کمزور اور پسماندہ معاشروں میں معاشرتی نا انصافیوں کا رونا بہت رویا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی یہ رونا عام ہے مگر اس نکتے پر غور کرنے والے کم ہیں کہ سوال صرف معاشرتی انصاف کا نہیں‘ معاشی انصاف کا بھی ہے۔ معاشی انصاف کے نہ ہونے ہی سے معاشرتی نا انصافی پیدا ہوتی ہے۔ محروم طبقات کی محرومی کا بنیادی سبب معاشی ناہمواری ہے۔ معاشی انصاف ممکن بنایا جائے تو بہت سے دُکھڑے دم توڑ جائیں۔ آج کم و بیش تمام پسماندہ معاشرے گزارے کی سطح پر اٹکے ہوئے ہیں۔ کسی نہ کسی طور صبح کو شام کی منزل تک پہنچانے ہی کو سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے۔ غور کیجیے‘ یہ تو کوئی زندگی نہ ہوئی۔ انسان اس دنیا میں اس لیے نہیں آیا کہ محض جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے ہی میں کھپ جائے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے جن صلاحیتوں اور سکت سے نوازا ہے اُن کا تقاضا ہے کہ اپنی توانائیوں کو کسی بلند تر مقصد کے لیے وقف کیا جائے۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب سوچا جائے، منصوبہ سازی کی جائے اور کسی بلند مقصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے متحرک ہونے پر توجہ دی جائے۔ کسی بھی معاشرے میں عوام وہ کہلاتے ہیں جو گزارے کی سطح پر جیتے ہیں۔ ہر معاشرے میں گزارے کی سطح مختلف ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں گزارے کی سطح پاکستان جیسے ترقی پذیر معاشروں میں پائی جانے والی گزارے کی سطح سے بہت بلند ہوتی ہے۔ وہاں عام آدمی ایسا بہت کچھ پاتا ہے جو ہمارے ہاں اَپر مڈل کلاس کی سطح پر حاصل ہو پاتا ہے۔ گزارے کی سطح سے بلند ہونے کے لیے انسان کو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ یہ معاملہ بھرے اور بپھرے ہوئے دریا کو پار کرنے جیسا ہے۔ ہمارے ہاں اکثریت گزارے کی سطح پر اٹک گئی ہے۔ اس اٹکی ہوئی سُوئی کو دوبارہ متحرک کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ صلاحیتوں کو شناخت کرکے مہارت کا معیار بلند کیا جائے اور سکت کو بروئے کار لانے پر توجہ دی جائے۔
کسی بھی انسان کو گزارے کی سطح پر زندگی بسر کرنے کی طرف لے جانے میں کئی عوامل کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ بہت سے حالات انسان میں کچھ کرنے کی لگن کو کمزور کرتے رہتے ہیں۔ عام آدمی حالات کے جبر کو سہنے کے معاملے میں زیادہ لگن کو بروئے کار نہیں لا پاتا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ کسی بھی معاملے میں تیزی سے مایوس ہوکر ہتھیار ڈال دیتا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں بھی تھوڑی بہت نا انصافی ضرور پائی جاتی ہے مگر چونکہ عام آدمی بیشتر معاملات میں اپنی بنیادی ضرورتیں آسانی سے پوری کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اس لیے اُس میں احساسِ محرومی برائے نام پایا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں بنیادی سہولتیں فراہم کرنے میں غیر معمولی دلچسپی لیتی ہیں تاکہ عوام میں اشتعال نہ پھیلے اور وہ بے جا رنجش کا شکار نہ ہوں۔ بنیادی سہولتیں آسانی سے میسر ہوں تو معاشرہ تیزی سے فروغ پاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ترقی یافتہ معاشروں کو اپنی بھرپور ترقی اور خوش حالی برقرار رکھنے میں زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ ترقی یافتہ معاشرے پس ماندہ معاشروں پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اس بات کو ہر حال میں یقینی بناتے ہیں کہ جو کچھ پسماندہ معاشروں میں ہو رہا ہے وہ اُن کے ہاں نہ ہو۔ جو خرابیاں پسماندہ معاشروں کو شدید ناکامی اور مشکلات سے دوچار رکھتی ہیں اُن سے ترقی یافتہ معاشرے بچنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ بنیادی سہولتوں، تعلیم و صحتِ عامہ اور روزگار کے مواقع جیسے انتہائی کلیدی شعبوں میں ترقی یافتہ معاشرے کبھی ڈھیل نہیں دکھاتے۔ وہ جانتے ہیں کہ بنیادی سہولتیں میسر نہ ہوں تو عوام کو بہتر زندگی اور مجموعی طور پر قابلِ رشک ترقی کی یقینی بنانے کی حقیقی تحریک نہیں دی جاسکتی۔
پاکستان جیسے معاشروں میں معاملہ صرف معاشی پسماندگی کا نہیں۔ معاشرتی الجھنیں بھی کم نہیں۔ معاشرے کی ساخت کچھ ایسی ہے کہ ڈھنگ سے کچھ بھی کرنا حکومتوں کے لیے ممکن ہے نہ مقتدرہ کے لیے ۔ حکومتی سیٹ اپ میں پائی جانے والی پیچیدگیوں کے باعث نجی کاروباری شعبہ بھی کچھ زیادہ نہیں کر پارہا۔ بڑے کاروباری ادارے معاشرے میں کوئی بڑی حقیقی تبدیلی یقینی بنانے کی کوشش کریں بھی تو زیادہ دور نہیں چل پاتے۔ اُن کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والے موجود ہیں۔ قوانین میں پائے جانے والے ہر سقم کا سہارا لے کر معیشت و معاشرت کے لیے غیر معمولی پیچیدگیاں پیدا کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ ہم دیکھ ہی رہے ہیں کہ اس وقت سیاسی قیادت اور اداروں کے درمیان بہت حد تک ٹھنی ہوئی ہے۔ چند ایک معاملات میں دکھائی دینے والا تصفیہ بھی بہت حد تک نظر کا دھوکا ہے۔ ایسے میں سبھی پریشان ہیں مگر عام آدمی کی پریشانی زیادہ ہے۔ اشرافیہ، کاروباری طبقہ، اپر مڈل کلاس اور مڈل کلاس تو اپنے آپ کو کسی نمایاں مقام تک رکھنے میں کامیاب ہیں مگر عام آدمی کا معاملہ یہ ہے کہ اُس کی زندگی کا بڑا یا نمایاں حصہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کی جدوجہد میں کھپ رہا ہے۔ گزارے کی سطح پر جینے کو کسی نہ کسی طور جینا کہا جاسکتا ہے۔ یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ عام آدمی کے لیے گزارہ کرنا بھی دشوار تر ہوتا جارہا ہے۔ بیشتر غریب گھرانے گزر بسر کرنے کے لیے ادھار کا سہارا لینے پر مجبور ہیں یا پھر مانگے تانگے سے گزارہ کر رہے ہیں۔ یہ کیفیت عزتِ نفس پر بُری طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔ جن کے لیے ڈھنگ سے کھانے پینے کا اہتمام کرنا بھی ممکن نہ رہے وہ اگر امداد پاکر زندہ رہ سکتے ہیں تب بھی سوال تو یہ ہے کہ وہ خود کو قابلِ رشک انداز سے زندہ رکھنے میں کیونکر کامیاب ہوسکتے ہیں کیونکہ مانگے تانگے کی زندگی عزتِ نفس کو بُری طرح مجروح کر دیتی ہے۔
جب معاشرے پر پژمردگی طاری ہو تو عام آدمی زیادہ اثرات قبول کرتا ہے۔ اُس میں کچھ زیادہ کر دکھانے کی لگن دم توڑنے لگتی ہے۔ جب امکانات دکھائی نہ دے رہے ہوں تب زندگی کا معیار بلند کرنے کی کوئی راہ نہیں سوجھتی۔ امکانات کا بازار گرم رکھنا حکومتی اور ریاستی مشینری کا کام ہے۔ ہمارے ہاں اعلیٰ ترین ریاستی و انتظامی سطح پر آپس کے جھگڑے ہی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ ایسے میں عوام کے لیے کون سوچے؟ سیاسی بحران نے بہت کچھ دُھندلا دیا ہے۔ اِس کے نتیجے میں عام آدمی کے لیے امکانات کمزور سے کمزور تر ہوتے جارہے ہیں۔ معاشرہ جس تیزی سے پیچیدگی اور ناکامی کی طرف بڑھ رہا ہے اُسے دیکھتے ہوئے ناگزیر ہوچکا ہے کہ عام آدمی کے مفاد کے بارے میں سوچا جائے۔ ریاست کو اپنا کردار پوری دیانت اور جاں فشانی سے ادا کرنا ہے۔ علاقائی و عالمی حالات اِس امر کے متقاضی ہیں کہ ریاستی نظم کو سلامت رکھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ سنجیدگی سے کام لیا جائے۔ سیاسی قائدین کو مل بیٹھ کر سیاسی بحران ختم کرنے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ ملک کی ساکھ کچھ بہتر ہو اور عالمی برادری میں اپنے لیے کوئی آبرو مندانہ مقام یقینی بنانے میں کامیابی نصیب ہو۔
آج کی دنیا آسانیوں کی بستی اور مسائل کا گڑھ ہے۔ سہولتوں سے وہی لوگ مستفید ہو پاتے ہیں جو خود کو اس حوالے سے تیار کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ معاشرے اگرچہ دنیا بھر کے پسماندہ ممالک میں حالات خراب کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں؛ تاہم تھوڑی بہت کوشش کرنے پر پسماندہ معاشرے اپنے لیے کوئی نہ کوئی ایسی راہ تلاش کرسکتے ہیں جس پر گامزن ہوکر زندگی کا معیار تھوڑا بہت بلند کیا جاسکے۔ یہ کام مستقل بنیاد پر کرنا ہے۔ محض گزارے کی سطح پر جینے والے معاشرے عالمی برادری میں اپنے لیے کوئی قابلِ رشک مقام یقینی بنانے میں زیادہ کامیاب نہیں ہو پاتے۔ پاکستان کا عام آدمی جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کی تگ و دَو ہی میں الجھا ہوا ہے۔ ایسے میں وہ معیاری زندگی کا خواب بھی دیکھنے کی سکت نہیں رکھتا۔ ریاستی نظم اور وسائل و اختیارات پر تصرف رکھنے والوں پر فرض ہے کہ عام آدمی کو ڈھنگ سے جینے کے قابل بننے میں خاطر خواہ حد تک مدد دیں۔ صبح کو شام کرنا کسی بھی اعتبار سے زندگی نہیں۔ جینے کا مزہ تبھی ہے کہ جب انسان دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے کی تگ و دَو سے بلند ہوکر پوری معنویت کے ساتھ کچھ کرے۔ اس حوالے سے جو کچھ بھی کیا جانا ہے اُس میں تاخیر کی زیادہ گنجائش نہیں۔