"MIK" (space) message & send to 7575

ہوش کے کانٹے کی چبھن

سارے جھگڑے کب تک ہیں؟ صرف ہوش تک! جب تک ہوش ہے تب تک احساس ہے۔ جب تک احساس ہے تب تک دل میں کسک ہے اور چبھن بھی۔ معاملات اگر شروع ہوتے ہیں تو احساس سے اور ختم ہوتے ہیں تو احساس پر۔ احساس گیا تو پھر کچھ بھی نہ رہا۔ بس اِتنا سمجھ لیجیے کہ احساس ہی سے زندگی ہے۔ یہ وصف نہ ہو تو زندگی نہیں رہتی، صرف دنوں کی گنتی رہ جاتی ہے۔ انسانوں کے سوا تمام جاندار اِسی طور جیتے ہیں کیونکہ اُنہیں اپنی طبعی عمر اِسی طور مکمل کرنے کے لیے خلق کیا گیا ہے۔ ہمارے خالق کی منشا یہ ہے کہ ہم یعنی اِنسان دیگر تمام مخلوق سے ہٹ کر جئیں اور اِس کی صورت یہ رکھی گئی ہے کہ سوچیے، سمجھیے، فیصلہ کیجیے، تبدیل ہو جائیے، اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی بہتری کا سامان کیجیے۔ ہمارے شعرا نے زندگی کو پُرسکون بنانے کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے، اپنے نتائجِ طبع کی شکل میں نسخے تک تجویز کیے ہیں۔ دورِ قدیم میں کہا گیا ؎
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کیلئے کچھ کم نہ تھے کرّو بیاں
زندگی کو اعلیٰ اقدار اور صفات کی حامل و ہم آہنگ رکھنے پر زور دیتے ہوئے ایسا بہت کچھ کہا گیا ہے جس نے لوگوں کو معیاری انداز سے جینے کی راہ دکھائی ہے۔ برج نارائن چکبستؔ نے کہا ؎
یہ سودا زندگی کا ہے کہ غم انسان سہتا ہے
وگرنہ ہے بہت آسان اِس جینے سے مر جانا
ہمارے بیشتر قدیم شعرا‘ بالخصوص اساتذہ نے اس نکتے پر بہت زور دیا کہ انسان کو صرف اپنے لیے نہیں جینا بلکہ دوسروں کے مفاد کا بھی خیال رکھنا ہے۔ صرف اپنے لیے جینے کو بھرپور اور معیاری زندگی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ فی زمانہ جہاں اور بہت کچھ بدل گیا ہے وہیں ہمارے شعرا کی سوچ بھی اچھی خاصی بدل گئی ہے۔ ہر دور کے شعرا نے انسان کو اپنے من میں ڈوب کر زندگی کا سراغ پانے کی تحریک دی مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی سمجھایا کہ اپنے من میں ڈوبنے کا مطلب یہ نہیں کہ انسان مطلبی ہو جائے، کسی اور کے بارے میں سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہ کرے۔ بے حسی اور بیزاری کے ساتھ جینا کسی کام کا نہیں ہوتا۔ ہاں‘ دوسروں کے بارے میں سوچتے سوچتے اپنے وجود کو نظر انداز کردینے میں ضرور قباحت ہے۔ سوال اعتدال پسندی کا ہے۔ اپنے وجود کو بالکل نظر انداز کرنا ہے نہ اُس میں ہی گم ہوکر رہ جانا ہے۔ انسان کو ہر میلانِ طبع کے حوالے سے معتدل رویہ اپنانا ہے۔ اِسی میں زندگی کا حسن مضمر ہے۔ بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں جب زندگی کا عمومی ڈھانچا بدلا، اخلاقی اقدار اور ذمہ داریوں کو نظر انداز کرنے کی روش عام ہوئی تو ہمارے کچھ شعرا کی سوچ بھی بدل گئی۔ ایسے میں نریش کمار شادؔ نے ذاتی خیال کے پیرائے میں ''حقیقت پسندانہ‘‘ مشورہ دیا ؎
اے ہم نشیں! اذیتِ فرزانگی نہ پوچھ
جس میں ذرا بھی عقل تھی‘ دیوانہ ہو گیا!
دوسرے بہت سے شعرا کی طرح کوثرؔ مہر چند نے بھی پیغام دیا کہ ہر وقت سوچتے رہنا خطرناک اور خسارے کا سودا ہے۔ انسان ہوش میں رہے تو بہت سے معاملات ستاتے رہتے ہیں۔ ایسے میں عمومی دانش یہ کہتی ہے کہ بعض معاملات میں ہوش کی منزل سے گزر جانا چاہیے۔ کوثرؔ مہر چند کہتے ہیں ؎
وجۂ سکوں ہے عالم سرمستی و جنوں
اچھا ہوا کہ ہوش کا کانٹا نکل گیا
اردو زبان و ادب کے قرونِ وسطیٰ کے شعرا نے بھی جا بجا یہ نصیحت کی کہ اپنے وجود کو نظر انداز کرنا اچھی بات نہیں اور یہ بھی مستحسن نہیں کہ دوسروں کو بالکل نظر انداز کردیا جائے۔ کوئی بیچ کی راہ نکالی جائے تاکہ اپنا وجود بھی نظر انداز نہ ہو اور دوسروں کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ بھی برقرار و توانا رہے۔ ہوش میں رہنے کا مطلب ہے شعور کے ساتھ زندگی بسر کرنا۔ جب انسان اپنے ماحول کی حدود میں اُس سے ہم آہنگ رہتے ہوئے زندگی بسر کرتا ہے تو بہت سے معاملات کو اپنی فکری ساخت پر اثر انداز ہوتا ہوا پاتا ہے۔ ماحول اگر انسان کے ذہن میں زندہ ہو تو اثرات مرتب کیے بغیر نہیں رہتا۔ ایسے میں سوچنا بھی پڑتا ہے اور کچھ طے کرنے کی منزل سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ یہ ہوش ہی تو ہے جو ہمیں احساس کی دولت سے ہم کنار رکھتا ہے۔ ہوش ہمیں شعور کی منزل تک لے جاتا ہے۔ شعور کی مدد سے ہم کسی بھی معاملے کو سمجھتے ہیں۔ شعور ہی ہمیں اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے آشنا کرتا ہے۔ شعور نعمت ہے۔ یہ نعمت صرف اِنسان کے حصے میں آئی ہے۔ اِس نعمت کو پروان چڑھانے میں احساس کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ احساس تب ہوتا ہے جب ہم ہوش کی حالت میں رہنے کو ترجیح دیں یعنی اپنے ماحول سے بیگانگی نہ برتیں۔ ماحول میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو ہمیں پریشان کرتا ہے۔ یہ پریشانی حالتِ ہوش کے ہاتھوں واقع ہوتی ہے۔ انسان بے حسی کو اپنا شعار بنالے تو پھر کوئی پریشانی رہتی ہے نہ کڑھن۔ کسی کی الجھن دیکھ کر آپ کو الجھن اُسی وقت ہوسکتی ہے جب آپ ماحول سے بے نیاز رہتے ہوئے جینے کو ترجیح نہ دیں بلکہ اپنی اخلاقی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے کسی کی ہر اُس طرح سے مدد کریں جو ہمارے دائرۂ اختیار میں ہو۔ ماحول سے بے نیاز ہوکر جینا بھی ممکن ہے مگر پوری دیانت سے جائزہ لیجیے تو کوئی جینا ہے ہی نہیں۔ یہ تو خالص حیوانی سطح بلکہ اُس سے بھی ایک قدم آگے کا معاملہ ہوا۔ انسان جب بے حسی کو شعار بنانے پر تُل جاتا ہے تو وہاں بھی کچھ نہیں کر پاتا جہاں کچھ نہ کچھ کرنا اُس میں انسانیت کو زندہ رکھنے کے لیے لازم ہوا کرتا ہے۔ یہ گویا اپنے ہی وجود کو تختۂ دار پر لٹکانے جیسا معاملہ ہوا۔
جو کچھ بھی چکبستؔ، نریش کمار شادؔ اور کوثرؔ مہر چند نے کہا وہ حقیقت سے فرار پر مائل ہونے کی تعلیم نہیں بلکہ زندگی کے تمام مشکل مراحل کا سامنا کرتے ہوئے زندہ رہنے کی تحریک ہے۔ بے حسی کو گلے لگاکر ماحول سے برائے نام تعلق کے ساتھ جینے کا آپشن بھی موجود ہے؛ تاہم یہ آپشن زندگی کو محدود کرنے والا ہے۔ صرف اپنی ذات کے لیے جینا زندگی کے وسیع تر مفہوم اور تناظر کی توہین کے سوا کچھ نہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی نہیں جو دوسروں کی مدد کے بغیر کچھ بن سکے، کچھ کرسکے۔ بہت سوں کی محنت ہماری کامیابی میں بلا واسطہ یا بالواسطہ کردار ادا کرتی ہے۔ اگر کوئی آنکھیں بند کرنے پر تُل جائے، کسی کا احسان مند نہ ہونے پر بضد ہو تو اور بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی بھر ہم دوسروں سے بہت کچھ لیتے ہیں اور اُنہیں بھی کچھ نہ کچھ دیتے ہیں۔ زندگی کی گاڑی اِسی طور رواں رہتی ہے۔ آپ کو زندگی بھر ایسے لوگ ملتے رہیں گے جنہوں نے اپنے آپ کو ہوش سے بیگانہ کرلیا یعنی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرتے ہوئے اپنی مرضی کے مطابق صرف اپنے لیے زندہ رہنے کا آپشن اپنا بیٹھے۔ کبھی آپ نے اُن کے معاملات پر غور کیا ہے؟ غور کیجیے گا تو دیکھیے کہ سب سے کٹ کر‘ صرف اپنے مفاد کو ذہن نشین رکھتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی کوشش ایسے لوگوں کو بالکل تنہا کردیتی ہے۔ لوگ اُن سے ملتے ہیں اور ضرورت کے مطابق تعلق رکھتے ہیں، سلام دعا کا معاملہ بھی کرتے ہیں مگر دل سے دعا دیتے ہیں نہ احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
ذمہ داریوں اور فرائض سے فرار کے کئی راستے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے پسندیدہ مشاغل میں گم ہوکر سمجھتے ہیں کہ اپنے ماحول اور باقی دنیا کو دھوکا دے دیا۔ کسی کی نظر میں زندگی صرف وہ ہے جو اپنے لیے ہو یعنی یہ کہ ساری محنت صرف اپنی ذات کے لیے ہونی چاہیے اور کسی کے معاملے میں اپنی کوئی ذمہ داری محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ بے حس اور لاتعلق ہو جانے سے کوئی بھی پُرسکون زندگی کا مزہ نہیں چکھ سکتا۔ اپنے وجود تک محدود رہنا محض سراب ہے۔ زندگی وہی ہے جو پورے ہوش کے ساتھ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی بسر کی جائے اور وہ بھی پورے توازن کے ساتھ۔ دنیا کتنی ہی ترقی کرلے، ہمارے خالق اور رب نے ہمارے لیے جو معاشرتی ڈھانچا طے کیا ہے وہ روزِ ابد تک بہترین راہِ عمل ہے۔ نمایاں حد تک توانا احساس اور پختہ شعور کے ساتھ اوروں کے لیے جینا ہی اصل جینا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں