"MIK" (space) message & send to 7575

بہت کچھ جھیلنا پڑتا ہے

کسی بھی انسان کے لیے سبھی کچھ اُس کی پسند یا مرضی کا نہیں ہوتا۔ ہر انسان کو زندگی بھر ایسا بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے جو اُس کے مزاج اور مرضی کے خلاف ہی نہیں بلکہ بہت حد تک چیلنج کے درجے میں ہوتا ہے۔ اگر سبھی کچھ پسند اور مرضی کے مطابق ہوا کرے تو پھر اِس دنیا ہی کو جنت سمجھیے۔ ایسا نہیں ہوتا اور ہو بھی نہیں سکتا۔ سبھی کو اپنے حصے کی مشکلات مل کر رہتی ہیں۔ یہ کسی بھی درجے میں نا انصافی کا معاملہ نہیں۔ قدرت کا نظام ہی کچھ ایسا ہے کہ ہر انسان کو کسی نہ کسی معاملے میں آزمایا جاتا ہے۔ جو لوگ آزمائش میں پورے اترتے ہیں اُنہیں نوازا جاتا ہے اور جو معاملات سے جان چھڑانے کی ذہنیت کو پروان چڑھاتے رہتے ہیں اُنہیں آسانی کی زیادہ امید نہیں رکھنی چاہیے۔ بالخصوص معاشرتی معاملات میں۔
ہم بالعموم رشتوں اور تعلقات کے معاملے میں زیادہ برداشت کرنے یا جھیلنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ رشتوں کو نبھانے سے زیادہ جھیلنا پڑتا ہے۔ ایسا کیوں ہے اِس پر مفصل بحث کا یہاں محل نہیں۔ ہمیں تو یہ دیکھنا ہے کہ زندگی ہمارے لیے جتنی بھی مشکلات پیدا کرتی ہے ہم اُن سے کماحقہٗ نمٹنے میں کس حد تک کامیاب ہو پاتے ہیں۔ یہ تو خیر طے ہے کہ ہر انسان کو اُس کے حصے کی مشکلات مل کر رہتی ہیں۔ کوئی کتنی ہی کوشش کر دیکھے، کہیں نہ کہیں سے مشکلات اُس کی زندگی میں ضرور در آئیں گی اور تھوڑی بہت دقت ضرور پیدا کریں گی۔ جب ایسا ہوتا آیا ہے اور ہمیشہ ہوتا رہے گا تو پھر کیوں نہ اِسے دل سے قبول کرلیا جائے؟
معاشی جدوجہد ہمیں الجھنوں سے اِس قدر اَٹا ہوا رکھتی ہے کہ ہم بہت کچھ کرنے کے باوجود مشکل ہی سے معاشرتی معاملات میں ڈھنگ سے کچھ کرنے کے قابل رہ پاتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہم نے بہت چھوٹی عمر سے کچھ خاص تربیت نہیں پائی ہوتی۔ گزرے ہوئے زمانوں میں بزرگ بہت کچھ سمجھاتے اور سکھاتے تھے۔ وہ اِس نکتے پر بہت زور دیتے تھے کہ جو لوگ ہمارے ماحول کا حصہ ہیں وہ بعض معاملات میں سُکون کا سانس بھی لینے دیں گے اور بعض معاملات میں مشکلات پیدا کرنے سے بھی باز نہیں آئیں گے۔ ایسا نہیں کہ کوئی کسی کے لیے دانستہ مشکلات پیدا کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب تمام معاملات آپس میں اِتنے گڈمڈ ہوگئے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی مشکلات پیدا ہوکر رہتی ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی کسی کے لیے مشکلات پیدا نہیں کرنا چاہتا مگر مشکلات ہیں کہ پیدا ہوکر رہتی ہیں۔ اِس کے نتیجے میں غلط فہمیاں بھی پیدا ہوتی ہیں اور پھر اچھا خاصا وقت توضیح و تشریح کے مرحلے میں کھپ جاتا ہے۔
جب تک سانسوں کی ڈور سلامت ہے تب تک گوناگوں مشکلات اور پریشانیوں سے نمٹنا لازم ہے۔ دنیا ہر دور میں الجھی ہوئی تھی اور آج تو یہ ایسی الجھی ہوئی ہے کہ کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا، کسی بھی معاملے کا کوئی بھی سرا ہاتھ نہیں آرہا۔ بیشتر الجھنیں زبردستی کی ہیں یعنی محض اس لیے پیدا ہوئی ہیں کہ ہم میں تحمل نہیں رہا۔ معاشی معاملات کی پیچیدگیوں نے انسان کو اس قابل نہیں چھوڑا کہ وہ زندگی کے معاشرتی یا غیر معاشی پہلو کے بارے میں ڈھنگ سے سوچ سکے اور ایسی طرزِ فکر اپنائے جس میں اُس کے لیے خیر کا پہلو نمایاں ہو۔ آج بیشتر کا یہ حال ہے کہ بات بات پر بم کی طرح پھٹ پڑتے ہیں۔ مزاج سے مطابقت نہ رکھنے والی ہر بات بُری لگتی ہے۔ پہلے ایسا نہیں تھا کہ کسی سے کوئی انصاف کی بات کیجیے اور اُس کے دماغ کا فیوز پلک جھپکتے میں اُڑ جائے۔ اب یہ حال ہے کہ کسی سے کسی معاملے میں وضاحت بھی طلب کیجیے تو وہ اِسے اپنی توہین سمجھتا ہے۔
تحمل کے وصف سے محرومی نے بہت گُل کھلائے ہیں۔ عام آدمی کا یہ حال ہے کہ اِس بات پر غور ہی نہیں کرتا کہ ہر معاملے میں شدید ردِعمل کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا۔ بعض باتوں کو ہضم بھی کرنا ہوتا ہے۔ بعض سے صرفِ نظر بھی کرنا ہوتا ہے۔ اگر کسی نے کچھ سچ کہہ دیا ہو، خدا لگتی بات کہی ہو تو اُس پر سیخ پا ہونے یا ہتھے سے اکھڑنے کی ضرورت نہیں۔ سیاق و سباق پر بھی تھوڑا غور کرنا چاہیے۔ اِس معاملے میں کلیدی کردار تربیت ادا کرتی ہے۔ چھوٹی عمر سے معاملات کو نمٹانے کا ہنر سکھایا جائے تو بڑی عمر میں انسان بہت سے ناموافق حالات و معاملات کو احسن طریقے سے نمٹانے میں کامیاب ہو پاتا ہے۔ زندگی کا پورا ڈھانچا ایسا ہی تو ہے۔ ہمیں بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ بعض معاملات کو کسی نہ کسی طور جھیلے بغیر چارہ نہیں ہوتا۔ اگر ہر معاملے پر شدید ردِعمل ظاہر کرنے کی ذہنیت پروان چڑھ جائے تو انسان کہیں کا نہیں رہتا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کام کا ہی نہیں رہتا۔ بات بات پر مشتعل ہوکر یا جذبات کی رَو میں بہہ کر اپنے آپ کو محض الجھنوں کے حوالے کرنا کہاں کی دانش مندی ہے؟ مگر کیا کیجیے کہ لوگ ایسا ہی کر رہے ہیں اور اصلاحِ احوال پر مائل ہونے کا نام بھی نہیں لے رہے۔
آج ہر انسان ''باشعور‘‘ ہوچکا ہے۔ ''اہلِ دانش‘‘ نے اُسے یقین دلا دیا ہے کہ وہ زبردست شخصیت کے ساتھ پیدا ہوا ہے اور اگر اُسے کچھ کر دکھانا ہے تو اپنے آپ کو سب سے منفرد سمجھنا ہوگا۔ کہنے کو ہر انسان منفرد ہے کیونکہ اُس جیسا کوئی نہیں مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر انسان کے دماغ میں انفرادیت کا سحر پھونک کر اُسے کہیں کا نہ رہنے دیا جائے۔ شخصی ارتقا کے نام پر اپنی دکان داری چمکانے والے نام نہاد ''مینٹورز‘‘ نے بہت سے دماغوں میں یہ خلل پیدا کردیا ہے کہ وہ غیر معمولی ہیں اور یہ کہ دنیا اُنہیں سمجھ نہیں پائی! بہت سوں کا یہ حال ہے کہ اپنے بنیادی رجحانات کو شناخت بھی نہیں کر پاتے، محنت کو شعار بنانے کا سوچتے ہی نہیں اور بھرپور کامیابی کے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔ کامیابی کے خواب دیکھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ قباحت تو اِس بات میں ہے کہ آپ محض خواب دیکھیں اور اُنہیں شرمندۂ تعبیر کرنے سے متعلق کچھ کرنے کا ذہن ہی نہ بنائیں۔
کسی بھی شعبے میں کامیابی کا حصول یقینی بنانے کے لیے بہت کچھ جھیلنا پڑتا ہے۔ سب سے پہلے تو پختہ عادتوں کو ترک کرنے کی صورت میں بہت کچھ جھیلنا ہوتا ہے۔ بھرپور کامیابی چاہتی ہے کہ اُس سے مطابقت رکھنے والی عادتیں پروان چڑھائی جائیں۔ بالکل اِسی طور تعلقات کی نوعیت بھی بدلتی ہے۔ تعلقات کا دائرہ وسعت اختیار کرتا ہے یا سکڑتا ہے۔ یہ سب کچھ زندگی کا حصہ ہے۔ روس کے عظیم ناول نگار لیو ٹالسٹائی نے اپنے شہرہ آفاق ناول ''اینا کریننا‘‘ کے پہلے باب کے ماتھے پر ایک بلیغ جملہ لکھا ہے جو کچھ یوں ہے : ''تمام خوش حال گھرانے یکساں انداز کے حامل ہوتے ہیں اور ہر ناخوش گھرانے کا اپنے رنج و غم کے اظہار کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے‘‘۔ ہر انسان یہ سمجھتا ہے کہ دنیا بھر کے دُکھ صرف اُس کے حصے میں آئے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ ایسا سوچنا قدرت کے کاموں میں تنقیص کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں تصریح بھی فرما دی ہے کہ کسی بھی انسان پر اُس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا اور یہ کہ سب کو اپنے اعمال ہی کا پھل ملتا ہے۔
یہ دنیا اُن کے لیے ہے جو اِس کے تقاضے نبھانا جانتے ہیں، اِس کے مزاج کو سمجھتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں۔ کبھی ہم دوسروں کے لیے الجھنوں کا باعث بنتے ہیں اور کبھی ہمیں دوسروں کے ہاتھوں تکلیف پہنچتی ہے۔ بہت سے معاملات میں ہم جسے قصور وار سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ محض حالات کے دباؤ میں ہونے کے باعث ایسا کچھ کر بیٹھتا ہے جو ہمارے لیے الجھن پیدا کر رہا ہوتا ہے۔ آپ نے بھی محسوس کیا ہوگا کہ کبھی کبھی آپ کسی کے لیے کوئی الجھن پیدا کر بیٹھتے ہیں جبکہ ایسا آپ نے عمداً نہیں کیا ہوتا۔ لازم ہوچکا ہے کہ رشتوں کی نزاکت اور تعلقات کے الٹ پھیر کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ پڑھا جائے، ماہرین کی آرا سے استفادہ کیا جائے تاکہ وہ رویہ ڈھنگ سے اپنایا جاسکے جو بھرپور زندگی بسر کرنے کی راہ پر گامزن کرتا ہو۔ یاد رہے کہ بہت کچھ ہنستے ہوئے جھیلنے کی ذہنیت پروان چڑھائے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں