"MIK" (space) message & send to 7575

کبھی ہم خوب صورت تھے

ملک کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اور سامنے کیا ہے، سب بھگت بھی رہے ہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کس کس بات کو روئیے۔ کوئی ایک دُکھڑا ہو تو انسان رو دھوکر چپ ہو لے، دل کو قرار آجائے۔ یہاں تو ایسا لگتا ہے خرابیوں نے ہمارا پتا ڈھونڈ نکالا ہے۔ ایک بحران ٹلتا نہیں کہ دوسرا آ جاتا ہے۔ قوم کی حیرانی جاتی ہے نہ پریشانی۔ بہت کچھ کھوچکا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ؎
کب تک رگوں میں اپنی اذیت سموئیے
کس کس کو یاد کیجیے، کس کس کو روئیے
سیاست ٹھکانے پر ہے نہ معیشت۔ اور معاشرت کا تو پوچھا ہی نہ جائے تو اچھا۔ کبھی سیاست بالا دست ہوتی ہے اور کبھی معیشت۔ کبھی کبھی معاشرت کا بھی داؤ چل ہی جاتا ہے۔ ویسے تینوں میں مظلوم ترین شعبہ معاشرت ہے کیونکہ ہر معاملے کا اصل خمیازہ گھوم پھر کر اُسی کو جھیلنا پڑتا ہے۔ پاکستانی معاشرت اِتنی الجھ گئی ہے کہ اب تو یقین بھی نہیں آتا کہ کبھی سب کچھ درست بھی تھا۔ جی ہاں! یہ صدیوں پہلے کا معاملہ نہیں‘ محض تین چار عشرے پہلے کی بات ہے کہ ہمارا معاشرہ توانا بھی تھا اور بیدار مغز بھی۔ لوگ اقدار کے حوالے سے حسّاس تھے۔ زندگی کی ناقدری نہ تھی۔ ڈھنگ سے جینے کو اہمیت دی جاتی تھی۔ خرابیاں تھیں مگر ایسی نہ تھیں کہ سبھی کچھ ہاتھ سے جاتا ہوا محسوس ہو۔ لوگ بُرے کاموں کی طرف بھی بالعموم اُس وقت مائل ہوتے تھے جب انتہائی نوعیت مجبوری واقع ہوتی تھی یا پھر دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ جاتے تھے۔ جب معاشرت قدرے درست حالت میں تھی تب معاشی الجھنیں بھی برائے نام تھیں۔ معاشی الجھنیں اُسی وقت بڑھتی ہیں جب معاشرت داؤ پر لگی ہو۔ لوگ جب زندگی بسر کرنے کا کوئی واضح طریق طے نہیں کرتے تب معاملات خرابیوں کی طرف بڑھتے ہیں۔ جب معاشرہ درست تھا تب سیاست بھی قابو میں تھی اور معیشت بھی بے لگام نہیں ہوئی تھی۔ معاشرتی اعتبار سے مستحکم زندگی بسر کرنے والوں کی عادات و اطوار میں سادگی نمایاں تھی۔ زندگی سادہ ہو تو انسان لالچی بھی نہیں ہوتا اور دوسروں کے حق پر ڈاکا ڈالنے کو بھی بُرا سمجھتا ہے۔
جب ہم نے معاشرت کے معاملے میں خود کو بے لگام چھوڑا تب سے زندگی دشوار سے دشوار تر ہوتی چلی گئی۔ یہ کہنا ہی نہیں‘ سوچنا بھی غلط ہوگا کہ ہمارے ہاں صرف سیاست دانوں، بیورو کریٹس یا کاروباری طبقے نے معاشرے کو بگاڑا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاستی مشینری ڈھنگ سے کام کرتی تھی تب بھی کچھ لوگ کسی جواز کے بغیر کرپشن کے ٹریک پر جاگنگ کرتے دکھائی دیتے تھے۔ جس دور میں مہنگائی برائے نام تھی، اشیا کی قیمتیں اور خدمات کے معاوضے برسوں منجمد رہا کرتے تھے تب بھی کچھ لوگ خواہ مخواہ اپنی حلال کی آمدنی میں حرام کی آمیزش کرتے تھے۔ یہ رجحان رفتہ رفتہ قوی ہوتا گیا۔ پھر یوں ہوا کہ اہلِ سیاست بھی غیر معمولی مہم جُوئی اور محاذ آرائی پر تُل گئے۔ ہم نے ملک کے قیام کے ابتدائی تین عشروں کے دوران قدرے ڈھنگ سے زندگی بسر کی تھی۔ زندگی سادہ تھی۔ گھر میں دنیا بھر کی چیزیں بھرنے کا شوق پروان نہ چڑھا تھا۔ یہ درست ہے کہ بازار میں آج کی طرح بہت کچھ دستیاب بھی نہ تھا مگر پھر بھی یہ ماننا پڑے گا کہ لوگ مجموعی طور پر سادہ مزاج رکھتے تھے۔ زر و مال کی اندھی ہوس نہ تھی۔ خدا جو کچھ عطا کرتا‘ اُس پر راضی رہنے کو اہم گردانا جاتا تھا۔ زیادہ کمانے کی خواہش بھی ہوتی تھی اور کوشش بھی کی جاتی تھی مگر یہ معاملہ ہوس کے درجے میں داخل نہ ہوا تھا۔ لوگ اپنے وسائل کی حدود میں جینا پسند کرتے تھے۔ بات بات پر کسی سے مدد کی توقع رکھنے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ جنہیں کچھ بننا ہوتا تھا وہ اپنے اندر قابلیت پیدا کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ محض سفارش کی بنیاد پر کچھ پانا یا کرنا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ یہی سبب ہے کہ پہلے تین عشروں کے دوران ملک کو ہر شعبے میں بے مثال لوگ ملے۔ مقابلہ سخت تھا۔ کوئی اُسی وقت آگے آ پاتا تھا جب اُس میں دم ہوتا تھا۔ لیاقت کے بغیر آگے بڑھنا انتہائی دشوار ہوا کرتا تھا۔
آج یہ بات کوئی ماننے کو تیار نہیں ہوگا کہ کبھی ہمارا معاشرہ بھی ایک حد تک مثال کا درجہ رکھتا تھا۔ دنیا بھر میں تھوڑا بہت شور ضرور برپا ہوا کہ ایک ملک ایسا بھی ہے جو نہیں تھا یعنی قائم ہوا ہے اور سخت نامساعد حالات کے باوجود ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ اِس مرحلے پر احمد شمیم کی وہ نظم یاد آرہی ہے جو نیرہ نور مرحومہ نے خاصے سلیقے سے گائی تھی۔ نظم کا پہلا مصرع ہے ''کبھی ہم خوبصورت تھے‘‘ اور یہ مصرع بہت کچھ بیان کرتا ہے۔ واقعی کبھی ایسا تھا کہ ہم خوبصورت تھے۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ ہم اپنی خوبصورتی کھو بیٹھے؟ یہ بہت طویل اور دُکھ بھری داستان ہے۔ آپ سُنانا شروع کریں گے کہ کوئی کہہ دے گا ''بس کر پگلے، رُلائے گا کیا!‘‘ معاملہ ہے ہی کچھ ایسا! اس کہانی میں موڑ ہی موڑ ہیں۔ قدم قدم پر کہانی کہیں سے کہیں جا پہنچتی ہے۔ کوئی بیان کرے تو کیسے اور کوئی سُنے تو کس طرح؟ ہم نے اپنے ہی کرتوتوں کے باعث اپنی خوبصورتی سے ہاتھ دھوئے ہیں۔ سازشیں بھی ہوئیں اور ہوتی رہیں گی مگر اپنے بُرے حال کی حتمی ذمہ داری قطعی طور پر تو ہمِیں کو قبول کرنا پڑے گی۔ کوئی کتنی ہی کوششیں کر دیکھے اورسازشیں بھی کرلے، اگر ہم نہ بگڑنا چاہیں تو کون ہمیں بگاڑ سکتا ہے؟ قومی زوال کی بات جب بھی ہوگی، سُوئی گھوم پھر کر ہمِیں پر اٹکے گی اور اٹکنی بھی چاہیے۔
پاکستان وہ معاشرہ تھا جس میں شائستگی بھی تھی اور شعور بھی۔ ابتدائی ڈھائی تین عشروں کے دوران ہر شعبے کی غیر معمولی ترقی یونہی ممکن نہیں ہوگئی تھی۔ ہر شعبے میں مسابقت بھی غیر معمولی تھی اور معیارات بھی سخت تر تھے۔ بڑوں کو اپنے بڑپّن کا احساس تھا۔ وہ جانتے تھے کہ چھوٹی حرکتوں سے معاشرے چھوٹے رہ جاتے ہیں۔ کوشش ہوتی تھی کہ کسی بھی شعبے میں کوئی ایسا فرد آگے نہ نکلے جو اصلاً چھوٹا ہو۔ فکر کی بلندی کی خاصی وقعت تھی۔ تحمل بنیادی قدر کے طور پر غیر معمولی اہمیت کا حامل وصف تھا۔ صبر کی اہمیت تھی۔ لوگ کسی بھی صورتِ حال میں ثابت قدم رہنے کو بہت اہم گردانتے تھے۔ اب کسی کو یقین نہیں آتا مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب اوصاف ہم میں تھے۔ ہم بلند فکر بھی تھے اور تحمل مزاج بھی۔ کامیاب ہونا اہم گردانا جاتا تھا مگر کسی بھی طور نہیں بلکہ ڈھنگ سے، اصولوں کے مطابق۔ جس میں قابلیت نہیں ہوتی تھی وہ نامناسب طریقے اختیار کرکے بہت کچھ حاصل کرنے کی تگ و دَو نہیں کرتا تھا۔ آنکھوں میں شرم تھی۔ کوئی غلط کام کرتا تھا تو لوگوں سے نظریں نہیں ملا پاتا تھا۔ کسی بھی کام کو بے ڈھنگے انداز سے کرنے سے پہلے کئی بار سوچا جاتا تھا۔ پورے معاشرے کے بگاڑ کے لیے کسی ایک طبقے کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم سب نے مل کر اپنی خوبصورت کو ٹھکانے لگایا ہے۔ جب تک ہمیں اپنی خوبصورتی پر محض ناز نہ تھا بلکہ اُسے برقرار رکھنے کی فکر بھی دامن گیر رہتی تھی تب تک معاملات درست ہی رہے۔ جب ہم نے کسی بھی معاملے میں احساسِ زیاں سے بھی جان چھڑانے کے بارے میں سوچنا شروع کیا تب خرابیوں نے ہمارے گھر کا رستہ دیکھ لیا۔
آج حالات کی نوعیت ایسی ہے کہ دل بیٹھ بیٹھ جاتا ہے۔ کچھ سوچنے بیٹھیے تو ذہن ماؤف ہونے لگتا ہے۔ حوصلہ ابھی ٹھیک سے پروان بھی نہیں چڑھا ہوتا کہ دم توڑنے لگتا ہے۔ قوم کے مزاج میں اشتعال کا گراف بہت بلند ہوچکا ہے۔ بات بات پر غصہ آ جاتا ہے۔ کسی بھی کام کو شروع کرتے ہی مکمل کرنے کی فکر دامن گیر ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ انتہائی غیر فطری ہے۔ ہم راہ سے ہٹ چکے ہیں۔ اب کیا ہوسکتا ہے؟ یہ سوال ہر زوال پذیر معاشرے میں گردش کرتا رہتا ہے۔ ہم انوکھے نہیں ہیں۔ دنیا بھر میں معاشروں نے بگاڑ کے بعد اصلاح کی راہ پر بھی گامزن ہوکر دکھایا ہے۔ کئی معاشروں نے منصوبہ سازی اور محنتِ شاقہ سے شدید پسماندگی کو پچھاڑا ہے۔ یہ آپشن ہمارے لیے بھی ہے۔ بس‘ خوبصورتی کو بحال کرنے کی خواہش کے بیدار ہونے کی دیر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں