قومی سیاست و معیشت کے معاملات درست ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اس لیے اِنہیں الگ الگ کرکے دیکھا نہیں جاسکتا۔ وہ زمانہ کب کا جاچکا ہے جب کوئی بحران آتا تھا تو تھوڑی بہت محنت سے ٹل جاتا تھا۔ اب جو بھی بحران آتا ہے وہ معیشت و معاشرت کی جڑوں میں بیٹھ جاتا ہے اور معاملات کو انتہائی خرابی کی طرف لے جانے میں اپنا کردار ادا کرتا رہتا ہے۔ زندگی دشوار سے دشوار تر ہوتی جاتی ہے۔ پہلے کورونا کی وبا نے معیشت کے لیے شدید الجھنیں پیدا کیں۔ جب کورونا کی وبا پر قابو پانا کسی حد تک ممکن ہوا اور معاشی سرگرمیوں نے کچھ زور پکڑا تو سیلاب نے تباہی مچادی۔ سیلاب کے ہاتھوں بہت بڑے پیمانے پر تباہی واقع ہوئی ہے۔ سندھ مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔ زرعی شعبہ خطرناک حد تک متاثر ہوا ہے۔ نئی فصلیں اُگانے کے لیے کسانوں کے پاس کھاد ہے نہ بیج۔ سیلابی پانی نے زمینوں کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے۔ کھیتوں کو نئی فصلوں کے لیے تیار کرنے کے لیے محنت بھی بہت کرنا پڑے گی اور وقت بھی خاصا درکار ہو گا۔ اس حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان بات چیت ہوتی رہی ہے۔ سندھ حکومت چاہتی ہے کہ کسانوں کو کھاد اور بیج کے معاملے میں پچاس فیصد تک سبسڈی دی جائے۔ دوسری طرف وفاق کا موقف ہے کہ فی الحال قومی خزانے کی حالت ایسی نہیں کہ اس حد تک ریلیف دیا جاسکے۔ سندھ کا مطالبہ بھی درست اور وفاقی حکومت کا عذر بھی بے جا نہیں۔ معاملات ہیں ہی ایسے الجھے ہوئے کہ ہر فریق یا تو درست دکھائی دیتا ہے یا پھر غلط۔
یہ سب کچھ اپنی جگہ اور سیاسی خرابیاں اپنی جگہ۔ اہلِ سیاست کو اس نازک مرحلے میں جو کچھ کرنا چاہیے اُس کے برعکس ہی ہو رہا ہے۔ سیاسی سطح پر احتجاج کا محل ہے نہ گنجائش۔ ملک معاشی اعتبار سے مزید خرابیوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ علاقائی اور عالمی حالات اس بات کی گنجائش چھوڑ ہی نہیں رہے کہ قومی سیاست و معیشت میں کوئی جھول رہنے دیا جائے۔ قدم قدم پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ قومی تعمیرِ نو اور بحالی کا عمل جس تیزی سے شروع ہونا چاہیے اُس کے آثار تک نظر نہیں آ رہے۔ یہاں آپس کی لڑائی سے فرصت نہیں مل پارہی۔ ایسے میں قوم کا کون سوچے؟ عوام کی مشکلات ہیں کہ دوچند ہوتی جاتی ہیں۔ لوگ ریلیف چاہتے ہیں مگر سیاسی قیادت اُن کے لیے ریلیف یقینی بنانے کے بجائے اپنے معاملات بارآور بنانے پر تُلی ہوئی ہے۔ سیلاب کے ہاتھوں بے گھر ہونے والوں کی اکثریت اب تک اپنے گھروں میں دوبارہ آباد نہیں ہو پائی۔ بہت بڑے پیمانے پر مکانات تعمیر بھی کرنے ہیں۔ اس کے لیے وسائل فراہم کرنے پر توجہ دینے کے بجائے سندھ حکومت اب تک سیاسی محاذ آرائی میں اٹکی ہوئی ہے۔ بلدیاتی الیکشن کا معاملہ کسی طور درست ہونے نہیں دیا جارہا۔ سندھ حکومت نے کراچی اور حیدر آباد ڈویژن میں بلدیاتی الیکشن ٹالنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ جماعتِ اسلامی اس محاذ پر اب تک ڈٹی ہوئی ہے۔ اُس کی آواز میں آواز ملانے کے لیے اب پی ٹی آئی بھی میدان میں اتر آئی ہے۔ سندھ حکومت نے بلدیاتی الیکشن ٹالنے کے لیے بلدیاتی ایکٹ میں ترمیم تک کر ڈالی ہے۔ الیکشن کمیشن بھی سمجھ نہیں پارہا کہ اس الجھن سے نمٹے تو کیسے نمٹے۔ معاملہ الجھتا ہی جارہا ہے۔ سپریم کورٹ واضح حکم دے چکی ہے کہ کراچی اور حیدر آباد ڈویژن میں بلدیاتی الیکشن ہر حال میں کرایا جائے۔ الیکشن کمیشن پر غیر معمولی دباؤ ہے۔ سندھ حکومت تاخیری ہتھکنڈے اپنانے سے ذرا بھی گریز نہیں کر رہی۔ وہ اس پورے معاملے کو یوں الجھا دینا چاہتی ہے کہ پھر کسی کے بس میں کچھ نہ رہے۔ ایک طرف پولیس کی نفری کے کم ہونے کا بہانہ تراشا جارہا ہے اور دوسری طرف سیلاب متاثرین کی بحالی و آباد کاری کو جواز بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے بار بار یہ انتباہ جاری کیا جارہا ہے کہ پاکستانی معیشت کو 2023ء میں بھی شدید الجھنوں کا سامنا رہے گا۔ شرحِ نمو کے نچلی سطح پر رہنے کی پیش گوئی کی جارہی ہے۔ سیلاب کے ہاتھوں ہونے والی تباہی قومی معیشت کی مکمل بحالی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن کر کھڑی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس بارہا کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کی بھرپور مدد کی جانی چاہیے کیونکہ سیلاب نے ملک کو شدید غیر مستحکم کردیا ہے۔ انہوں نے ترقی یافتہ دنیا سے کہا ہے کہ پاکستان کی فوری مدد کے معاملے کو کسی صورت نہ ٹالا جائے کیونکہ ٹال مٹول سے بہت بڑا المیہ جنم لے سکتا ہے۔ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک بھی پاکستان میں بالعموم اور سندھ میں بالخصوص امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے متحرک ہونے کی یقین دہانی کراچکے ہیں۔ عالمی بینک سندھ میں متعدد منصوبوں پر صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ ٹھیک ہے مگر اِس سے کہیں زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمی ادارے جو کریں گے سو کریں گے، سوال یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس حوالے سے کیا ہو رہا ہے۔ قومی معیشت کی حقیقی بحالی اُسی وقت ممکن ہے جب سیاسی بحران ختم ہو اور معاشرے میں مجموعی طور پرافہام و تفہیم کی فضا پیدا ہو۔ جب تک ایسا ممکن نہیں ہوتا تب تک عالمی اداروں کی طرف سے معاشی بحالی کے لیے کی جانے والی کوششیں نیم دلانہ اور قدرے لاحاصل رہیں گی۔ سٹیک ہولڈرز کی لڑائی ملک کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ جب نراجیت کی فضا پیدا ہو جائے تو ریاستی اداروں کے کمزور پڑنے کا خدشہ سر اٹھانے لگتا ہے۔ اس وقت ایک طرف تو سلامتی کا مسئلہ ہے اور دوسری طرف معاشی و معاشرتی انصاف کی کیفیت بھی دگرگوں ہے۔ سیاسی قائدین آپس کی لڑائی میں اداروں پر دباؤ بڑھاکر پوری قوم کو شدید بے یقینی سے دوچار کیے ہوئے ہیں۔ پارلیمنٹ محض ربر سٹیمپ بن کر رہ گئی ہے۔ الیکشن کمیشن جیسے وقیع ادارے کو بھی متنازع کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی۔ عدلیہ کی غیر جانبدار حیثیت کو شدید متاثر کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ بعض معاملات میں عدلیہ کو سیاسی و معاشی بحران کے اثرات کی زد میں لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جو کچھ سیاسی قائدین کو مل بیٹھ کر پارلیمنٹ کی سطح پر طے کرنا ہے وہ بھی عدالتوں میں لایا جارہا ہے۔ عدلیہ بھی کہہ رہی ہے کہ سیاسی معاملات کو عدالتوں میں نہ لایا جائے۔ یہ گویا خطرے کی گھنٹی ہے۔ بلدیاتی اور عام انتخابات الیکشن کمیشن کا معاملہ ہے مگر سندھ حکومت اس کام میں مداخلت کرکے معاملات کو اِتنا الجھا رہی ہے کہ پھر درستی کسی کے بس میں نہ رہے گی۔ علاقائی و عالمی حالات پوری شدت کے ساتھ اس امر کے متقاضی ہیں کہ قومی معیشت کی بحالی پر بھرپور توجہ دی جائے۔ اِس کے لیے سیاسی استحکام لازم ہے۔ سیاسی قائدین کو پہلے آپس میں بات چیت کے ذریعے معاملات درست کرنے چاہئیں اور دوسرے مرحلے میں سیاسی قیادت مقتدرہ سے اپنے معاملات بات چیت کے ذریعے درست کرے۔ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی وسیع البنیاد مکالمے کی بات بھی کرچکے ہیں۔ یہ وقت قومی سطح پر جامع اور ہمہ گیر نوعیت کی مصالحت اور افہام و تفہیم کا ہے۔ پُلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا ہے۔ وقت مزید ضائع نہیں کیا جا سکتا۔ وسائل کی بندر بانٹ قوم کے حق میں نہیں۔ قومی معاملات میں تصرف کا حامل ہر فریق مافیا کے سے انداز سے کام کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ اَنا پرستی تمام قومی مفادات پر غالب آچکی ہے۔ جو کوئی بھی بے جا مزے میں ہے‘ وہ اپنے مزے ختم کرنے کو تیار نہیں۔
عالمی مالیاتی ادارے جو تھوڑی بہت امداد دے رہے ہیں اُس کی بھی بندر بانٹ چل رہی ہے۔ سندھ میں سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے عالمی برادری کی طرف سے بہت کچھ آرہا ہے مگر سندھ حکومت اب تک معقول طریقے سے متاثرین کی مدد یقینی بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ اِس کیلئے غیر جانبداری اور دیانت لازم ہے اور اِن اوصاف کا فقدان ہے۔ کسی بھی شعبے میں آثار اچھے نہیں۔ لوگوں پر مایوسی طاری ہوتی جارہی ہے۔ تمام سطحوں کی حکومتیں ہوش کے ناخن لیں اور اِس طور کام کریں کہ وفاق مضبوط و مستحکم ہو۔ آپس کی لڑائی مزید خرابیوں ہی کو جنم دے گی۔ قومی سطح پر مصالحت کے ذریعے معاملات طے کیے جائیں اور مجموعی طور پر پوری قوم کا بھلا سوچا جائے۔