زندگی معیاری انداز سے بسر کرنے کے لیے درکار اوصاف بیان کرنے میں ہمارے شعرا نے کبھی بخل اور تساہل سے کام نہیں لیا۔ ہر عہد کے اردو شعرا نے عام آدمی کو بہت کچھ سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ پندٹ برج نارائن چکبستؔ نے کہا تھا ؎
مصیبت میں بشر کے جوہرِ مردانہ کُھلتے ہیں
مبارک بزدلوں کو گردشِ قسمت سے ڈر جانا
میرزا نوشہ نے اپنے ایک مقطع میں ایک پوری کتاب سمودی ہے ؎
جب توقع ہی اُٹھ گئی غالبؔ
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
شائستگی اور حلم کسی بھی انسان کو دوسروں سے بہت بلند اور نمایاں کرنے والے اوصاف ہیں۔ میر انیسؔ نے یہ بات کتنے خوبصورت انداز سے کہی ہے، ملاحظہ فرمائیے ؎
بداصل تکبر کے سخن کہتے ہیں اکثر
جو صاحبِ جوہر ہیں جھکے رہتے ہیں اکثر
جھکتا کون ہے؟ جس میں حلم ہوتا ہے۔ حلم یعنی کسی سخت یا تلخ بات کو بھی اس طور برداشت کرنا کہ فریقِ ثانی کو آپ کی دلی کیفیت کا اندازہ نہ ہو پائے۔ برداشت یا تحمل ہی انسان کو دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔ ہر عہد میں وہی لوگ نمایاں ہوئے ہیں جنہوں نے اپنے خلاف جانے والی ہر بات کو ڈھنگ سے برداشت کیا ہے اور تحمل برقرار رکھتے ہوئے اصلاحِ احوال پر توجہ دی۔
آج بھی کئی معاشرے غیر معمولی صبر و تحمل کی مثال ہیں۔ چین اور جاپان کے معاشرے اس حوالے سے بہت نمایاں ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ چین سے کہیں بڑھ کر جاپانی معاشرہ تحمل کی نمایاں مثال ہے۔ چین میں بھی عام آدمی ناموافق حالات کا خندہ پیشانی سے سامنا کرتے ہوئے اپنے حصے کا کام کرتا جاتا ہے۔ چینیوں کی ترقی کا یہی سب سے بڑا راز ہے۔ انگریزی زبان کے معروف مصنف ایف ایل لیوکس نے لکھا ہے ''کسی زمانے میں چین میں ایک ایسا خاندان ہوا کرتا تھا جس کی نو نسلوں میں صرف وہ لڑکیاں الگ ہوئی تھیں جو شادی کرکے سسرال گئی تھیں۔ باقی تمام افراد ایک جگہ مل کر رہتے آئے تھے۔ جب بادشاہ کو اس حقیقت کا علم ہوا تو اُسے یہ جاننے کا اشتیاق ہوا کہ آخر یہ خاندان نو نسلوں تک اپنے آپ کو متحد کیسے رکھ سکا ہے۔ اُس نے ایک قاصد روانہ کیا۔ قاصد نے بادشاہ کا پیغام خاندان کے سربراہ کو دیا۔ خاندان کے سربراہ نے ایک کاغذ منگوایا اور اُس پر صرف ایک لفظ لکھا جسے اُس نے اپنے خاندان کے اتحاد و اتفاق کی بنیاد قرار دیا۔ یہ لفظ تھا:'' تحمل‘‘۔ جی ہاں! تحمل۔ یہ ایک وصف انسان میں پایا جائے تو بہت سے اوصاف کی کمی پوری ہو جاتی ہے۔ ایک مثالی انسان کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ اُس میں حلم ہوتا ہے، نرمی ہوتی ہے، قوتِ برداشت ہوتی ہے، تحمل کا مادّہ ہوتا ہے۔ تحمل یعنی جھیل جانا، سہہ لینا۔ طاقت اِس کا نام نہیں کہ انسان کسی کو پچھاڑ دے بلکہ ایک حدیث شریف کی روشنی میں‘ حقیقی طاقتور وہ ہے جو غصے کی حالت میں اپنے آپ کو قابو میں رکھے، بپھر نہ جائے، بے لگام نہ ہو جائے۔ ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں جو طاقت کے حامل ہونے پر بھی کسی ناپسندیدہ بات کو قبول یا برداشت کرلیں، غصہ پی جائیں، اپنے آپ کو بے اختیار و بے لگام نہ ہونے دیں۔
تحمل کا حقیقی مفہوم کسی بھی بوجھ یا وزن کو جھیل لینا ہے۔ اس کا ایک واضح مفہوم یہ بھی ہے کہ اگر بڑپن دکھانا ہے تو انسان عقلِ سلیم کے دائرے سے باہر قدم نہ رکھے۔ عمومی سطح پر تحمل سے یہ مطلب اخذ کیا جاتا ہے کہ چاہے کچھ ہو جائے‘ کچھ بولنا بھی نہیں چاہیے اور کچھ کرنا بھی نہیں چاہیے۔ یہ تصور غلط ہے۔ انسان کو بہت سے مواقع پر لازمی ردِعمل دینا ہوتا ہے۔ جہاں نہ سہنا لازم ہو وہاں سہنا اپنے آپ پر بھی ظلم ہے اور فریقِ ثانی پر بھی۔ فریقِ ثانی پر ظلم یوں کہ کوئی ردِعمل ظاہر نہ کرنے کی صورت میں اُسے مزید شہ ملتی ہے۔ کسی بھی سلیم الطبع انسان سے حلم کی توقع ایسے معاملات میں رکھی جاتی ہے جن میں آپے سے باہر ہونا غیر فطری یا بلا جواز ہو۔ آج ہمارے معاشرے کا حال یہ ہے کہ لوگوں میں تحمل کا مادّہ بہت نچلی سطح پر ہے۔ بات بات پر مشتعل ہو جانا ہمارا عمومی مزاج بن گیا ہے۔ ہم ایسی بہت سی باتوں پر جذباتی اور مشتعل ہو جاتے ہیں جنہیں بہت آسانی سے برداشت کیا جاسکتا ہے۔ گھریلو معاملات میں‘ دفتری معمولات میں‘ دوستوں کے حلقے میں یا پڑوسیوں کے درمیان ہم ایسے بہت سے معاملات پر شدید ردِعمل ظاہر کربیٹھتے ہیں جنہیں بہت آسانی سے ہضم کیا جا سکتا ہے۔ غیر ضروری ردِعمل بنتا ہوا کام بھی بگاڑ دیتا ہے۔
مزاج میں یہ اشتعال کیوں ہے؟ ہم بات بات پر بم کی طرح پھٹ پڑتے ہیں تو آخر کیوں؟ کیا سبب ہے کہ ہم سے بہت چھوٹے معاملات بھی نمٹ نہیں پاتے؟ یہ اور ایسے ہی بہت سے دوسرے سوال ہر اُس انسان کو پریشان کرتے ہیں جو ڈھنگ سے جینا چاہتا ہے اور اِس سلسلے میں تحمل کو بنیادی وصف کے طور پر اپناتا ہے۔ ہمارا ہر عمل لازمی طور پر ردِعمل نہیں ہوتا مگر اِتنا ضرور ہے کہ ہم اپنے ماحول سے بہت کچھ غیر محسوس طور پر حاصل اور قبول کرتے رہتے ہیں۔ بہت سی خامیاں ہمارے مزاج کا حصہ بن کر ہمیں ڈھنگ سے سوچنے اور پورے شعور کے ساتھ میدانِ عمل میں قدم رکھنے سے روکتی رہتی ہیں۔ معاشرے میں عمومی سطح پر کردار و مزاج کی جو خامیاں پائی جاتی ہیں وہ ہر انسان کو کسی نہ کسی حد تک متاثر کرتی ہیں۔ اگر کوئی اصولوں کا پابند ہو تو ہر طرف پھیلی ہوئی اور ہر معاملے میں پائی جانے والی بے اُصولی کے باعث دھیرے دھیرے چڑچڑا ہوتا جاتا ہے۔ بالکل اِسی طور جب کوئی دیکھتا ہے کہ لوگ بات بات پر پھٹ پڑتے ہیں تو اُس کے لیے بھی بسا اوقات پھٹ پڑنا لازم سا ہو جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو لوگ ابنارمل سمجھنے لگتے ہیں!
دوسروں کی خامیاں جانتے ہوئے بھی اُن جیسا ہو جانا کردار اور مزاج کی خامی ہے جو دور کی جانی چاہیے۔ یہ خامی بالعموم خود بخود دور نہیں ہوتی بلکہ اِسے منصوبہ سازی کے تحت اور شعوری کوشش کے ذریعے دور کرنا پڑتا ہے۔ کوئی بھی اچھا وصف انسان میں آسانی سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ اُسے پروان چڑھانا پڑتا ہے۔ تحمل بھی ایسا ہی وصف ہے۔ انسان اگر طے کرلے کہ اُسے دوسروں کو معقول حد تک برداشت کرنا ہے تو یہ وصف دھیرے دھیرے پنپتا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ تحمل کے نام پر سبھی کچھ برداشت کرلیا جانا چاہیے۔ اِس طور تو کوئی بھی انسان معقول زندگی بسر کرنے کے قابل نہیں ہوسکتا۔ تحمل کے اظہار کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ انسان کسی بھی ناپسندیدہ بات یا فعل کی بنیاد پر متعلقہ فرد کو بیک جنبشِ قلم مسترد کرنے کے بجائے بات کرے، معاملے کو درست کرنے کے حوالے سے کوئی تجویز پیش کرے اور فریقِ ثانی کی بات بھی پوری توجہ سے سُنے۔ تحمل اصلاً اس بات کا نام ہے کہ کسی بھی معاملے میں اپنی مرضی کے خلاف سامنے آنے والی بات کو سُن کر جھیل لیا جائے اور اپنی رائے پیش کی جائے تاکہ فریقِ ثانی کو اندازہ ہو کہ اُس سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے۔ محض ردِعمل ظاہر کرنے کی صورت میں خرابی کا دائرہ وسعت اختیار کرتا ہے۔ گھریلو اور خاندانی اُمور میں تحمل سے بڑا کارگر وصف کوئی نہیں۔ لوگ ایک دوسرے کو برداشت کریں تو رشتے بھی پنپتے ہیں اور تعلقات بھی وسعت پاتے ہیں۔ دوستی میں بھی تحمل ہی بنیادی شرط ہے۔ مجموعی طور پر وہی ماحول پروان چڑھتا ہے جس میں تحمل نمایاں ترین وصف ہو۔ انسان کو بہت سی خوبیاں بلندی سے ہم کنار کرتی‘ کامیابی دلاتی ہیں مگر جو کچھ تحمل کے ذریعے حاصل ہو پاتا ہے وہ کسی اور وصف کے ذریعے کم ہی مل پاتا ہے۔ تحمل ہی انسان کو ناقابلِ یقین حد تک قابلِ قبول بناتا ہے۔
آج ہمارے معاشرے کو کسی بھی دوسری خوبی سے کہیں زیادہ تحمل کی ضرورت ہے۔ لوگ بات بات پر پھٹ پڑنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ذرا سے نقصان پر ایسا شدید ردِعمل ظاہر کیا جاتا ہے کہ بات سنبھالے نہیں سنبھلتی۔ ہمیں اُس چینی خاندان سے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا وصف سیکھنا ہے جس نے نو نسلوں تک اپنے آپ کو بکھرنے نہیں دیا۔