بے ذہنی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی روش انسان کو کب کس گڑھے میں گرادے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ جب سے سوشل میڈیا کا چلن عام ہوا ہے، دنیا بھر میں معاشرے الجھے ہوئے ہیں۔ ویسے تو سبھی کے معاملات الجھے ہوئے ہیں؛ تاہم سب سے بڑا مسئلہ نئی نسل کا ہے جو سارے معاملات ایک طرف رکھ کر اب سوشل میڈیا میں یوں الجھی ہوئی ہے کہ راہِ راست پر آنے کے امکانات معدوم سے معدوم تر ہوتے جارہے ہیں۔ سوشل میڈیا کا 'کریز‘ ہر معاشرے میں ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں اس کریز کی نوعیت تھوڑی مختلف ہے۔ جہاں سماجی اور معاشی بنیادیں مضبوط ہیں اُن معاشروں میں سوشل میڈیا کو چند حدود میں رکھا گیا ہے۔ اِن معاشروں کے افراد بڑے اچھی طرح جانتے ہیں کہ سوشل میڈیا کو بے لگام چھوڑنے کی صورت میں بہت کچھ داؤ پر لگ سکتا ہے۔ کئی معاشروں کا بُرا حال اُن کے سامنے ہے۔ وہ بہت اچھی طرح اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اگر سوشل میڈیا کے سیلاب کے آگے بند نہ باندھا گیا تو کچھ نہیں بچے گا۔ یہ سیلاب سبھی کچھ بہا کر لے جائے گا۔
ترقی پذیر معاشروں کا حال بہت برا ہے۔ اِن معاشروں میں حکومتیں سوشل میڈیا کے حوالے سے یکسر بے نیاز ہیں۔ اُنہیں اس بات سے بظاہر کچھ غرض نہیں کہ کون کیا کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا کی پوسٹوں کے ذریعے اچھا خاصا بگاڑ پیدا ہوچکا ہے اور اِس بگاڑ کا دائرہ وسعت اختیار کرتا جارہا ہے۔ پاکستان بھی اُن معاشروں میں شامل ہے جو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ہاتھوں انتہائی نوعیت کی صورتِ حال سے دوچار ہیں۔ ملک بھر میں کروڑوں افراد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اَپ لوڈ کی جانے والی آڈیو، وڈیو فائلز اور ٹیکسٹ پوسٹوں سے محظوظ ہونے کے عادی، بلکہ دھتّی ہیں۔ سوشل میڈیا کے طلسم کدے میں قید ہو جانے والوں میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ بچے بھی اِس لَت کا شکار ہوچکے ہیں۔ بچپن کی معصومیت اب رخصت ہوچکی ہے۔ گیمنگ زون میں وقت گزارنے والے بچے وقت سے پہلے بڑے ہو جاتے ہیں۔ اُن کے ذہن بلا جواز طور پر وسعت اختیار کرتے ہیں یعنی جو کچھ انہیں بہت بعد میں معلوم ہونا چاہیے تھا وہ ایسے وقت معلوم ہو جاتا ہے جب وہ زندگی کا حقیقی لطف پارہے ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ کا طوفان برپا ہوئے کم و بیش ڈھائی عشرے ہوچکے ہیں۔ اب یہ طوفان عالمِ شباب میں ہے۔ انٹرنیٹ سے بہت کچھ جڑ چکا ہے۔ کاروبار اِس کے بغیر ادھورا رہتا ہے۔ تعلیم کے شعبے میں بھی انٹرنیٹ غیر معمولی معاونت فراہم کر رہا ہے۔ دوسری طرف سماجی معاملات میں بھی انٹرنیٹ نے ایک رونق میلہ لگا رکھا ہے۔ اب ہر وہ شخص سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر جانے اور دنیا بھر کی پوسٹیں دیکھنے کا عادی ہے جس کے پاس جدید بناوٹ کا سمارٹ فون ہے۔ سمارٹ فون کے بغیر سوشل میڈیا سے کماحقہٗ مستفید نہیں ہوا جاسکتا۔ دنیا بھر میں سمارٹ فونز کی فروخت نقطۂ عروج پر ہے۔ بہت معمولی تنخواہ پانے والا شخص بھی کسی نہ کسی طور سمارٹ فون خرید ہی لیتا ہے تاکہ پیچھے نہ رہ جائے۔
آج کا پاکستان سمارٹ فون کی مدد سے سوشل میڈیا کی دنیا میں کھوئی ہوئی نئی نسل کا پاکستان ہے۔ جن بچوں کو کل ملک چلانا ہے وہ سوشل میڈیا کے بغیر دو قدم بھی نہیں چل سکتے۔ تعلیم بھی ایک طرف رہ گئی ہے اور تربیت بھی۔ مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کا تصور دُھندلا گیا ہے۔ نوجوانوں کو بہت کچھ سوچنا ہوتا ہے۔ اُنہی کو گھرانے کی کفالت کے لیے بھی تیار ہونا ہوتا ہے۔ اِس کے لیے سنجیدگی ناگزیر ہے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ نئی نسل کو سوشل میڈیا کے ذریعے تفریحِ طبع ہی سے فرصت نہیں۔ اس بات کا بھی کچھ خاص احساس نہیں کہ دنیا کس طرف جارہی ہے، کیا کر رہی ہے، کیا بننا چاہتی ہے، کون سے معیارات کو چھو رہی ہے اور مزید کیا حاصل کرنا چاہتی ہے۔ دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے پر متوجہ ہونے کے بجائے ہماری آج کی نئی نسل صرف اور صرف دل پشوری کا سامان کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ کیا زندگی دل پشوری کے لیے عطا کی گئی ہے؟ ہم نے یہ کیوں سمجھ لیا اور طے کرلیا ہے کہ زندگی ہر وقت دھوم دھڑکا برپا کرتے رہنے کا نام ہے؟ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ زندگی کی بنیادیں مستحکم کرنے کے لیے سنجیدگی ناگزیر ہے۔ پھر بھی ہم زندگی بھر سنجیدگی سے کنارہ کش رہنے پر بضد رہتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ کہاں‘ کون سی کمی رہ گئی ہے جو ہماری زندگی کے بخیے اُدھیڑ رہی ہے؟ ہم سنجیدہ ہونے کا نام بھی کیوں نہیں لے رہے؟ کیا ہمیں اس بات کا احساس نہیں کہ جو طرزِ زندگی ہم نے اپنائی ہے وہ صرف خرابیوں کی طرف لے جایا کرتی ہے؟ جانتے سبھی ہیں مگر پھر بھی انجان سے رہتے ہیں۔ سوال عزم اور محنت کا ہے۔ پہلے تو یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ معاملات درست کرنے ہیں۔ اِس کے بعد محنت کا مرحلہ آتا ہے۔ لوگ اس مرحلے سے بھاگتے ہیں۔ کوئی بھی معاملات کی درستی کے لیے مطلوب محنت یقینی بنانے کے لیے تیار نہیں۔ ایسے میں اصلاحِ احوال ہو تو کیسے ہو؟
ٹیکنالوجی ہماری سہولت کے لیے ہوتی ہے نہ کہ ہماری زندگی کو الجھانے کے لیے۔ زندگی اُسی وقت الجھتی ہے جب کسی بھی چیز کو ضرورت سے زیادہ بروئے کار لایا جائے۔ جب کسی چیز کی کمی واقع ہوتی ہے تبھی خرابی پیدا ہوتی ہے اور جب اُس چیز کے حوالے سے افراط کا معاملہ ہوتا ہے تب بھی صرف خرابی بچتی ہے جو پنپتی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی معاملات اِس لیے خراب ہوئے ہیں کہ ہم نے کام کی چیزوں کو اس قدر استعمال کیا کہ وہ گِھس گئیں اور ہمیں سہولت تو کیا ملتی‘ اُلٹا الجھنیں ملیں۔ جس ٹیکنالوجی سے زندگی کو آسان بنایا جانا تھا اسے ہم نے یوں بروئے کار لانے پر توجہ دی کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاملات بگڑتے ہی چلے گئے۔ ترقی یافتہ معاشروں نے جس ٹیکنالوجی کی مدد سے اصلاحِ احوال یقینی بنائی، نئی نسل کو مضبوط کیا ہم نے اُسی ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنی نئی نسل کو تباہ کرلیا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ع
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں!
سوشل میڈیا کا ہَوکا دنیا بھر میں ہے۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ ہر معاملے کو اِس چوکھٹ پر قربان کیا جارہا ہے۔ ہر عہد میں وقت سب سے بڑی دولت قرار دیاجاتا رہا ہے۔ آج معاملہ یہ ہے کہ وقت کے معاملے میں انسان کو شدید نوعیت کی حساسیت کا مظاہرہ کرنا ہے۔ اب وقت ہی سب کچھ ہے۔ اب کسی بھی انسان کے لیے اس بات کی گنجائش نہیں رہی کہ وقت ضائع کرے اور کامیاب ہو پائے۔ سوشل میڈیا پورٹلز میں گم رہنے کی عادت انسان سے اس کا وقت چھین رہی ہے۔ وقت ہی سب کچھ ہے اور اگر وقت ہی چھن جائے تو پھر رہا کیا؟ اور یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ وقت کو اپنے ہی ہاتھوں سے لُٹایا جارہا ہے۔ اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کی اِس سے زیادہ واضح مثال کیا ہوگی؟
اصلاحِ احوال کے لیے لازم ہے کہ سوشل میڈیا پورٹلز کی ذہنی غلامی ترک کرکے وقت کو احسن طریقے سے بروئے کار لانے پر توجہ دی جائے۔ آج ہماری زندگی میں ایسا بہت کچھ ہے جو صرف وقت ضائع کر رہا ہے۔ انٹرنیٹ ہماری ایک بنیادی ضرورت ہے مگر انٹرنیٹ پر دستیاب سبھی کچھ ہمارے کام کا نہیں۔ انٹرنیٹ سے اُتنا ہی مستفید ہونا چاہیے جتنا ہمارے لیے ناگزیر ہو۔ انٹرنیٹ پر پیش کیے جانے والے تمام آئٹمز کی غلامی ہمیں محدود کرکے دم لیتی ہے۔ سوشل میڈیا کا عادی ہو جانا محض پریشانی کا معاملہ نہیں بلکہ یہ تو اب معاشی اور معاشرتی اعتبار سے زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ سوشل میڈیا پورٹلز کی عادت خطرناک شکل اختیار کرلے تو انسان کا پورا وجود ہی داؤ پر لگ جاتا ہے۔ انتہائی قیمتی وقت کا ایک معقول حصہ دنیا بھر کی خرافات دیکھنے ہی پر ضائع ہو رہا ہے۔ یہ روش کسی بھی اعتبار سے معقول و مفید نہیں۔ اس حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ لکھنے والوں پر لازم ہے کہ قوم کی تربیت کریں، بالخصوص نوجوانوں کو بتائیں کہ انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا اور دیگر بہت سی ویب سائٹس کو غیر ضروری طور پر زیادہ وقت دے کر اپنے ہی لیے گڑھا کھودا جارہا ہے۔ قوم کی راہ نمائی کی جائے تاکہ وقت کا ضیاع روک کر کام کے معاملات پر توجہ دی جاسکے۔