن رہتے ہوئے دنیا کو کچھ دینے کی فکر میں غلطاں رہتا ہے تب اُس کے نزدیک اِس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی کہ جو کچھ وہ دے رہا ہے اُس کے بدلے میں کیا ملے گا۔ زندگی بہت بڑی نعمت ہے۔ اِس نعمت کا حق ادا کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ ہاں‘ پورے اخلاص کے ساتھ اللہ کا شکر ادا کرنے کی اپنی سی کوشش ضرور کی جا سکتی ہے۔ اِس وقت پاکستانی معاشرہ بھی ایسے لوگوں کا منتظر ہے جو علم و فن کی راہوں پر گامزن ہونے کے معاوضے سے بے نیاز ہوں اور پوری قوم کو بالعموم اور نئی نسل کو بالخصوص وہ راہ دکھائیں جس پر چل کر حقیقی مسرّت ممکن بنائی جا سکتی ہو۔ یہ کام کسی صلے کے لیے نہیں کیا جا سکتا۔ اِس کے لیے صرف سچّی لگن درکار ہے۔ المیہ یہ ہے کہ علم و دانش کے حوالے سے جنہیں راہ دکھانے پر مامور کیا گیا ہے وہ صرف مالی منفعت کے طالب ہیں۔ قوم منتظر ہے۔ یہ زنجیر جس قدر جلد ٹوٹے اُتنا ہی اچھا۔