وطنِ عزیز جس طرح کے حالات سے دوچار ہے وہ دل و دماغ پر قیامت ڈھانے والے ہیں۔ الجھنیں بڑھتی جارہی ہیں۔ مسائل کی دلدل میں ہم یوں دھنستے جارہے ہیں کہ اُمید کا دامن ہاتھ سے چھوٹتا جاتا ہے۔ ماحول پر شدید بے ذہنی اور بے دِلی طاری ہے۔ لوگوں نے حالات کی خرابی کو مقدر سمجھ کر قبول کرلیا ہے۔ کسی بھی صورتِ حال سے کماحقہٗ نمٹنے کی خاطر جو کچھ کیا جانا چاہیے وہ نہیں کیا جارہا۔ سچ تو یہ ہے کہ کسی بھی مشکل سے نمٹنے اور کسی بھی پریشان کن صورتِ حال کے تدارک کے حوالے سے کچھ کرنے کا سوچا بھی نہیں جارہا۔
کورونا کے ڈیڑھ برس کے دوران ملک کی حالت عجیب رہی۔ مسائل نے شدت اختیار کی مگر پھر بھی یہ سوچ کر دل کو تھوڑا سا سکون ملتا رہا کہ ہم اس معاملے میں انوکھے نہیں تھے۔ کورونا کی وبا نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ یہ وبا معیشتوں اور معاشرتوں کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوئی۔ اس کے سبب دنیا کچھ کی کچھ ہوگئی۔ شدید بدحواسی نے سب کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ اچانک بہت کچھ بدل گیا۔ اس وقت اس سازشی تھیوری کو ماننے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ کورونا کی وبا محض وبا نہ تھی بلکہ بڑی طاقتوں کے کھیل کا حصہ تھی۔ کئی معاشروں کا تیا پانچا ہو گیا۔ متعدد معیشتیں انتہائی خرابیوں سے دوچار ہوئیں اور لاکھ کوشش کے باوجود بہتری کی کوئی واضح اور کارگر صورت اب تک نمودار نہیں ہوسکی۔
پاکستانی معاشرے اور معیشت کو بھی کورونا کی وبا نے شدید نقصان پہنچایا۔ ہمارے ہاں لوگ بدحواس بھی ہوئے اور بیزاری کا شکار بھی۔ کورونا کی وبا کے دوران عمومی معاشرتی رویے بہت عجیب رہے۔ دنیا بھر میں کورونا کی وبا سے بچنے کے ہر ممکن طریقے سوچے گئے، ہمارے ہاں اس وبا کو بھی مال بنانے کا ذریعہ بنالیا گیا! حکومت نے غریب گھرانوں کی کچھ مدد کی مگر اس مدد کی آڑ میں جی بھرکے کرپشن کی گئی۔ ہر سطح کی حکومت پر الزام عائد کیا گیا کہ اُس نے کورونا سے نمٹنے کے لیے دی جانے والی امداد کے نام پر اپنوں کو نوازا ہے۔ یہ الزام مکمل طور پر بے بنیاد بھی نہیں۔ حکومتی سطح پر جو امدادی پروگرام شروع کیے گئے اُن کے حوالے سے شکوک و شبہات ابھی تک ختم نہیں ہوئے۔ شفافیت اِتنی کم تھی کہ شکوک و شبہات کا ابھرنا فطری امر ہے۔ بہر کیف‘ کورونا نے ہمارے لیے مسائل پیدا کیے اور ہم اب تک نتائج یا اثرات بھگت رہے ہیں۔ ایک قوم کی حیثیت سے پاکستانیوں کو اِن اثرات سے نمٹنے کے لیے جو کچھ کرنا چاہیے تھا وہ اب تک نہیں کیا گیا۔ کورونا سے پہلے بھی ہمارے لیے حالات بہت اچھے نہ تھے۔ کورونا کی وبا نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ دنیا بھر کی معیشتوں کو مسائل کا سامنا رہا ہے۔ کورونا کی وبا نے مسائل کی تعداد اور شدت میں اضافہ کیا ہے۔ اس وبا کے ختم ہو جانے پر بھی دنیا بھر کا معاشی نظام دبائو میں ہے۔ ہمارے ہاں بھی یہی معاملہ ہے۔ ہم نے بھی تو اصلاحِ احوال کے لیے کچھ خاص نہیں کیا۔ پھر بھلا ہماری مشکلات کیونکر کم ہوسکتی تھیں؟
ایک طرف کورونا کی وبا کے ہاتھوں پیدا ہونے والی مشکلات ستم ڈھا رہی ہیں اور دوسری طرف سیاسی بے یقینی اور انتشار کی کیفیت رہی سہی کسر پوری کر رہی ہے۔ رواں سال کے ابتدائی مہینوں میں اپوزیشن جماعتوں نے مل کر پی ٹی آئی کی سربراہی میں قائم حکومت کو چلتا کیا تو معاملات کی خرابی بڑھ گئی۔ معیشت کے لیے مشکلات یوں بڑھیں کہ سیاسی بے چینی اور عدم استحکام کے باعث عالمی مالیاتی اداروں نے ہم پر بھروسا کرنا چھوڑ دیا۔ ملک کے لیے نئے قرضوں کا حصول انتہائی دشوار ہوگیا۔ معیشت کو بحال کرنے کے حوالے سے الجھنیں بڑھ گئیں۔ سیاسی عدم استحکام نے عالمی مالیاتی اداروں کو اپنی پالیسی بدلنے پر مجبور کردیا۔ نئی حکمتِ عملی یہ طے پائی کہ پاکستان کو مزید قرضے نہ دیے جائیں۔ معاشی بحالی کے لیے نئے قرضے اور تجدید شدہ امدادی پیکیجز کی ضرورت تھی۔ جب ضرورت کے مطابق قرضے مل سکے نہ امداد‘ تب معاملات کی خرابی یوں بڑھی کہ سنبھلنا مشکل ہو گیا۔ سیاسی معاملات نصف برس بعد بھی سنبھل نہیں پائے ہیں۔ ایسا ہو بھی کیسے سکتا ہے؟ بظاہر کسی کو بھی ملک و قوم کی فکر لاحق نہیں۔ اہلِ سیاست اپنے کام سے لگے ہوئے ہیں۔ احتجاج کی سیاست تھکنے کا نام بھی نہیں لے رہی۔ جن کی حکومت گئی ہے وہ سُکون سے بیٹھنے کو تیار نہیں۔ ہمارے ہاں سیاست کے نام پر جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ ڈھکا چھپا نہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت جس طریق سے گئی وہ کسی بھی اعتبار سے انوکھا نہ تھا۔ چند ووٹوں کی بنیاد پر قائم ہونے والی حکومت کا یہی انجام ہونا تھا۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ہمارے معاملات کی نوعیت بدلتی رہی ہے۔ ہم نے جب بھی آئی ایم ایف کی طرف دیکھا ہے، الجھنوں ہی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہر دور میں اس عالمی ادارے نے امداد کے نام پر ہماری معاشی خرابیوں کو دوچند کرنے ہی پر توجہ دی ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضے کا پیکیج ملنے میں تاخیر کے نتیجے میں پاکستان پر بہت کچھ گزرتی آئی ہے۔ اب کے بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ جب آئی ایم ایف نے ہاتھ کھینچ لیا تو پاکستان کے لیے سنبھلنا مشکل ہوگیا۔ معیشت کا پہیہ اپنی رفتار کھو بیٹھا۔ ہم نے دیکھا کہ جب آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے نظریں پھیر لیتے ہیں تو متعلقین کے لیے ڈھنگ سے جینا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کی کمزور پوزیشن کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اس ادارے پر یہی الزام ہے کہ کسی بھی کمزور ملک سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے ہنر میں خوب ماہر ہے۔
اب آئی ایم ایف نے 2023ء کو کساد بازاری کا سال کہا ہے۔ ایک رپورٹ میں آئی ایم ایف نے پیش گوئی کی ہے کہ بُرے دن ابھی آنے والے ہیں۔ 2023ء میں دنیا بھر میں معیشتیں الجھن کا شکار رہیں گی۔ امریکہ، چین اور یورپ کے لیے بھی مشکلات کم نہیں ہوں گی۔ روس اور یوکرین کی جنگ کے باعث یورپ کے لیے آنے والا موسمِ سرما گیس کے حوالے سے انتہائی پریشان کن ثابت ہوگا۔ آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں پاکستان کے لیے بھی آئندہ سال کو انتہائی مشکل قرار دیا ہے۔ مہنگائی کی شرح بلند ہوکر 20 فیصد تک رہے گی۔ بے روزگاری کی شرح 6.4 فیصد تک جبکہ معاشی شرحِ نمو 3.5 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ کم ہوکر 2.5 فیصد کے آس پاس رہے گا۔
آئی ایم ایف نے پوری دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ جو معیشتیں پہلے ہی بہت کمزور تھیں اُن کی مشکلات کورونا کی وبا نے بڑھادی تھیں۔ اب اُن کے لیے سنبھلنا مزید دشوار ہوچکا ہے۔ حقیقی معاشی راحت و سُکون کا صرف خواب دیکھا جاسکتا ہے۔ اورکون جانتا ہے کہ کل کو یہ خواب دیکھنے کی گنجائش بھی نہ رہے! اِدھر ہم نے طے کر رکھا ہے کہ بگاڑ کے دائرے کو وسعت ہی دیتے رہنا ہے۔ دنیا بھر میں معیشتیں منصوبہ سازی کر رہی ہیں کہ دو ڈھائی سال کے دوران جو پریشانیاں جھیلی ہیں اُن کے شدید منفی اثرات سے کس طور بچا جائے۔ پیش آئندہ کساد بازاری سے کس طور نمٹا جائے مگر یہاں معاملہ یہ ہے کہ جو کچھ رہ گیا ہے اُسے بھی ٹھکانے لگانے کی فکر لاحق ہے۔ حالات کو کسی نہ کسی طور موافق بنانے کی اپنی سی کوشش ضرور کی جانی چاہیے۔ ایسی کوشش ہر انسان کے لیے لازم کا درجہ رکھتی ہے۔ ہم بھی کوئی انوکھے نہیں کہ مشکلات ہماری سنجیدہ کوششوں کے بغیر ختم ہو جائیں۔ کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہوگا۔ معاشی خرابی نے پورے معاشرے کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ افلاس، بے روزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں عام آدمی کا بُرا حال ہے۔ ایسے میں اصلاحِ احوال کے حوالے سے سنجیدہ ہونا لازم ہوچکا ہے مگر افسوس کہ اب تک ہوش کے ناخن نہیں لیے گئے۔ ایک طرف حکومتی مشینری سنجیدہ ہونے کو تیار نہیں اور دوسری طرف عام آدمی بھی اپنے حصے کا کام کرنے میں خاطر خواہ دلچسپی نہیں لے رہا۔ ایسی حالت میں بہتری کی امید کیونکر رکھی جائے؟ معاملات کو درست کرنے کی جتنی کوشش ہمیں کرنی چاہیے وہ تو کرنی ہی چاہیے۔ سیاسی اور معاشی استحکام محض بیانات، وعدوں اور دعووں کا معاملہ نہیں۔ اِس سے کہیں آگے جاکر عملی سطح پر بہت کچھ کرنا پڑتا ہے اور ہمیں وہ بہر حال کرنا ہی ہے۔