"MIK" (space) message & send to 7575

شور شرابہ کچھ زیادہ نہیں؟

ویسے تو دنیا کا ہر انسان ہی عجیب واقع ہوا ہے۔ دیگر تمام مخلوقات کے مقابلے میں انسان کے رویے حیرت انگیز ہیں۔ انسان کا کوئی بھی ردِعمل کسی اصول کے تابع نہیں۔ ایمان داری کی بات تو یہ ہے کہ اس حوالے سے ہم انتہائی عجیب قوم واقع ہوئے ہیں۔ ہم نے غالبؔ کے کہے کو یوں اپنایا ہے کہ دیکھتے ہی بنتی ہے۔ غالبؔ نے کہا تھا ع
مشکلیں اِتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں
میرزا نوشہ نے سوچا ہوگا کہ شاید لوگ ''اچھے سے‘‘ سمجھ نہ پائیں تو اِسی بات کو تھوڑا سا گھما پھراکر یوں کہا ؎
عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
اور جناب! کچھ کچھ اِسی حقیقت کو بیان کرنے والا منظر لکھنوی کا یہ مطلع بھی غالبؔ ہی سے منسوب ہے کہ ؎
درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے
غالبؔ کے حوالے سے یہ سب کچھ ہمیں ملک کی معاشی الجھنوں کو دیکھ کر یاد آیا۔ ہمارے ہاں کچھ مدت سے یہ چلن عام ہوا ہے کہ صورتِ حال کو زیادہ سے زیادہ بھیانک اور خطرناک دِکھانے کے لیے کچھ بھی کہہ دیجیے، بلکہ کہتے ہی رہیے۔ جنہیں بولنے کا ہوکا ہے وہ سوچے سمجھے بغیر بولتے رہتے ہیں اور سوچتے بھی نہیں کہ جو کچھ اُن کی زبان سے نکل رہا ہے وہ کسی پر کیا اثر مرتب کرے گا۔ ملک کے معاشی حالات بہت برے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسائل میں شدت بھی آرہی ہے اور اُن کی نوعیت بھی تبدیل ہو رہی ہے۔ پیچیدہ مسائل کے حل کی کوششیں متواتر ناکامی سے دوچار ہو رہی ہیں۔ کچھ یوں بھی ہے کہ منصوبہ بندی ناقص ہے یا پھر معاملہ محنت کے حوالے سے عزم کے ناپختہ ہونے کا بھی ہے۔ ہمارے ہاں اب ایک راگ تواتر سے الاپا جارہا ہے اور یہ راگ سن سن کر اہلِ وطن کے دل دہل دہل جاتے ہیں۔ یہ راگ ہے ملک کے دیوالیہ ہو جانے کا۔ کسی خدشے کا اظہار بھرپور جوش و خروش سے نہیں کیا جاتا۔ کہیں آگ لگ جانے کا خدشہ ہو تو لوگ لفظ آگ زبان پر لاتے ڈرتے ہیں۔ کوئی خوشی خوشی یہ نہیں کہتا کہ دیکھنا! آگ لگے گی تو سب کچھ بھسم ہو جائے گا! یہاں معاملہ یہ ہے کہ ملک کے دیوالیہ ہو جانے کا خدشہ یوں ظاہر کیا جارہا ہے گویا اس کا شدت سے انتظار کیا جا رہا ہے۔ کوئی ملک کب دیوالیہ ہوتا ہے اِس حوالے سے ماہرین کی آرا مختلف ہیں اور اعداد و شمار کی روشنی میں متعلقہ کیسز کی بھی کئی زاویوں سے تشریح کی جاسکتی ہے۔ ہمارے بیشتر مبصرین، تجزیہ کار اور سیاست دان بار بار سری لنکا کی مثال دے رہے ہیں۔ سری لنکا کی معیشت بیٹھ گئی ہے۔ حکومتی نظام انتہائی کمزور ہوچکا ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟ یہ ایک طویل بحث کا موضوع ہے۔ بات اِتنی ہے کہ سری لنکن حکومت نے کئی عشروں تک پروان چڑھنے والی کرپشن کے نتائج کو ٹالنے کے لیے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے عوام کو غیر معمولی مراعات دینے کی ٹھانی اور ٹیکسز ختم کردیے۔ اِس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ قومی خزانہ دیکھتے ہی دیکھتے خالی ہوگیا۔ ہمارے ہاں حالات بہت مختلف ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی آبادی غیر معمولی ہے۔ یہی معاملہ افرادی قوت کا بھی ہے اور یہ افرادی قوت دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے۔ ترسیلاتِ زر کا معاملہ بھی ایسا گیا گزرا نہیں کہ پاکستان کو سری لنکا سے مشابہ قرار دیا جائے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بہت سے معاملات میں پاکستان سے امتیازی سلوک روا رکھا جاتا رہا ہے۔ امریکا، یورپ، بھارت اور اسرائیل نے پاکستان کو ہمیشہ نشانے پر رکھا ہے۔ طے کرلیا گیا ہے کہ پاکستان کو مختلف شعبوں میں پس ماندہ رکھنا ہے تاکہ یہ قوم تیزی سے ابھر کر عالمِ اسلام میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے قابل نہ ہوسکے۔
1950 اور 1960 کے عشروں میں پاکستان کی اٹھان اِتنی شاندار تھی کہ مغربی طاقتوں کا ماتھا ٹھنک گیا۔ پاکستان کے قیام کے وقت معاشی حالات انتہائی ابتر تھے۔ محض چار پانچ سال میں پاکستان اس قدر سنبھل گیا کہ بہت سی طاقتیں سنبھل کر بیٹھنے پر مجبور ہوگئیں۔ ایک طرف چین تھا جو ہم سے دوستی بڑھانے کے لیے تیار تھا اور دوسری طرف روس بھی اب ہمیں دشمنوں میں شمار نہیں کرتا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں روس نے کراچی میں سٹیل ملز لگائی اور ساتھ ہی ایک شاندار بستی بھی بساکر دی۔ یہ دونوں تحائف آج بھی روس کی عظمت کے گواہ ہیں۔ پاکستان کی پسماندگی پر کوئی کتنے ہی دلائل دے، اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مغرب نے اس ملک کو ابتدا ہی سے نشانے پر رکھا ہے اور انفرادی کارکردگی سے قطعِ نظر اجتماعی کارکردگی بہتر بنانے کی ہر کوشش ناکام بنائی۔ پاکستان کے بہترین ذہن مغربی دنیا نے بخوشی قبول کیے تاکہ ''برین ڈرین‘‘ ہو یعنی پاکستان قابل لوگوں سے محروم ہو۔ پاکستان کے مشکل معاشی حالات کا بہت رونا رویا جارہا ہے۔ بار بار کہا جارہا ہے کہ یہ ملک ڈیفالٹ کے نزدیک پہنچ چکا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ آج کی دنیا میں جن ممالک کی خوشحالی کی ہم مثال دیتے نہیں تھکتے وہ بھی عالمی مالیاتی اداروں سے پیکیج لینے پر مجبور ہیں۔ سسٹم ہی کچھ ایسا ہے کہ کوئی بھی ابھرتا ہوا ملک اپنے آپ کو قرضوں کے جال سے دور رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ ہمارے ہاں بہت سے نام نہاد ماہرینِ معاشیات بنگلہ دیش کی مثال دیتے نہیں تھکتے۔ قدم قدم پر بنگلہ دیش کی شاندار ترقی کا راگ الاپ کر کہا جاتا ہے کہ دیکھو! وہ ملک کہاں پہنچ گیا ہے۔ بنگلہ دیشی معیشت کے استحکام کا راگ الاپنے والے کیا یہ نہیں جانتے کہ یہ ملک اب دوبارہ آئی ایم ایف سے پیکیج لے رہا ہے؟
بھارت کی مثال دینے والوں کی تعداد بھی کم نہیں۔ بنگلہ دیش اور بھارت کو مثال بناکر اپنے وطن کو حقیر سمجھنے والے سیاق و سباق کی نوعیت سمجھنے سے انکاری ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں نے پاکستان سے ہمیشہ امتیازی سلوک روا رکھا۔ بہت سے ممالک کو انتہائی غیر معمولی بیل آؤٹ پیکیج بہت آسانی سے دیے گئے جبکہ پاکستان کو نارمل امدادی پیکیج دینے سے بھی گریز کیا جاتا رہا۔ ارجنٹائن کی مثال بہت نمایاں ہے۔ سپین کو بھی آسانی سے بیل آؤٹ پیکیج دیا گیا۔ سری لنکا کو شاید اس بات کی سزا دی گئی ہے کہ وہ چین کی طرف جھک رہا تھا۔ بنگلہ دیش کے لیے بھی نرمی تبھی دکھائی جب اُس نے چین کی طرف سے منہ موڑ کر بھارت کو دوبارہ اپنایا اور مغرب کو اپنا مرکز بنائے رکھنے پر رضامندی ظاہر کی۔ پاکستان کے دیوالیہ ہو جانے کے امکان کے حوالے سے دن رات شور و غوغا کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کا کیس بہت مختلف ہے۔ اس کے حوالے سے ایک بڑا خدشہ یہ ہے کہ ع
...یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے!
پاکستان کی افرادی قوت میں آج بھی خاصا دم خم ہے۔ پاکستانی کاریگروں کی طلب دنیا بھر میں ہے۔ علمی سطح پر پاکستانی ایسے گئے گزرے نہیں جیسا کہ بیان کیے جاتے ہیں۔ ہماری نئی نسل میں غیر معمولی پوٹینشل ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ اس پوٹینشل کو بروئے کار لانے اور ملک کو کسی بلند مقام تک پہنچانے کی لگن بھی پائی جاتی ہے یا نہیں۔ یہ لگن بالکل پائی جاتی ہے مگر خالص انفرادی سطح پر۔ ریاستی اور حکومتی سطح پر کچھ سوچا جائے گا تو بات بنے گی۔ حکومت ہی کو اس حوالے سے کچھ سوچنا ہوگا۔ ملک کو حقیقی معنوں میں اپنے پیروں پر کھڑا کرنا دشوار سہی، ناممکن نہیں۔ کئی ممالک نے ہم سے بھی زیادہ بُرے حالات کا سامنا کیا اور پھر اٹھ کھڑے ہوئے۔ ہم بھی بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے بہت کچھ کرنا ہے مگر سب سے پہلے تو اپنی ہی صفوں میں موجود اُن لوگوں کو خاموش کرانا ہے جو دن رات وطن کے مستقبل کے حوالے سے اہلِ وطن میں مایوسی کا گراف بلند کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں