"MIK" (space) message & send to 7575

بدلتی دنیا‘ بدلتے لوگ

ہم پل پل بدلتی دنیا میں جی رہے ہیں۔ بدلتے رہنا دنیا کا کام ہے اور زندگی اِسی کا نام ہے۔ ہر عہد میں یہ دنیا کچھ سے کچھ ہوتی گئی ہے۔ کبھی دانستہ کوششوں کی بہ دولت اور کبھی حالات کے زیرِ اثر یعنی کسی واضح شعوری کوشش کے بغیر بھی دنیا بدلتی آئی ہے۔ ٹیکنالوجی کے شعبے میں رونما ہونے والی پیش رفت کے زیرِ اثر دنیا اِس طور بدلتی ہے کہ ہمیں اندازہ ہی نہیں ہو پاتا۔ ہم بہت سے معاملات میں اِدھر اُدھر سے بہت سے اثرات قبول کرتے رہتے ہیں اور اِس کا احساس تک نہیں ہو پاتا۔ یہ دنیا ایسی ہی ہے اور ایسی ہی رہے گی۔ تبدیلی کے عمل پر اثر انداز تو ہوا جاسکتا ہے اور اُس کے اثرات بھی قبول کیے جاسکتے ہیں مگر اُسے روکا نہیں جاسکتا۔ تبدیلی نہ ہو تو دنیا بھی نہ ہو اور وہ نعمت بھی ہمارے لیے نہ رہے جسے ہم زندگی کہتے ہیں۔ اقبالؔ نے خوب کہا ہے ع
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
ہم سبھی یہ بات جانتے ہیں کہ یہ دنیا بدلتی رہی ہے اور بدلتی رہے گی مگر پھر بھی کتنی عجیب بات ہے کہ ہم اپنے آپ کو تبدیلی کے لیے آسانی سے تیار نہیں کر پاتے۔ کبھی ذہن کام نہیں کرتا اور کبھی وسائل میسر نہیں ہوتے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم تبدیلی کے لیے تیار ہوتے ہیں اور وسائل بھی ہوتے ہیں مگر معاملات کی نوعیت کچھ ایسی ہو جاتی ہے کہ ہم مطلوب تبدیلی یقینی بنانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ ایسا کیوں ہے کہ ہم تبدیلی کی اہمیت سے اچھی طرح واقف ہونے پر بھی اپنے آپ کو بدلنے کے لیے تیار نہیں ہو پاتے؟ وہ کیا ہے جو ہمیں تبدیل ہونے سے روکتا ہے؟ وہ کون سی الجھن ہے جو قدم قدم ہمارے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دیتی ہے؟ ہم دنیا بھر میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے اچھی طرح آشنا ہونے پر بھی اپنے آپ کو ناگزیر تبدیلیوں سے بطریقِ احسن گزرنے کے لیے تیار نہیں کر پاتے۔ یہ بات اِتنی عجیب ہے کہ ہر عہد کے اہلِ دانش نے اس معاملے پر روشنی ڈالی ہے، اظہارِ خیال کیا ہے تاکہ لوگ کچھ کرنے اور تبدیل ہونے کی تحریک پائیں۔ پھر بھی لوگ ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ ہر عہد کی طرح آج کے انسان کو بھی معلوم ہے کہ تبدیلی ناگزیر حقیقت ہے۔ کوئی کتنی ہی کوشش کرلے، تبدیلی کے مختلف مراحل سے گزرے بغیر جی ہی نہیں سکتا۔ جب ایک معاملہ ہونا ہی ہے تو کیوں نہ اُسے دل کی گہرائی سے قبول کرتے ہوئے خود کو ذہنی طور پر تیاری کی حالت میں رکھا جائے؟
انسان کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ جن معاملات کو اپنے لیے ''سٹیک‘‘ کا درجہ دیتا ہے اُن سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ پھر چاہے اِس طرزِ فکر و عمل سے وہ ''سٹیک‘‘ ہی داؤ پر کیوں نہ لگ جائے! بعض معاملات میں تبدیلی کے لیے خود کو فوری طور پر تیار کرنا ناگزیر ہوتا ہے مگر ہم صرف سوچتے رہ جاتے ہیں۔ ذہن الجھا رہتا ہے‘ وقت گزر جاتا ہے اور ہم نقصان سے دوچار ہو رہتے ہیں۔ انسانی مزاج میں ایک بنیادی پیچیدگی یہ ہے کہ وہ اپنے کسی ایک سٹیک کو بچانے کے لیے اُس سے بڑے سٹیک کو داؤ پر لگادیتا ہے۔ یہ لالچ کا معاملہ ہے۔ لالچ انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتا۔ ہم زندگی بھر مختلف معاملات میں محض اس لیے الجھے رہتے ہیں کہ ایک طرف تو لالچ کارفرما رہتا ہے اور دوسری طرف خوف بھی دامن گیر رہتاہے۔ لالچ اور خوف کے درمیان پھنسا ہوا انسان اپنی صلاحیت سے کام لے پاتا ہے نہ سکت سے۔ کسی بھی انسان کے لیے سب سے بڑھ کر ہے وقت یعنی کسی بھی کام کے کرنے کے لیے وقت کی موزونیت۔ یہ ٹائمنگ ہی تو ہے جو کسی بھی معاملے میں اس بات کا تعین کرتی ہے کہ ہمیں کیا ملنا چاہیے یا کیا نہیں ملنا چاہیے۔
دنیا کا بدلنا ہر عہد میں طے تھا اور آنے والے زمانوں کا بھی یہی معاملہ رہے گا مگر اس حقیقت پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ گزرے ہوئے زمانوں میں تبدیلیاں قدرے سست رفتار تھیں اور اُن کے واقع ہونے کے ساتھ ساتھ خود کو بدلتے رہنا بھی بہت حد تک محض ممکن نہ تھا بلکہ آسان بھی تھا۔ آج معاملہ یہ ہے کہ تبدیلیاں بہت تیزی سے رونما ہو رہی ہیں۔ بہت کچھ دیکھتے ہی دیکھتے بدل جاتا ہے اور ہم محض حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ ہر شعبے میں پیش رفت اِس حد تک ہوچکی ہے کہ اب تبدیلیوں پر اثر انداز ہونا ممکن نہیں رہا اور حیران ہونے کی گنجائش بھی نہیں رہی۔ اب انسان کس کس بات پر حیران ہو؟ یہاں تو قدم قدم پر ایسا بہت کچھ ہو رہا ہے جو ورطۂ حیرت میں ڈالنے کے لیے کافی ہے۔ اِس پریشانی سے بچنے کا آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ اب کسی بھی بات پر حیران نہ ہوا جائے اور کسی بھی تبدیلی کے ساتھ ساتھ خود کو بدلنے کے لیے تیار رہا جائے۔ یہ کوئی ایسا کام نہیں کہ محض کہنے سے ہو جائے۔ یہ چونکہ فیصلے اور اختیار کا معاملہ ہے اِس لیے اپنے آپ کو رضامند کرنے اور بہت کچھ برداشت کرنے کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ لوگ اِسی چیز سے کتراتے‘ بھاگتے ہیں۔ تبدیلی چونکہ ناگزیر ہے اِس لیے اِس کا سامنا کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی معاشرے میں اکثریت تبدیلی کو ایک ناگزیر حقیقت تسلیم کرتے ہوئے بھی خود کو ڈھنگ سے بدلنے کے لیے تیار نہیں ہو پاتی۔ بہت کچھ بدلتا ہے تو ہم بھی بدل جاتے ہیں۔ جب ہم اِسے زبردستی کا معاملہ بننے دیتے ہیں تب زندگی کی رونق ماند پڑنے لگتی ہے۔ کسی بھی ناگزیر تبدیلی کو اگر صدقِ دل سے قبول نہ کیا جائے تو جو تھوڑے بہت مثبت اثرات ممکن ہوتے ہیں وہ بھی ہاتھ سے جاتے رہتے ہیں۔ کامیابی اُن کے لیے ہے جو ناگزیر تبدیلی کو کھلے دل اور ذہن کے ساتھ تسلیم کریں اور اپنے آپ کو اُس حد تک بدلیں جس حد تک بدلنا لازم ہو۔
آج کی دنیا اِتنی تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے کہ اِس کے ساتھ قدم ملا کر چلنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ جو لوگ تمام اہم اور نمایاں تبدیلیوں پر نظر رکھتے ہیں اور اپنے آپ کو بدلنے کے لیے تیار رہتے ہیں وہی حقیقی معنوں میں کامیاب ٹھہرتے ہیں۔ تیزی سے بدلتے ہوئے ماحول میں کامیابی یقینی بنانا جُوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ یہ زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سے معاملات میں اچھا خاصا اختیار سونپا ہے۔ ماحول سے ہم آہنگ رہنا انسان کے بس میں ہے۔ وہ اگر خود کو تبدیلیوں سے بخوبی گزرنے کے لیے تیار کرے تو بہت کچھ پاسکتا ہے۔ آپ چاہیں تو اپنے ماحول میں بہت سوں کو بدلتا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ بالعموم کامیاب رہتے ہیں۔ تیزی سے بدلتے ہوئے ماحول سے ہم آہنگ رہنے کے لیے سب سے بڑھ کر تعلیم و تربیت پر توجہ دینا پڑتی ہے۔ جو لوگ زیادہ علم حاصل کرتے ہیں وہ زیادہ تیزی سے آگے بڑھتے ہیں، اپنے آپ کو بدلنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور یوں اُن کی زندگی میں معنویت بڑھتی جاتی ہے۔ زندگی میں معنویت کا گراف بلند رکھنے کے لیے ماحول سے مطابقت لازم ہے اور ماحول سے حقیقی مطابقت اُسی وقت پیدا کی جاسکتی ہے جب انسان طے کرے کہ اُسے ساکت و جامد نہیں رہنا بلکہ بدلتے رہنا ہے۔ بدلتے رہنے کا مطلب اُصولوں پر سودے بازی نہیں بلکہ جہاں بھی ناگزیر ہو وہاں اپنے آپ کو بدلنے کے لیے تیار رہنا ہے۔ یہ کام چاہے کتنا ہی مشکل دکھائی دے رہا ہو، یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ناممکن ہرگز نہیں۔ قدرت نے ہمیں بہت سے معاملات میں اچھا خاصا اختیار دے رکھا ہے۔ قدرت کی رضا سمجھتے ہوئے کسی بھی ناگزیر تبدیلی کو قبول کرنا اور اُس سے مطابقت رکھنے والی تبدیلیاں ممکن بنانا ہمارے لیے خیر و برکت کا سامان کرتا ہے۔
ہمارے معاشرے کے پسماندہ رہ جانے کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم نے تبدیلی کو ناگزیر حقیقت کی حیثیت سے قبول نہیں کیا۔ بعض معاملات میں ہم تبدیلی کو با دلِ ناخواستہ قبول کرتے ہیں۔ یوں طرزِ فکر و عمل میں بدلتے وقت سے مطابقت پیدا کرنے میں الجھن کا سامنا رہتا ہے۔ دنیا کے مختلف ادوار کا جائزہ لینے سے سمجھا جاسکتا ہے کہ ہم انوکھے نہیں کہ تبدیل نہ ہوں اور کچھ بن جائیں‘ پنپ جائیں۔ خود کو بدلتی دنیا سے ہم آہنگ رکھنے کا فیصلہ کیجیے اور پھر دیکھیے کہ آپ کی دنیا کیسے بدلتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں