شہروں کا پھیلائو دل دہلا دینے والا ہے۔ اس کیفیت سے صرف ہم دوچار نہیں، ایک دنیا ہے کہ اس بحران کے ہاتھوں ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہے۔ جن ممالک میں کئی بڑے شہر ہوتے ہیں اُن کے مسائل کچھ اور ہوتے ہیں اور پاکستان جیسے ممالک کے مسائل کچھ اور ہیں جہاں چند ایک شہروں ہی کو پوری معیشت کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ بھارت کی آبادی بہت زیادہ ہے اور بڑے شہر بھی کئی ہیں۔ پھر بھی وہاں کے بڑے شہروں پر بھی غیر معمولی دباؤ ہے۔ ممبئی، دہلی، کولکتہ، چنئی، بنگلور، حیدر آباد، احمد آباد اور دیگر بڑے شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی معاشرتی پیچیدگیوں کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی ہے۔ دہلی، ممبئی اور کولکتہ کا حال بہت بُرا ہے۔ نواحی علاقوں کے ساتھ ساتھ چالیس پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر موجود قصبوں اور دیہات سے نقلِ مکانی کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ان شہروں کی آبادی تواتر سے بڑھتی جا رہی ہے۔ آبادی کے دباؤ نے اِن شہروں میں زندگی کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ بنیادی سہولتوں کے ڈھانچے پر دباؤ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اب عام آدمی کے لیے تمام بنیادی سہولتیں حکومت کی چھتری تلے حاصل کرنا ناممکن ہوچکا ہے۔ پاکستان میں معیشت کا پورا بوجھ کراچی اور لاہور پر آ پڑا ہے۔ ساحلی شہر ہونے کی بدولت شہرِ قائد کا معاملہ لاہور سے بہت مختلف ہے۔ کراچی پر آبادی کا غیر معمولی دباؤ بھی ہے اور معاشی بوجھ بھی کم نہیں۔ کراچی میں پورے ملک کی کلیدی صنعتی، تجارتی اور مالیاتی سرگرمیاں مرتکز ہوگئی ہیں۔ کراچی کو ہم مِنی پاکستان بھی قرار دے سکتے ہیں۔ یہاں کا نسلی، لسانی اور ثقافتی تنوع اپنے آپ میں رحمت بھی ہے اور زحمت بھی۔ رحمت اس لیے کہ اس نوع کا تنوع ایک دوسرے کو سمجھنے کا سنہرا موقع فراہم کرتا ہے اور زحمت اس لیے کہ تنگ نظری اور خام خیالی ایسے موقع کو محض بحران پیدا کرنے کا ذریعہ بنانے میں دیر نہیں لگاتی۔ ہمارے ہاں کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو قبول کرنے کے بجائے ایک دوسرے سے محض خوف محسوس کر رہے ہیں۔ جب بھی کوئی شہر پھیلتا ہے تو اُس کا حسن دُھندلا پڑنے لگتا ہے۔ کوئی بھی شہر ایک خاص منصوبے کے تحت بسایا جاتا ہے۔ بعض معاملات میں یہ بھی ہوتا ہے کہ شہر تو بس جاتا ہے مگر جب ضرورت محسوس ہوتی ہے تب منصوبہ سازی کی جاتی ہے۔ اِسی کا نام ٹاؤن پلاننگ ہے۔ اس منصوبہ سازی کے تحت دیکھا جاتا ہے کہ شہر کی بنیادی ضرورت کے مطابق سہولتیں میسر ہیں یا نہیں۔ بنیادی ڈھانچا کمزور ہو تو شہر ڈھنگ سے ترقی کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہتا۔ ٹاؤن پلاننگ میں مستقبل کی ضرورتوں کو بھی مدِنظر رکھا جاتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ اگلے چالیس پچاس سال کی ضرورت کے مطابق سہولتوں کی فراہمی کا نظام اپنایا جائے۔ دنیا بھر میں بڑے شہروں کے لیے منصوبہ سازی اِسی طور کی جاتی ہے تاکہ شہر کے مکین زیادہ الجھنوں کا شکار نہ ہوں۔
ہمارے ہاں بیشتر معاملات واضح منصوبہ سازی سے محروم رہے ہیں۔ شہروں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ کراچی کے لیے جو ماسٹر پلان تیار کیا گیا تھا وہ کب کا غیر متعلق ہوچکا ہے۔ شہر مسلسل پھیل رہا ہے۔ اب شہر کی حدود ہی میں لوگوں کو معاشی سرگرمیوں کے لیے عمومی طور پر یومیہ پچیس تیس کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ بلدیہ ٹاؤن سے گلشنِ حدید تک کا کھنچاؤ تقریباً 55 کلو میٹر کا ہے! لوگ اب اس کے عادی بھی ہوچکے ہیں۔ شہرِ قائد کی غیر معمولی وسعت کوئی ایسی بات نہیں جس پر فخر کیا جائے یا اظہارِ تشکر کیا جائے۔ کسی بھی شہر کی بے ہنگم توسیع صرف مسائل پیدا کرسکتی ہے اور کرتی ہی ہے۔ کراچی کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ لاہور میں بھی لوگ مشکلات سے دوچار ہیں۔ ملتان، راولپنڈی، فیصل آباد، پشاور، کوئٹہ، حیدر آباد اور سکھر وغیرہ میں بھی زندگی آسان نہیں۔ مہنگائی بہت زیادہ ہے۔ روزگار کے مواقع زیادہ نہیں۔ عام آدمی کے لیے ان شہروں میں کرائے پر رہنا بھی آسان نہیں رہا۔ ذاتی مکان بنانے یا خریدنے کو تو محض خواب کا معاملہ سمجھیے۔ کراچی کا کیس تھوڑا مختلف اور الجھا ہوا اِس لیے ہے کہ شہر غیر معمولی وسعت اختیار کرچکا ہے۔ اِس کے نتیجے میں معاشرتی پیچیدگیاں خطرناک حد تک بڑھ چکی ہیں۔ زندگی کچھ سے کچھ ہوگئی ہے۔ لوگ خاصے بے ہنگم انداز کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ لوگوں کا کوئی قصور نہیں۔ اس نوعیت کی زندگی یقینی بنانے میں اُن کا بھی ہاتھ ہے مگر جب اجتماعیت حاوی ہو جائے تو انفرادی سطح پر کچھ زیادہ کرنا ممکن نہیں رہتا۔
بڑے شہروں میں زندہ رہنے کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے۔ عام آدمی بے چارہ اپنے اور اہلِ خانہ یا متعلقین کے لیے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے ہی میں اپنی توانائی اور آمدن کا غالب حصہ کھپادیتا ہے۔ وہ شدید مجبور ہے۔ شہری زندگی کا جبر انسان سے بہت کچھ چھین لیتا ہے۔ اہلِ پاکستان کو بھی بڑے شہروں میں رہنے کی خاصی بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔ شہروں کا بڑھتا پھیلائواُن کے مکینوں کے مسائل دوچند کر رہا ہے۔ بعض شہر مسائلستان ہوکر رہ گئے ہیں۔ کراچی کی مثال سب سے نمایاں ہے جہاں ہر طرف مفادات کا تصادم ہے۔ ہر شعبہ مافیا کے چنگل میں ہے۔ یہ سب کچھ عام آدمی کے لیے سوہانِ روح بن چکا ہے۔ وہ کسی نہ کسی طور جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے ہی کی تگ و دَو میں مرا جاتا ہے۔ زندگی کا جبر ہر دور میں رہا ہے۔ کسی بھی زمانے میں زندگی بسر کرنا بچوں کا کھیل نہیں تھا۔ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں جنہیں نبھائے بغیر اور متعلقہ زمینی حقائق کی روشنی میں اپنے آپ کو بدلے بغیر یا تطبیق کے مرحلے سے گزرے بغیر معیاری زندگی ممکن نہیں بنائی جاسکتی۔ گزرے ہوئے زمانے ہمیں بہت بھلے معلوم ہوتے ہیں۔ اب ایسا لگتا ہے جیسے تب کوئی الجھن تھی ہی نہیں۔ ایسا نہیں ہے! الجھنیں تو تھیں مگر ہاں! زبردستی کی الجھنیں نہیں تھیں۔ انسانی فطرت جیسی اب ہے ویسی ہی تب بھی تھی۔ ہاں‘ نفسی پیچیدگیاں اُتنی نہ تھیں جتنی اب ہیں۔ آج ایک طرف تو زندگی کا وہ جبر ہے جو فطری ہے اور دوسری طرف رہی سہی کسر ہم نے خود پوری کردی ہے۔ ہم اپنے حصے کی پیچیدگیوں میں اضافہ کرتے جارہے ہیں۔ گویا ع
دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی
شہری زندگی ہر دور کے انسان کو اپنی طرف متوجہ کرتی رہی‘ کھینچتی رہی ہے۔ آج یہ معاملہ بہت شدت اختیار کرچکا ہے۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے انسان ہتھیلی پر رکھے ہوئے سیل فون کے ذریعے سب کچھ دیکھ اور جان لیتا ہے۔ دور افتادہ دیہی علاقوں کے لوگ جب اینڈرائیڈ فون پر شہری زندگی کی چمک دمک دیکھتے ہیں تو گاؤں کا سادہ ماحول اُنہیں انتہائی پھیکا معلوم ہوتا ہے۔ شہری زندگی کی کشش اُنہیں دیہی ماحول سے بیزار کرتی ہے اور وہ سب کچھ داؤ پر لگاکر پہلے کسی چھوٹے شہر میں آباد ہونے کا سوچتے ہیں اور پھر بڑے شہر کی طرف جانے کی منصوبہ سازی کرتے ہیں۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ جامع منصوبہ سازی کے بغیر ہی شہروں کی طرف چل دیتے ہیں۔ اُن کے ذہن میں یہ تصور پروان چڑھ چکا ہوتا ہے کہ شہری زندگی میں مزے ہی مزے ہیں۔ بڑی بڑی عمارتیں، چوڑی سڑکیں، بڑے بڑے باغات، تفریحی مراکز اور دوسرا بہت کچھ ہے جو اُنہیں اپنی طرف کھینچتا رہتا ہے اور وہ متعلقہ زمینی حقیقتوں کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا کیے بغیر اپنے اپنے آبائی علاقے چھوڑنے پر تُل جاتے ہیں۔ کراچی میں آج معاملات بہت الجھ چکے ہیں۔ اس معاملے میں کراچی انوکھا نہیں۔ لاہور، راولپنڈی، ملتان اور دیگر بڑے‘ چھوٹے شہروں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ کراچی سے متصل حیدر آباد میں بھی زندگی الجھی ہوئی ہے۔ بنیادی سہولتوں کا فقدان عام آدمی کے لیے مسائل بڑھا رہا ہے۔ ایسے میں نئے شہروں کے لیے منصوبہ سازی ناگزیر ہے۔ معقول فاصلوں سے چھوٹے شہر بسانے پر توجہ دی جانی چاہیے تاکہ عام آدمی کو بہت زیادہ قیمت ادا کیے بغیر ڈھنگ سے جینے کا موقع ملے۔