ایسا لگتا ہے کہ پوری دنیا کام کے پیچھے پڑگئی ہے۔ کام کیے بغیر چھٹکارا بھی نہیں اور کام کرنا گوارا بھی نہیں۔ لوگ زندگی بھر کام کا رونا روتے رہتے ہیں مگر کبھی یہ نہیں سوچتے کہ کام کے بغیر بات بنتی نہیں‘ کام چلتا نہیں۔ جس کام کے بغیر کام نہیں چلتا اُس سے ایسی اور اِتنی بیزاری؟ بات سمجھ میں آنے والی نہیں۔
ایک دنیا ہے کہ کام کے ذریعے ترقی کی منازل طے کرتی جارہی ہے اور ایک ہم ہیں کہ کام کے معاملے میں سنجیدہ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ اکثریت کا یہ حال ہے کہ کام پر جاتے ہوئے مُوڈ خراب ہوتا ہے۔ رزق کے حصول کے لیے گھر سے نکلتے وقت مُوڈ کا بگڑنا؟ یہ تو کوئی بات ہی نہ ہوئی مگر کیا کیجیے کہ بیشتر کا یہی معاملہ ہے۔ لوگ کچھ خاص کیے بغیر بہت کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا ہو سکتا ہے؟ ایسا کبھی ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے۔ کام کے بغیر تو کسی کا کام نہیں چلتا۔ یہ دنیا صرف اور صرف اس بنیاد پر چل رہی ہے کہ لوگ کام کر رہے ہیں۔ حرکت اور محنت و مشقّت ہی اِس دنیا کا اصل حُسن ہے اور ہم ہیں کہ دنیا کے حُسن میں اضافہ کرنے والی حقیقت ہی سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔
عظیم موجد ایڈیسن نے ایک بہت ہی عجیب بات کہی تھی۔ کسی نے جب کام کی اہمیت اور عظمت کے حوالے سے کچھ پوچھا تو ایڈیسن نے کہا ''میں نے کبھی ایک دن بھی کام نہیں کیا!‘‘ کیا واقعی؟ جی ہاں‘ ایڈیسن نے یہی کہا تھا۔ اور اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ ایڈیسن نے کبھی ایک دن بھی کام نہیں کیا۔ وہ زندگی بھر مصروف رہے۔ اُنہوں نے اپنے وقت کو اس حد تک بروئے کار لانے کی کوشش کی کہ اُن کے پاس اپنے لیے بھی وقت نہ بچا۔ وہ دن رات تحقیق میں مصروف رہتے تھے اور جو کچھ وہ جان پاتے تھے اُس کی بنیاد پر تجربے کرتے رہتے تھے۔ اُن کی ایجادات کی فہرست خاصی طویل ہے۔ بلب کی ایجاد بھی اُن کے کھاتے میں ہے۔ اُنہوں نے کیمرا بھی بنایا‘ آواز ریکارڈ کرنے والا آلا بھی بنایا۔ اور بھی بہت کچھ ہے جو ایڈیسن سے منسوب ہے مگر یہ بات انتہائی حیرت انگیز ہے کہ اُنہوں نے زندگی بھر ایک دن بھی کام نہیں کیا۔ سیدھی سی بات ہے‘ اگر وہ ''کام‘‘ کرتے تو اِتنا بہت کچھ کیونکر ایجاد کر سکتے تھے۔ جس کسی نے بھی اپنے کام کو کام سمجھا ہے وہ کام کے قابل رہا نہیں۔ لوگ عمومی سطح پر جو کچھ کرتے ہیں وہ محض کام ہے۔ جو لوگ واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ کام سے ہٹ کر بہت کچھ کرتے رہتے ہیں اور کام کرنے کی کوشش کبھی نہیں کرتے۔
معاملہ یہ ہے جناب کہ ہر وہ انسان دوسروں سے بہت بلند اور نمایاں رہا ہے جس نے اپنے کام کو کام سجھ کر کیا ہی نہیں۔ کام جب تک زندگی نہ بن جائے تب تک انسان کو بلندی عطا نہیں کر سکتا۔ اس دنیا میں کروڑوں بلکہ اربوں افراد محنت کرتے ہیں مگر آپ ہی بتائیے کہ اُن میں سے کتنوں کو یاد رکھا جاتا ہے یا یہ کہ یاد رکھا جائے گا۔ محض چند ایک کو۔ اور وہ بھی صرف اس بنیاد پر کہ وہ دنیا کو کچھ دے کر جائیں۔ اگر کچھ نہ دے پائے تو جینا کسی کام کا نہیں۔
کسی بھی معاشرے میں اکثریت واضح طور پر اُن کی ہے جو محض زندہ رہنے کے لیے زندہ رہتے ہیں۔ اُن کی زندگی کا بظاہر کوئی خاص یا بڑا مقصد نہیں ہوتا۔ وہ اپنے وجود کو بھی بلند نہیں کرتے اور دوسروں کو بھی بلند ہونے کی تحریک نہیں دے پاتے۔ کسی بھی معاشرے کے عام آدمی کا یہی حال ہے۔ اب پھر اسی سوال کی طرف آئیے کہ کام کیوں کیا جائے اور کیوں نہ کیا جائے۔ کام یعنی معاشی سرگرمی، کچھ کمانے یا پانے کے لیے کی جانے والی محنت۔ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ کسی نہ کسی چیز کے حصول ہی کے لیے تو ہوتا ہے۔ یہ بات ہو رہی ہے گھر سے باہر نکل کر معاشی میدان میں کی جانے والی جدوجہد کی۔ ہر انسان کو گزر بسر کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑتا ہے۔ جب کچھ کرنا ہی ٹھہرا تو پھر کیسی بیزاری اور کیسا چڑچڑا پن؟ کیوں نہ سوچ بدلی جائے اور جو کچھ بھی کرنا ہے وہ پورے من سے کیا جائے؟
ایڈیسن نے یہی بات سمجھائی ہے۔ اُن کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دو میں سے کوئی ایک حالت پیدا کی جانی چاہیے۔ انسان جو کچھ بھی کرتا ہو اُس سے پیار کرے یا پھر یہ کہ جس معاملے سے پیار کرتا ہو اُسی کو اپنی معاشی جدوجہد میں تبدیل کرلے۔ اِن میں کوئی بھی ہر صورت میں ہمارے لیے کام کی ہے۔ جب ہم اپنے کام سے پیار کرتے ہیں تب کام کرنا نہیں پڑتا۔ دنیا کے سب سے عقل مند انسان وہ ہیں جو کبھی ایسی معاشی سرگرمی میں حصہ نہیں لیتے جو اُن کے من کو بھاتی نہ ہو۔ اس کیفیت کو پیدا کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے مشغلے یا مشاغل ہی کو معاشی سرگرمی میں بدل لے۔ ایسی حالت میں ذہن پر پڑنے والا دباؤ اس حد تک کم ہو جائے گا کہ کام کسی بھی سطح پر کام نہیں لگے گا اور دل زیادہ سے زیادہ مصروف رہنا پسند کرے گا۔ جب بھی کوئی اپنے مشغلے کو کام میں تبدیل کرتا ہے تب اُسے کام نہیں کرنا پڑتا۔ اور وہ بھی کبھی کام کرنے پر مجبور نہیں ہوتے جو اپنے کام کو ٹوٹ کر چاہتے ہیں۔ کام سے بچنے کی اور کوئی معقول صورت نہیں۔ معاشی جدوجہد کو دل و جان سے چاہنے کی صورت میں انسان ہنستے کھیلتے کام کرتا ہے اور اپنی مرضی کے نتائج بھی حاصل کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔
دنیا میں کامیابی کے بہت سے راز ہیں اور کم و بیش تمام ہی راز اب راز نہیں رہے۔ غیر معمولی کامیابی سے ہم کنار ہونے والوں نے بھی بہت کچھ لکھا اور کہا ہے جبکہ کامیابی کا تجزیہ کرنے والوں نے بھی معاملات کو کھول کر بیان کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رہنے دی۔ یہ محض آج کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ہر دور میں وہی لوگ کامیاب رہے ہیں جنہوں نے اپنے مشغلے کو کام بنایا یا پھر جو کچھ بھی کرنے کو ملا اُسے دل و جان سے قبول کرتے ہوئے کیا۔ اگر انسان اپنے کام ہی سے محبت نہ کرے تو زندگی کو متوازن اور مستحکم کیسے بنا سکتا ہے؟ یہ دنیا اُن کے لیے ہے جو اِسے چاہتے ہیں۔ دنیا سے پیار کرنے کا ایک معقول اور آسان طریقہ یہ بھی ہے کہ انسان اپنے کام یعنی معاشی جدوجہدکو بوجھ نہ سمجھے بلکہ اُس سے پیار کرے‘ اُسے دل کی گہرائی سے قبول کرتے ہوئے مصروفِ عمل ہو۔ ایسی حالت میں انسان بہت زیادہ کام بھی کرتا ہے اور اُسے کام کرنا بھی نہیں پڑتا۔ ایڈیسن لگن‘ محنت اور سنجیدگی کے جس مقام پر تھے وہاں تک پہنچنا ہما شما کے بس کی بات نہیں۔ اِس کے لیے بہت صبر اور اپنے آپ پر بہت جبر کرنا پڑتا ہے۔ یہ گویا ؎
پل میں کیسے کسی کے ہو جائیں
یہ تو اِک عمر کی ریاضت ہے
والا معاملہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی اپنے مشغلے کو معاشی جدوجہد کا میدان بنانا چاہے اور بات بن جائے۔ گزر بسر کے لیے جو کچھ بھی کرنا پڑے اُس کے محرکات کو سمجھنا اور اپنے آپ کو تیار کرنا پڑتا ہے۔ ایڈیسن جیسے لوگ مثالی اس لیے کہلاتے ہیں کہ وہ اپنے کام سے اِس قدر محبت کرتے ہیں کہ پھر کام کرنا نہیں پڑتا۔ اس منزل تک پہنچنا آسان نہیں‘ لیکن اگر یہاں تک پہنچ گئے تو پھر کچھ بھی مشکل نہیں رہتا۔
ہم زندگی بھر معاشی جدوجہد کو ایک بوجھ سمجھ کر سہتے رہتے ہیں۔ یہ سوچ ہی غلط ہے۔ گزر بسر کے لیے ہی نہیں بلکہ ڈھنگ سے جینے کے لیے بھی کچھ نہ کچھ کرتے رہنا لازم ہے۔ اور اگر مصروفیت کسی بڑے اور واضح مقصد کے لیے ہو تو کیا کہنے۔ تب تو تھکا دینے والی محنت بھی نہیں تھکاتی۔ یہ بہت حد تک ذہنی تیاری کا معاملہ ہے۔ متعلقہ مواد پڑھ کر اچھی ذہنی تیاری کی جا سکتی ہے۔