معاملات خواہ کسی شعبے میں بگڑیں‘ بالآخر عوام ہی کو اُن کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ ریاستی ادارے اُس پیسے سے چلتے ہیں جو عوام سے ٹیکسوں کی شکل میں وصول کیا جاتا ہے۔ قومی خزانے پر مرتب ہونے والا دباؤ بالآخر عوام تک منتقل کردیا جاتا ہے۔ ریاستی اور حکومتی مشینری کو چلانے میں تمام ہی شعبے اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں مگر غور کیجیے تو سب سے زیادہ بوجھ عام آدمی کو اٹھانا پڑتا ہے۔ کاروباری طبقہ بھی ٹیکسوں کا بوجھ نیچے حتمی صارفین یعنی عوام ہی کو منتقل کرتا ہے۔ یہ بوجھ کس حد تک سہا جاسکتا ہے؟ یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ سب کچھ یونہی چلتا رہے گا۔ ایسا نہیں ہوسکتا! ہو ہی نہیں سکتا۔ عوام کو نچوڑنے کی ایک حد ہوتی ہے۔ یہ حد عوام طے نہیں کرتے، یہ تو حکمرانوں کو طے کرنا ہوتی ہے تاکہ معاشرے میں دم خم باقی رہے، ملک کی سلامتی اور سالمیت خطرے میں نہ پڑے۔ جہاں حکمران متوجہ نہیں رہتے وہاں صرف تباہی آتی ہے۔ افریقی معاشرے اِس کی واضح مثال ہیں۔ ہمارے ہاں عوام کو نچوڑنے کے معاملے میں کوئی بھی حد مقرر نہ کرنے کی روایت پر عمل پیرا رہنے کی روایت سی پڑگئی ہے۔ بات کہیں سے بھی شروع ہو‘ ہِرتی پھرتی عوام پر ختم ہوتی ہے۔ عوام بے چارے کیا کریں؟ اُن کے بعد تو کوئی ہے نہیں جس پر یہ بوجھ منتقل کیا جاسکے۔ چار و ناچار اُنہی کو سب کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔
قومی خزانے پر دباؤ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ آمدنی کے ذرائع محدود تر ہیں اور اخراجات میں کمی کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ حکومتی سطح پر بھی اخراجات میں کٹوتی کا ماحول پنپتا دکھائی نہیں دے رہا۔ عوام کا بھی یہ حال ہے کہ اپنے اخراجات کا دائرہ وسیع تر کرتے جارہے ہیں۔ یہ صورتِ حال معاشرے کو عجیب و غریب مایا جال میں جکڑے ہوئے ہے۔ اس مایا جال میں معاملات صرف اور صرف کمانے اور خرچ کرنے تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ اب زندگی کا مجموعی ڈھانچا محض یہ رہ گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ کام کیجیے‘ زیادہ سے زیادہ کمائیے اور زیادہ سے زیادہ خرچ کیجیے۔ بچت کا تصور کسی کسی میں رہ گیا ہے۔ بچت تو دور کی بات ہے‘ اب تو کفایت پر بھی توجہ نہیں دی جارہی۔ کفایت کے دو پہلو ہیں۔ ایک طرف تو سمارٹ خریداری کے ذریعے پیسے بچانا اور دوسرے گھریلو یا روزمرہ اخراجات کو قابو میں رکھنے پر متوجہ رہنا۔ یعنی غیر ضروری اشیا و خدمات کے حصول سے مجتنب رہنا۔ دونوں صورت میں کفایت کا اہتمام ہوتا ہے اور خوب ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں مجموعی ماحول اب کچھ ایسا ہے کہ بچانے پر ذرا بھی توجہ نہیں دی جارہی اور لوگ کفایت شعار ہونے کو بھی ترجیح نہیں دے رہے۔
معاشرہ اس وقت قدرے بے لگام ہے۔ کسی بھی معاملے میں کوئی حد مقرر نہیں۔ کچھ اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ کب معقولیت ختم ہوتی ہے اور نامعقولیت شروع ہو جاتی ہے۔ اعصاب پر غیر معمولی دباؤ ہے۔ ذہنی تناؤ کا گراف بلند ہوتا جارہا ہے۔ لوگ کبھی کبھی شدید بے حواسی کی زد میں ہوتے ہیں۔ عمومی معاملات میں بھی حواس پر قابو پانا انتہائی دشوار ہوتا جارہا ہے۔ یہ صرف ہمارے معاشرے کی بات نہیں۔ کم و بیش ہر معاشرے میں مجموعی ماحول انسان کو اپنے شکنجے میں کستا رہتا ہے۔ اس دل خراش حقیقت پر کم ہی لوگ توجہ دے پاتے ہیں کہ اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے کا انسان جو کچھ حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے اُس سے کہیں زیادہ کھوچکا ہے۔ ایک بڑی مصیبت یہ بھی ہے کہ کسی معاملے میں بہت کچھ ہاتھ سے جاتا ہوا دیکھ کر بھی انسان سنبھل نہیں پاتا کیونکہ لالچ یا خوف کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ معقول فیصلہ کرنے سے قاصر رہتا ہے اور یوں موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ یہ کیفیت چند انسانوں کی نہیں بلکہ اکثریت کی ہے۔ وہ زمانہ کب کا جاچکا ہے جب کسی کو ذہنی مریض قرار دے کر معاشرے سے الگ کردیا جاتا تھا۔ اب کون کس حد تک مریض ہے اور کس حد تک نارمل ہے اِس کا اندازہ لگانا اور پورے یقین کے ساتھ کوئی دعویٰ کرنا انتہائی دشوار ہے۔ کوئی بڑی بڑی بات تو ہضم کرلیتا ہے مگر کبھی معمولی سی بات پر آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب بہت کچھ ہاتھ سے نکل چکا ہے اور ہم میں سے بیشتر کا یہ حال ہے کہ جو کچھ میسر ہے اُسی کو سب کچھ سمجھ کر خوش ہیں۔ ترقی کے سفر میں انسان نے بہت کچھ کھویا ہے۔ زندگی کا حقیقی حسن جن معاملات میں پایا جاتا ہے آج اُن کے بارے میں سوچنا اور بولنا اپنے آپ کو ہدفِ استہزا بنانے کی سمت بڑھنے جیسا ہوگیا ہے۔ لوگ زیادہ سے زیادہ اشیا و خدمات کے حصول کو زندگی سمجھ بیٹھے ہیں۔ ہر شخص اپنے گھر میں دنیا بھر کی چیزیں بھرنا چاہتا ہے۔ گھر کو بھرنے کا فائدہ؟ اگر انسان کسی چیز سے مستفید ہی نہ ہو پائے تو اُسے پانے سے حاصل؟ بہت سی خدمات ہمیں میسر ہوتی ہیں مگر ہم اُن سے کماحقہٗ مستفید ہوکر زندگی کا معیار بلند کرنے کے بارے میں نہیں سوچتے۔ سارا زور صرف اِس بات پر ہے کہ بہت کچھ پاس ہونا چاہیے۔ ہمارا اصل مقصد ہونا چاہیے زندگی کا معیار بلند کرنا۔ اِس کے لیے جو کچھ بھی درکار ہے اُس سے کماحقہٗ مستفید ہونا بھی لازم ہے۔
زندگی کو خالص مادّہ پرستی کی نذر نہیں کیا جاسکتا۔ زندگی ایسی بے وقعت ہے ہی نہیں کہ اِسے صرف اشیا و خدمات کے حصول کا ذریعہ بناکر سُکون کا سانس لیا جائے۔ زندگی بہت بڑا معاملہ ہے اور اِس کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا بھی بہت بڑا معاملہ ہے۔ ہمارے ہاں ایک بڑی الجھن یہ ہے کہ عام آدمی اپنے وسائل کی حدود شناخت کرنے کی صفت سے محروم ہوچکا ہے۔ وہ بھی بے جا صرف کے رجحان کی زد میں ہے۔ جن کے پاس بہت کچھ ہے وہ زندگی کا معیار بلند کرنے کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے اور جن کے پاس کچھ نہیں وہ تو‘ ظاہر ہے‘ زندگی کا معیار بلند کرنے کی صلاحیت و سکت ہی نہیں رکھتے۔ ایسے میں کوئی بھی بڑی اور مثبت تبدیلی کیونکر آئے؟ یہ وقت محض بے حواس ہوکر جینے کا نہیں۔ قدم قدم پر ہوش مندی کی ضرورت ہے۔ پاکستان جیسے معاشروں کو بہت زیادہ الرٹ رہنا ہے۔ معاملات کو خرابی کی طرف لے جانے والے حالات اچانک ابھرتے اور خطرناک شکل اختیار کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ اقوام دنیا کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنا چاہتی ہیں۔ بیشتر فیصلے محض بیان نہیں کیے جاتے بلکہ تھوپے جاتے ہیں۔ کورونا کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ چند ترقی یافتہ ممالک نے پوری دنیا کو مجبور کیا کہ مخصوص کورونا ویکسین لگوائیں۔ تمام معاملات کو کورونا ویکسی نیشن سے جوڑ کر ایک دنیا کو مجبور کیا گیا اس راہ سے گزرے۔ یہ گویا اس امر کا اعلان تھا کہ اب وہی ہوگا جو ترقی یافتہ اور طاقتور دنیا چاہے گی۔ امریکہ اور یورپ نے عالمی اداروں کے توسط سے اپنی بات منوائی۔ چین اگرچہ یورپ اور امریکہ کا حریف ہے؛ تاہم وہ بھی بعض معاملات میں بڑی طاقتوں کے ساتھ کھڑا رہنے پر مجبور ہے۔ ایسے میں کمزور معاشروں کے لیے الجھنیں بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ پاکستان جیسے معاشروں کو پنپنے کے لیے بہت کچھ کرنا ہے۔ اس معاملے میں غیر معمولی منصوبہ سازی درکار ہے اور عظیم الشان نوعیت کا عزم بھی۔ کچھ کر دکھانے کے لیے سیاسی، معاشی اور معاشرتی استحکام بنیادی شرائط ہیں۔ اِس مرحلے سے کامیاب گزرے بغیر ڈھنگ سے کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا۔
عام آدمی کے لیے زندگی ڈھنگ سے بسر کرنا اب سوہانِ روح ہوتا جارہا ہے۔ راہ روکنے والے معاملات بہت زیادہ ہیں۔ بے لگام ہوتا ہوا معاشرہ زندگی کے ہر پہلو کو تہس نہس کر رہا ہے۔ معاشرتی الجھنیں بڑھتی جارہی ہیں۔ خاندانی نظام میں غیر معمولی حد تک ٹوٹ پھوٹ واقع ہوچکی ہے۔ انفرادی سطح پر جینا بے حد دشوار ہے کیونکہ زندہ رہنے کی لاگت بہت بڑھ چکی ہے۔ ہمارا معاشرہ ذہنی طور پر اب بھی مشترکہ خاندان والا ہے۔ کوئی گھر سے الگ ہوکر ڈھنگ سے جی نہیں پاتا۔ ایسے میں حکومت پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ عوام کو بہت کچھ سمجھانا ہے۔ اُن پر ذہنی اور مالی بوجھ کم کرنا ہے۔ یہ کام محض کہنے سے نہیں ہوگا۔ اِس کے لیے بھرپور عزم درکار ہے۔ جوکچھ ہو رہا ہے وہ شدید بے ہنگم ہے۔ بریک تو لگانا ہی پڑے گی۔