ہر انسان کے لازم ہے کہ خود بھی بہتر زندگی کے لیے تیار ہو اور اپنی اگلی نسل کو بھی تیار کرے۔ بہتر زندگی کا مطلب صرف مالی کشادگی اور فراخی نہیں بلکہ مجموعی طور پر ایک ایسی زندگی ہے جس میں کہیں کوئی غیر ضروری دباؤ نہ ہو، کام میں بھی راحت محسوس ہو اور جب آرام کیا جائے تو واقعی آرام کا لطف آئے۔ آج ہم میں سے بیشتر کا حال یہ ہے کہ فراغت کے لمحات سے بھی کماحقہٗ لطف کشید نہیں کرسکتے۔ ذہن الجھے ہوئے رہتے ہیں۔ بہت کام کرنے پر معیار برقرار رکھنا بھی دشوار ہوگیا ہے اور آرام کے لمحات میسر ہوں تو بھی آرام ممکن نہیں ہو پاتا۔ یہ سب کچھ فطری سا ہے کیونکہ اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں زندگی ہے ہی اِتنی الجھی ہوئی کہ کسی بھی انسان کے لیے ہر معاملے میں متوازن رہنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ جو لوگ خاص تیاری اور عزم کے بغیر ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ زیادہ بگاڑ پیدا کر بیٹھتے ہیں۔
وقت کی نزاکت اور حالات کی نوعیت کے ہاتھوں پیدا ہونے والے شدید ذہنی دباؤ کا سامنا کرنے کے معاملے میں ہم انوکھے نہیں۔ دنیا بھر میں لوگوں کو ایسی ہی کیفیت کا سامنا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں کے لوگ بھی ذہنی الجھنوں کے معاملے میں قدرت کی طرف سے کسی خاص رعایت کے مستحق نہیں ٹھہرائے گئے۔ انہیں بھی اپنے حصے کی مشکلات ملی ہیں اور وہ اُن مشکلات کا پامردی سے سامنا کرنے سے متعلق تگ و دَو میں مصروف ہیں۔ عام پاکستانی کا یہ حال ہے کہ اپنے ہی معاملات اور حالات سے کماحقہٗ نمٹ نہیں پاتا۔ ایسے میں وہ کسی اور کا کیا سوچے؟ کوئی بھی انسان اپنے متعلقین کی زندگی کا معیار بلند کرنے کے بارے میں اُسی وقت سوچ سکتا ہے جب اُس کی اپنی زندگی کا معیار بلند ہو اور وہ پُرسکون انداز سے جی رہا ہو۔ پُرسکون اور مستحکم زندگی مستقبل کے لیے بہتر منصوبہ سازی کی گنجائش پیدا کرتی ہے۔ جب کوئی بھی فرد اپنے معاملات درست رکھنے میں کامیاب ہوتا ہے تبھی دوسروں کے لیے کچھ کرنے کا وقت نکل پاتا ہے اور وسائل بھی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایسی حالت میں متعلقین کے لیے کچھ کرنے کا عزم بھی پروان چڑھتا ہے۔ متعلقین میں چھوٹے بھائی بہن بھی ہوسکتے ہیں اور اولاد بھی۔ بہت سوں نے اضافی طور پر رشتہ داروں اور دوستوں کا بھلا کرنے کی ذمہ داری بھی اپنے سَر لی ہوئی ہوتی ہے۔ زیادہ بوجھ سر پر لاد کر ڈھنگ سے چلنا ممکن نہیں ہو پاتا؛ البتہ اولاد کے لیے کچھ سوچنا اور کرنا اصلاً والدین ہی کی ذمہ داری ہے۔ والدین ہی اُن کے لیے بہتر منصوبہ سازی کے ساتھ کچھ کرنے کا ذہن بناسکتے ہیں۔ کسی کو کیا پڑی ہے کہ دوسروں کی اولاد کا مستقبل تابناک بنانے کے حوالے سے سوچے اور اِس حوالے سے مصروفِ عمل ہو؟
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاشی اور معاشرتی معاملات کی پیچیدگیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ کوئی کتنی ہی کوشش کر دیکھے، معاملات کو سمجھنے میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو پاتا۔ اِس کا بنیادی سبب یہ نہیں ہے کہ معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی بلکہ بات کچھ یوں ہے کہ ذہن پر اثر انداز ہونے والے معاملات ہیں ہی اِتنے زیادہ کہ ذہن کو متوازن رکھنا اور صرف متعلقہ باتوں سے کام رکھنے کی عادت کا پروان چڑھانا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ یہ مسئلہ صرف ہمارے معاشرے کا نہیں۔ ہر معاشرے کا انسان شدید نوعیت کی ذہنی الجھنوں کا شکار ہے۔ ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ذہن پر جو حملے کیے جارہے ہیں اُن سے بچاؤ کے بارے میں کوئی بھی نہیں سوچ رہا۔ بہت سی فضول باتیں کسی نہ کسی طور ذہن میں داخل ہوکر معاملات میں خطرناک حد تک بگاڑ پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔ عام آدمی‘ جس کے شعور کی سطح برائے نام بھی بلند نہیں‘ مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر پیش کیے جانے والے تمام کے تمام مواد کو ہضم کرنے پر تُلا رہتا ہے جبکہ ایسا کرنے کا کوئی منطقی جواز نہیں۔ آج کے انسان کے لیے میڈیا کے حوالے سے خصوصی تربیت لازم ہے۔ اُسے بتایا جانا چاہیے کہ اپنی اور متعلقین کی زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے کیا پڑھنا اور کیا دیکھنا چاہیے۔ سوشل میڈیا سے سبھی کچھ کشید کرنے کی ذہنیت ترک کرکے صرف کام کی باتوں پر دھیان دینے کی اشد ضرورت ہے۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ذہن کو تیار کیا گیا ہو، اُسے اہم معاملات کو اہم گرداننے کی تربیت دی گئی ہے۔ ذہن سے کام لینا اور ہر معاملے میں اسے بروئے کار لانا ہر انسان کے بس کی بات نہیں۔ اِس کے لیے بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے، مشق اور مشقّت کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہم اس معاملے میں بھی انوکھے نہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں کے لوگ بھی آج اگر بہت کچھ کر پارہے ہیں تو محض اس لیے نہیں کہ وہ خصوصی ذہن لے کر پیدا ہوئے ہیں بلکہ اس لیے کہ اُنہوں نے ذہن سے کام لینے کی تربیت پائی ہے، اُنہیں بہتر زندگی کے لیے‘ شعوری کوششوں کے ذریعے‘ تیار کیا گیا ہے۔
ہم ایک ایسی دنیا کا حصہ ہیں جس میں کچھ بھی از خود نہیں ہوتا، کرنا پڑتا ہے۔ کوئی ادارہ بہت کامیاب ہے تو صرف اس لیے کہ اُسے کامیابی سے ہم کنار رکھنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ کوئی گاڑی خود بخود نہیں چلتی۔ اُسے کوئی نہ کوئی چلا رہا ہوتا ہے۔ پائلٹ کے بغیر اُڑنے والا ڈرون بھی خود نہیں اُڑ رہا ہوتا بلکہ کہیں کوئی کسی مشین یا پینل کے سامنے بیٹھ کر اُس کی پرواز کو کنٹرول کر رہا ہوتا ہے۔ عام آدمی کو اپنے ذہن سے یہ تصور کھرچ کر اکھاڑ پھینکنا ہو گا کہ جس طور حالات پلٹا کھاکر معاملات میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں اُسی طور کبھی پلٹا کھاکر معاملات کو درست بھی کر دیں گے۔ بگڑے ہوئے معاملات خود بخود درست نہیں ہوتے بلکہ اُنہیں درست کرنا پڑتا ہے۔ شعوری کوشش ہی انسان کو بہتری کی طرف لے جاتی ہے۔ نئی نسل کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ عام آدمی اپنے بارے میں سنجیدہ ہوتا ہے نہ اپنی اولاد کے حوالے سے۔ وہ زندگی یوں بسر کرتا ہے گویا خود کو حالات کے دھارے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہو۔ دھارے کے خلاف بہنے والوں کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنے معاملات کی درستی کے حوالے سے سنجیدہ ہیں۔
ہر عہد کی زندگی انسان سے سنجیدگی کا تقاضا کرتی ہے۔ زندگی صرف ہنسی یا ٹھٹھے کا نام نہیں۔ ہمیں بیشتر معاملات میں ایک خاص حد تک سنجیدہ ہونا ہی پڑتا ہے۔ ہنستے گاتے جینا اچھی بات ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر معاملے کو ہنسنے گانے کی نذر کردیا جائے۔ جہاں غیر معمولی سنجیدگی درکار ہو وہاں ہلکے پھلکے مزاح سے کام نہیں چل سکتا۔ بدلتا وقت ہم سے بہت سے معاملات میں سنجیدگی چاہتا ہے۔ ہر عہد میں نئی نسل کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنا ایک بڑے مشن کے درجے کا حامل رہا ہے۔ نئی نسل میں سنجیدگی برائے نام ہوتی ہے۔ اُسے سنجیدہ فکر کی طرف مائل کرنا پڑتا ہے۔ یہ کام بہت چھوٹی عمر سے کیا جانا چاہیے۔ اٹھارہ‘ بیس سال کے نوجوان سے اچانک سنجیدہ ہونے کو کہا جائے تو وہ بات کو سمجھ ہی نہیں پاتا۔ تین چار سال کی عمر سے جسے بتایا گیا ہو کہ بہتر زندگی کے لیے پوری توجہ سے محنت کرنا پڑتی ہے‘ وہی اپنے آپ کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنے میں آسانی محسوس کرتا ہے۔
آج پاکستان کی نئی نسل طرح طرح کے غیر متعلق معاملات میں الجھی ہوئی ہے۔ وقت ہی کچھ ایسا چل رہا ہے کہ ہر عمر کے فرد کو اپنی زندگی سے غیر متعلق معاملات الگ رکھنا بوجھ محسوس ہو رہا ہے۔ یہ بوجھ اٹھانے کی سکت کم لوگوں میں ہے کیونکہ اِس کے لیے دل کو ایک خاص حد تک مارنا پڑتا ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ لوگ دل کو مارنے کے لیے تیار نہیں، چاہے یہ روش اُن کی زندگی کی کشتی کو ڈبونے ہی پر تُل جائے! نئی نسل کو مستقبل کے لیے تیار کرنا ایک دشوار گزار اور کبھی کبھی جاں گُسل مرحلہ ثابت ہوتا ہے۔ اولین شرط یہ ہے کہ والدین میں سنجیدگی پائی جائے۔ گزشتہ پندرہ‘ بیس برس کے دوران جو لوگ جوان ہوئے ہیں اُن کی فکری ساخت کمزور ہے۔ وہ اولاد کو کچھ بنانے کے حوالے سے سنجیدہ ہی نہیں۔ اِس کے نتیجے میں صرف خرابیوں کو راہ مل رہی ہے۔