"MIK" (space) message & send to 7575

دیواروں کے دماغ نہیں ہوتے

ہر معاشرہ طرح طرح کے لوگوں سے بھرا ملتا ہے۔ مزاج کا تنوع ہی کسی معاشرے کا حقیقی حسن ہوتا ہے۔ مزاج کے تنوع ہی سے ہمیں معاشرے میں رنگا رنگی دکھائی دیتی ہے۔ ہر شخص اپنے مزاج کے مطابق کام کرتا ہے تو معاشرہ نکھرتا ہے۔ ہر معاشرے میں ساری کی ساری رنگا رنگی اِس ایک حقیقت کی بنیاد ہی پر قائم ہے کہ سب کا مزاج یکساں نہیں رہتا۔ کیا محض مزاج کا تنوع کسی بھی معاشرے کو زندہ، توانا اور رونق افروز رکھنے کے لیے کافی ہے؟ سب اپنے اپنے مزاج کے مطابق کام کریں تو معاشرے کا بھلا ممکن بنایا جاسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں چند ایک دور کی کوڑیاں بھی لانا پڑیں گی۔ معاملہ یہ ہے کہ ایک طرف تو معاشرہ تنوع کا محتاج رہتا ہے اور دوسری طرف لگن کا۔ اگر کام کرنے کی لگن توانا رہے تو معاشرے پنپتے ہیں۔ ماحول کی تازگی صرف اُس وقت ممکن ہو پاتی ہے جب لوگوں میں کچھ کرنے کا جذبہ پروان چڑھ رہا ہو، کچھ کر دکھانے کی لگن توانا ہو۔ آج ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو یہ دیکھ کر محض کُڑھن ہوتی ہے کہ لوگوں میں اپنے کام سے انصاف کرنے کی لگن تقریباً ختم ہوچکی ہے کہ جو تھوڑی بہت باقی رہ گئی ہے اُس سے کوئی بھی بڑا اور مثبت نتیجہ برآمد ہونے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
دنیا بھر کے کامیاب ترین معاشروں کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ چند افراد کا جوشیلا رویہ معاشرے کو اٹھان نہیں دیتا۔ پوری قوم کو مل کر بھرپور انہماک اور لگن کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے۔ جب سب اپنے اپنے حصے کا کام کرنے میں خاطر خواہ دلچسپی لے رہے ہوں تبھی کچھ ہو پاتا ہے۔ خیر‘ یہ سب کچھ محض کہنے سے نہیں ہو جاتا۔ اِس کے لیے بہت پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ لوگوں کو کسی بھی نئے کام کے لیے ذہن بنانے کی طرف مائل کرنے اور پھر بھرپور لگن کے ساتھ میدانِ عمل میں اترنے پر آمادہ کرنا ہے۔ اِس جاں گُسل مرحلے سے کامیاب گزرنے ہی پر مزید مراحل کو آسان کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ ہر معاشرے میں اکثریت اُن کی ہوتی ہے جو لگی بندھی زندگی بسر کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس کا سبب یہ نہیں ہوتا کہ اُن میں صلاحیت نہیں ہوتی۔ محض صلاحیت نہیں بلکہ اُن میں سکت بھی ہوتی ہے۔ تو پھر کیا سبب ہے کہ اکثریت کو لگی بندھی زندگی بسر کرنے میں زیادہ لطف محسوس ہوتا ہے؟ کیا اُنہیں یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ جو زندگی وہ بسر کر رہے ہیں اُس سے ہٹ کر بھی کوئی زندگی ہوسکتی ہے؟ اور کیا اُنہیں نئی زندگی میں کچھ زیادہ کشش محسوس نہیں ہوتی؟ حقیقت یہ ہے کہ سبھی جانتے ہیں کہ جو زندگی وہ بسر کر رہے ہیں اُس سے کہیں ہٹ کر اور بہتر زندگی بسر کرنا بھی ممکن ہے۔ یہ بات بھی وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اُن کی اپنی لگی بندھی زندگی سے ہٹ کر جو زندگی ہے وہ غیر معمولی کشش کی حامل بھی ہوسکتی ہے۔ بیشتر معاملات میں ایسا ہی ہوتا ہے مگر پھر بھی لوگ کچھ نیا کرنے اور اپنی ڈگر سے ہٹنے کی تحریک نہیں پاتے۔ کیوں؟ یہ سیدھی سی بات غالبؔ نے یوں سمجھائی ہے ؎
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بلند معیار کی زندگی بسر کرنے کے قابل ہونے کے لیے محض صلاحیت اور سکت کا ہونا کافی نہیں۔ محنت بھی کرنا پڑتی ہے۔ متوجہ بھی ہونا پڑتا ہے۔ بہت کچھ قربان بھی کرنا پڑتا ہے۔ لوگ محنت کرنا چاہتے ہیں نہ کچھ قربان کرنا ہی اُنہیں پسند ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ زندگی کی جو بھی ڈگر نصیب ہوگئی‘ اُسی پر چلتے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اِسے ہم فرار کی روش بھی قرار دے سکتے ہیں۔ کسی بھی نوع کی تبدیلی سے بچنے والے لوگ دیواروں کی مانند ہوتے ہیں۔ اُنہیں سمجھانے کی کتنی ہی کوشش کیجیے، اُن پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔ کام کی باتیں بھی وہ یوں سُنتے ہیں گویا نہ سُن رہے ہوں۔ کبھی آپ نے کسی دیوار سے کوئی بات کہی ہے؟ کہتے ہیں دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔ ہوتے ہوں گے مگر یہ بات طے ہے کہ دیواروں کے دماغ نہیں ہوتے۔ دیواریں اگر کان رکھتی ہیں تو سُن بھی لیتی ہوں گی مگر کچھ کہہ نہیں سکتیں۔ محض دماغ ہی نہیں بلکہ اُن کی زبان بھی نہیں ہوتی۔ ہر معاشرے میں اکثریت اُن کی ہے جو چلتی پھرتی دیواروں جیسے ہوتے ہیں۔ کام کی باتیں روز کہیے، کہتے رہیے۔ اُن پر کچھ اثر نہیں ہوتا۔ وہ ٹس سے مَس نہیں ہوتے۔ اپنے لیے طے شدہ ڈگر پر چلتے چلتے وہ زندگی کا سفر ختم کرلیتے ہیں۔ وہ دائرے میں گھومتے رہتے ہیں اور دائرہ بھی ایسا تنگ کہ زیادہ گھومنے پھرنے کی گنجائش ہی نہیں نکلتی۔
ہر ماحول میں قدم قدم پر ایسے لوگ ملتے ہیں جو ایک حد سے آگے جانے پر یقین نہیں رکھتے۔ اِس میں چونکہ آسانی بہت ہے اس لیے لوگ لگی بندھی زندگی بسر کرتے رہنے کو ترجیح دیتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ کسی بھی بڑی تبدیلی کے لیے خود کو تیار نہیں کر پاتے۔ بہت زور دینے پر بھی اِن میں کچھ نیا اور انوکھا کرنے کی لگن پیدا نہیں ہوتی۔ اس کے نتیجے میں اِن کی زندگی کا ڈھانچا تبدیل نہیں ہو پاتا۔ یہ مسائل میں گھرے رہتے ہیں مگر پھر بھی کوئی مناسب حل تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ صلاحیت اور سکت کے ہوتے ہوئے یہ اپنے معاملات کو بے دِلی اور بے حسی کی نذر کرتے رہتے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں اِن کی اور متعلقین کی زندگی روز بروز زیادہ سے زیادہ بے رَس ہوتی جاتی ہے۔ اُنہیں صرف اس بات سے غرض ہوتی ہے کہ زندگی جس طور گزر رہی ہے اُسی طور گزرتی رہے۔ کچھ خاص بننے اور کچھ زیادہ کرنے یا کر دکھانے کی تمنا اُن کے دلوں میں کم ہی انگڑائی لیتی ہے۔ اگر کسی کی باتوں سے اُنہیں تھوڑی سی تحریک مل بھی جائے تو کچھ ہی دیر میں اُس کا مجموعی تاثر زائل ہو جاتا ہے۔ کچھ بننے اور کر دکھانے کی لگن سے محرومی کا معاملہ اگر کسی کی ذات تک محدود رہے تو کوئی بات نہیں۔ مشکل یہ ہے کہ جو زندگی کا معیار بلند کرنے کی لگن سے محروم ہوں وہ دوسروں کو بھی ایسا ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اُن کی سوچ میں دم نہیں ہوتا اور یہی چیز اُن کی باتوں میں بھی در آتی ہے۔ اُن سے کچھ دیر بات کیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کے پاس کسی کو دینے کے لیے تو خیر کیا ہوگا‘ اپنے لیے بھی کچھ نہیں۔
جو لوگ اپنی زندگی کا معیار بلند کرنا چاہتے ہیں اُن کے لیے ایسے لوگوں سے بچنا لازم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کچھ بننے اور کر دکھانے کی لگن اُسی وقت پروان چڑھتی ہے جب انسان اپنی سوچ کو بدلتے ہوئے ہم خیال لوگوں کے ساتھ وقت گزارنے کو ترجیح دے۔ جو اپنے آپ کو بدلنے کے لیے بالکل تیار نہ ہوں اُن کے پاس کسی کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ جب خود اُن میں آگ نہیں پائی جاتی تو کسی اور میں کچھ بننے اور کچھ کرنے کی آگ کیونکر بھڑکا سکتے ہیں؟ ایسے لوگوں کی باتوں میں مایوسی کا گراف خاصا بلند ہوتا ہے۔ بیشتر معاملات میں اُن کا رویہ خاصا شکست خوردہ ہوتا ہے۔ وہ بہت تیزی سے حالات کی سختیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ بے جان دیواروں کی طرح زندگی بسر کرنے والوں سے زیادہ بتیانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ وہ اپنی ڈگر سے ہٹنے کو تیار نہیں ہوتے اور دوسروں کی بھی حوصلہ شکنی کرتے رہتے ہیں۔ اگر یہ سب کچھ وہ دانستہ طور پر نہ بھی کریں تو اُن کی گفتگو اور طرزِ عمل سے فریقِ ثانی کے لیے الجھنیں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔
آپ معاشرے میں ہر طرح کے لوگ دیکھتے ہیں۔ کسی میں کچھ بننے کی لگن بہت توانا ہوتی ہے۔ کوئی ذرا کم لگن کا حامل ہوتا ہے اور کسی میں یہ لگن بالکل ہی نہیں پائی جاتی۔ آپ کو اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ آپ کے حلقۂ احباب میں ایسے لوگ نہ ہوں جن کے لیے زندگی کوئی مفہوم نہ رکھتی ہو۔ جو حالات کے آگے سپر ڈال چکے ہوں وہ آپ کے لیے نہیں بلکہ کسی کے لیے بھی کچھ نہیں کرسکتے۔ اُن سے محض واجبی سا تعلق اُستوار رکھا جاسکتا ہے۔ دیواروں سے بچئے اور اُن سے ربط رکھیے جو دیواریں گراکر آگے بڑھنے پر یقین رکھتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں