"MIK" (space) message & send to 7575

اب ایسا کیا ہوگیا ہے؟

وقت کو ہم ظالم و بے رحم سمجھتے ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ وقت سفاک ہے کیونکہ اِسے کسی پر ترس نہیں آتا۔ اِس کا کام ہے گزرتے جانا اور دنیا کو بدلتے جانا۔ گویا ؎
دریا کو اپنی موجوں کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
وقت ہمیں سفاک دکھائی دیتا ہے تو کچھ زیادہ حیرت کی بات نہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ وقت غیر جانبدار حقیقت ہے۔ یہ کسی کا دوست ہے نہ دشمن۔ یہ کسی کو نوازتا ہے نہ کسی کو محروم کرتا ہے۔ وقت اپنے آپ میں کچھ بھی نہیں۔ یہ خالص پانی جیسا ہے۔ پانی کا کوئی رنگ ہوتا ہے نہ بُو، اور ذائقہ بھی نہیں ہوتا۔ پانی وہی ہوتا ہے جو ہم دیکھنا یا سمجھنا چاہتے ہیں۔ وقت کبھی ہمیں اپنے حق میں اور کبھی خلاف دکھائی دیتا ہے تو ایسا ہماری ذہنی حالت کے سبب ہوتا ہے۔ماحول ہمیں ویسا ہی دکھائی دیتا ہے جیسا ہم دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک ہی بات کسی کو کچھ لگتی ہے اور کسی کو کچھ۔ سبب اِس کا یہ ہے کہ ہم سب اپنی اپنی خواہشات اور توقعات کے دائرے میں رہتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں۔ جو کچھ ہمارے دل و دماغ میں ہوتا ہے ہم وہی کچھ اپنے ماحول میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ جو کچھ ہماری خواہشات اور توقعات کے مطابق نہ ہو وہ ہمیں اچھا نہیں لگتا۔ حالات ہمارے تابع نہیں ہوتے۔ ہم چاہیں تو حالات کے تابع ہونے سے ایک خاص حد تک بچ سکتے ہیں۔ لوگ حالات کا رونا تو روتے رہتے ہیں مگر اُس کے ہاتھوں پیدا ہونے والے منفی اثرات سے بچنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دیتے۔ ہم خود ہی حالات کو منطقی حدود سے گزرنے دیتے ہیں اور جب پانی سر سے اونچا ہونے لگتا ہے تب ہوش آتا ہے اور ہم اصلاحِ احوال پر مائل ہوتے ہیں۔
ذرا اُس وقت کو یاد کیجیے جب ملک قائم ہوا تھا۔ اپنے قیام کے وقت یہ خطہ شدید نامساعد حالات سے دوچار تھا۔ انگریزوں نے رخصت ہوتے وقت ہم سے انصاف نہ کیا۔ پاکستان میں شامل ہونے والے علاقوں کو وسائل میں اُن کا جائز حصہ نہیں دیا گیا۔ حد یہ ہے کہ پاکستان کو اُس کے حصے کے 55 کروڑ روپے دلوانے کے لیے موہن داس گاندھی کو تا دمِ مرگ بھوک ہڑتال کرنا پڑی۔ ایسے میں پاکستان کو کس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑا ہوگا اِس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔ جب ملک بنا تھا تب کچھ بھی ٹھکانے پر نہیں تھا۔ پاکستانی علاقوں سے لاکھوںافراد نقلِ مکانی کرکے بھارت گئے اور اِسی طور بھارت سے لاکھوں افراد ہجرت کرکے یہاں آئے اور معاشی الجھنوں سے دوچار ہوئے۔ ابتدائی دو تین برس شدید انتشار کی حالت میں گزرے۔ ریاستی ادارے کام کیا کرتے، ڈھنگ سے قائم بھی نہیں ہوئے تھے۔ عام کاروباری ادارے بھی شدید انتشار کی حالت میں تھے۔ ملازمت آسانی سے نہیں ملتی تھی۔ لوگ گھر کا چولہا جلتا رکھنے کے لیے کوئی بھی کام کرنے پر راضی ہو جاتے تھے۔ مزاج میں جرم پسندی نہیں تھی۔ پڑھے لکھے افراد مزدوری کرنے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے تھے۔ شدید نوعیت کی معاشی مشکلات کے باوجود لوگ کسی نہ کسی طور گزارہ کر لیتے تھے۔ بدحواسی کو پورے وجود پر طاری نہیں کیا جاتا تھا۔ ناجائز ذرائع سے کچھ حاصل کرنے کے بارے میں سوچنے والے خال خال تھے۔ اگر کوئی کرپشن کرتا بھی تھا تو ایک خاص حد تک۔ جب معاشرہ خاصی منتشر حالت میں تھا اور کوئی بھی معاملہ درست نہ تھا تب بھی لوگ مایوس ہوکر بیٹھ نہیں گئے بلکہ وقت کو بارآور طریقے سے گزارا۔ لوگ خاصے محدود امکانات کے باوجود کچھ نہ کچھ کر ہی لیتے تھے، کسی نہ کسی حد تک کامیابی اپنے کھاتے میں لکھوا ہی لیتے تھے۔ اہلِ علم و فن کے لیے یہ وقت سوہانِ روح تھا۔ ہمارے ہاں لکھنے والوں کو آج بھی کچھ خاص نہیں ملتا۔ جب معاشرہ منتشر تھا تب کیا عالم ہوگا اِس کا اندازہ اب کوئی بھی نہیں لگا سکتا۔ سعادت حسن منٹو جیسے مصنف کو انتہائی معمولی معاوضے پر کہانیاں لکھنا پڑیں۔ یہی حال دوسرے بہت سے لکھنے والوں کا بھی تھا۔ اس کے باوجود اُس دور میں لکھنے والوں نے لکھنے کا حق ادا کرنے کی پوری کوشش کی۔
جب بدحواس ہونے کا جواز تھا تب لوگ مکمل بدحواس نہ ہوئے اور ڈھنگ سے جینے کی کوشش کرتے رہے۔ پھر اب ایسا کیا ہوگیا ہے کہ بات بات پر بدحواسی کو پورے وجود پر طاری کرلیا جاتا ہے؟ اب ایسا کیوں ہے کہ لوگ مایوس ہونے کا موقع یا بہانہ ڈھونڈتے رہتے ہیں؟ ذہن کو بروئے کار لانا تو بہت دور کا معاملہ‘ ایسا کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جارہا۔ منصوبہ سازی کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ یومیہ معاملات میں ترتیب نہ ہو تو بات کسی حد تک سمجھ میں آتی ہے۔ یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ کیریئر اور پوری زندگی کے معاملے میں بھی لوگ شدید انتشارِ خیال سے دوچار ہیں۔
آج ہم معاشرے میں ہر طرف عدمِ ترتیب دیکھ رہے ہیں۔ بے ذہنی ہے کہ بڑھتی ہی جارہی ہے۔ مایوسی دام بچھائے بیٹھی ہے۔ آپ ذرا سے ڈھیلے پڑے اور پھنسے۔ معاملات کی نوعیت ایسی ہے کہ قدم قدم پر صرف مایوسی ہی نظر آتی ہے۔ گو کہ معاشرہ مکمل نراجیت سے ابھی بہت دور ہے اور آج بھی بہت سے ادارے بہتر حالت میں ہیں۔ بعض اُمور میں البتہ کرپشن اور نا اہلی کے باعث خرابیاں نظر آ رہی ہیں۔ اِن خرابیوں کو دور کرنے کی سعی کی جاسکتی ہے۔ بدخواہوں نے بہت کوشش کی کہ پاکستان پر ناکام ریاست ہونے کا ٹھپہ لگادیا جائے۔ افریقہ اور جنوبی امریکہ کی ناکام ریاستوں پر نظر دوڑائیے تو دل کو قدرے سُکون ملتا ہے کہ ہم ابھی تک شدید انتشار یا مکمل نراجیت کی منزل سے بہت دور ہیں۔ ہم اب بھی بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ خرابیاں اپنی جگہ اور امکانات اپنی جگہ۔ پھر یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ جن میں خرابیاں پائی جاتی ہیں وہ کوئی الگ تھلگ طبقہ نہیں۔ خرابیاں جن لوگوں میں پائی جاتی ہیں وہ ہم میں بھی ہیں اور ہم خود بھی خرابیوں سے پاک نہیں۔ اب کرپشن کا الزام کسی ایک طبقے پر عائد نہیں کیا جاسکتا۔ سب مل کر معاشرے کو مزید خرابیوں کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ ایسے میں کون کسے الزام دے؟ اِس حقیقت سے تو سبھی واقف ہیں کہ خرابیاں ہیں اور دم بہ دم ہیں۔ سوال خرابیوں کے بارے میں سوچنے کا نہیں بلکہ امکانات تلاش کرنے کا ہے۔ جب ملک قائم ہوا تھا تب شدید انتشار کی حالت میں بھی لوگ خطرناک حد تک بدحواس نہ ہوئے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ سب کچھ عارضی ہے۔ دِلوں میں مایوسی نہ تھی۔ ذہن ماؤف نہ ہوئے تھے۔ ہزار خرابیوں کے باوجود یقین تھا کہ تھوڑی توجہ سے کی جانے والی محنت بہت کچھ بدل سکتی ہے، مشکلات کو امکانات بنایا جاسکتا ہے۔ اور ایسا ہی ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے بُرے حالات پچھاڑتے ہوئے قوم اٹھ کھڑی ہوئی اور چند ہی برس میں ایسی کامیابیاں حاصل کیں کہ دنیا حیران رہ گئی۔
کیا اب ایسا نہیں ہوسکتا؟ تب مایوس ہونے کا جواز بھی تھا کہ کچھ بھی ٹھکانے پر نہ تھا۔ اُن نامساعد حالات میں قوم مایوس نہ ہوئی تو پھر آج ہمت ہار بیٹھنے کا کیا جواز ہے؟ کسی بھی قوم کو ناکامی سے دوچار کرنے والے عوامل میں مایوسی سرِفہرست ہے۔ اگر قوم پر مایوسی طاری ہو جائے تو امکانات سے کماحقہٗ استفادہ نہیں کیا جاسکتا۔ حالات بدلتے رہتے ہیں۔ حالات ہمارے لیے کبھی موافق ہوتے ہیں اور کبھی ناموافق۔ ہمیں ہر طرح کے حالات کے لیے خود کو تیار رکھنا چاہیے تاکہ امکانات سامنے آنے پر اُن سے استفادہ کیا جاسکے اور مشکلات ابھرنے پر اُن سے نمٹنے میں زیادہ الجھن پیش نہ آئے۔ آج ہمیں بھرپور جوش اور ولولے کی ضرورت ہے۔ یہ خود بخود تو پیدا نہیں ہوں گے، پیدا کرنا پڑیں گے۔ مایوسی کو شکست دے کر ہم توانا اُمید کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت پر یقینِ کامل ہی ہم میں اُمید پیدا کرسکتا ہے۔ مشکلات کو سامنے پاکر اُن سے گھبرانے اور مایوس ہو رہنے کے بجائے ہمیں پُرامید رہتے ہوئے چلنا ہے۔ ڈھنگ سے جینے کی یہی معقول ترین صورت ہے۔ ہم انوکھے نہیں! آج ہمیں جو مشکلات دکھائی دے رہی ہیں وہ ہر معاشرے کے لیے ہیں اور اِن سے نمٹنا بھی سبھی کا معاملہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں