"MIK" (space) message & send to 7575

صرف ڈراوے کیوں؟

کبھی کہا جاتا ہے کہ ملک مالیاتی بحران کا شکار ہے اس لیے عوام کو بہت کچھ برداشت کرنا پڑے گا۔ کبھی یہ کہہ کر ڈرایا جاتا ہے کہ اب کے موسمِ سرما میں گیس بہت کم اور مخصوص اوقات میں ملے گی۔ کبھی یہ طِفل تسلّی دی جاتی ہے کہ آئی ایم ایف سے بات چیت کامیاب رہی تو کچھ مل ہی جائے گا؛ تاہم ساتھ ہی ساتھ یہ ڈراوا بھی ہوتا ہے کہ اگر بات چیت ناکام رہی تو عوام بہت کچھ بھگتنے کے لیے تیار رہیں۔ سوال یہ ہے کہ سارے ڈراوے عوام ہی کے لیے کیوں ہیں۔ اور یہ بھی کہ سب کچھ صرف عوام کیوں بھگتیں۔ کسی بھی ملک کو چلانے کی ذمہ داری تمام طبقات پر عائد ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کو دیکھیے تو وہاں مالدار طبقہ اپنے حصے کا کام بخوبی کرتا ہے یعنی اپنی آمدن کا بڑا حصہ قومی خزانے میں جمع کراتا ہے تاکہ عوام پر زیادہ بوجھ نہ پڑے۔ سبھی جانتے اور سمجھتے ہیں کہ عوام کو سکون سے جینے نہ دیا گیا تو معاشرہ داؤ پر لگ سکتا ہے۔ صدیوں کی پستی اور ناکامی کے بعد مغربی معاشروں نے خود کو بلند کیا ہے اور یہ حقیقت اچھی طرح سمجھ لی ہے کہ معاشرے کو زندہ رکھنا ہے تو عوام کو ڈھنگ سے زندہ رکھنا ہوگا۔
کسی بھی حکومت کا انتہائی بنیادی کام ہے عوام کو تمام بنیادی سہولتیں فراہم کرنا تاکہ وہ کم از کم گزارے کی سطح پر تو ڈھنگ سے جی سکیں۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ عوام سے گزارے کی سطح بھی چھین لی گئی ہے۔ بنیادی سہولتوں کا معاملہ بھی مافیاز کی نذر ہونے دیا گیا۔ سب کے مفادات آپس میں اِس بُری طرح جڑے ہوئے ہیں کہ اب کسی ایک چیز کو درست کرنے جائیے تو دوسری بہت سی چیزیں بگڑ جاتی ہیں۔ جن کے مفادات کو ضرب لگتی ہے وہ کمر کس کر میدان میں آ جاتے ہیں۔ عوام کو بنیادی سہولتوں کے لیے ترسادیا گیا ہے۔ اگر وہ احتجاج کریں تو حکومت سے برداشت نہیں ہو پاتا۔ بے جا تنقید تو خیر ناقابلِ برداشت ہوتی ہی ہے، یہاں تو جائز تنقید بھی بُری لگتی ہے۔ ہر شعبے کو مافیا کی مٹھی میں دے دیا گیا ہے۔ لوگ پینے کے صاف پانی کو بھی ترس گئے ہیں اور پانی تک خریدنا پڑ رہا ہے۔ بجلی اور گیس کا معاملہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ ملک بھر میں توانائی کا بحران ہے۔ حکومت کے پاس آمدن بڑھانے کا بس یہی ایک طریق رہ گیا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس بڑھاتے چلے جاؤ۔ پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہونے سے مہنگائی کا نیا ریلا آتا ہے جو بہت کچھ بہاکر لے جاتا ہے۔ عام آدمی ابھی سنبھل بھی نہیں پاتا کہ مہنگائی کا نیا ریلا آکر اُس کے قدم اکھاڑ دیتا ہے۔ زندگی جیسی نعمت جسم و جاں کا رشتہ قائم رکھنے کی تگ و دَو پر ضائع ہو رہی ہے۔ بڑے اور چھوٹے شہروں میں دو وقت کی روٹی کا اہتمام بھی جاں گُسل مرحلے میں تبدیل ہوچکا ہے۔
آئی ایم ایف سے مذاکرات کھٹائی میں پڑچکے ہیں۔ معاملات درست ہونے کا نام اس لیے نہیں لے رہے کہ یہ عالمی مالیاتی ادارہ اپنی شرائط بڑھاتا جارہا ہے اور مزید سخت بھی کرتا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف کی تمام شرائط مان لینے کی صورت میں پاکستان کو جو کچھ ملے گا اُس سے معاملات درست ہونے کے بجائے مزید بگڑیں گے۔ آئی ایم ایف کا ہر پیکیج ہمیں مزید خرابی اور غلامی کی طرف دھکیلتا ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ آئی ایم ایف کے ہر پیکیج سے جُڑی ہوئی شرائط ہماری معیشت کے لیے ایک بڑے دھچکے سے کم ثابت نہیں ہوتیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ ایسے میں آئی ایم ایف کے در پر جھکنے سے گریز ہی کیا جانا چاہیے۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کو متحرک کرکے قومی آمدن بڑھائی جاسکتی ہے۔ معیاری اور ہنر مند افرادی قوت کی برآمد میں اضافے کے ذریعے بھی قومی آمدن میں اضافہ کیا جاسکتا ہے مگر اس طرف ہمارے حکمرانوں کی توجہ ہے ہی نہیں۔ آئی ٹی سیکٹر کو منظم طریقے سے بروئے کار لاکر دنیا بھر میں اپنی معیاری افرادی قوت پھیلائی جاسکتی ہے۔ یورپ اور امریکہ میں پاکستانیوں کے لیے اب بھی امکانات موجود ہیں۔ تھوڑی سی محنت اور توجہ کے ذریعے اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو متحرک کرکے آئی ٹی سیکٹر میں افرادی قوت اور پاکستان سے خدمات کی برآمد اِتنی بڑھائی جاسکتی ہے کہ قومی خزانے میں متعدبہ اضافہ ہو اور ہماری مشکلات میں کمی آئے۔ مگر یہ سب کچھ ہو تو کیسے ہو؟ یہاں تو آپس کے مناقشوں ہی سے فرصت نہیں۔ ایسے میں کون ہے جو ملک و قوم کا سوچے؟ نام نہاد سٹیک ہولڈرز اپنے اپنے مفادات کا زیادہ سے زیادہ تحفظ یقینی بنانے کے چکر میں عوام کو بالکل بھول بیٹھے ہیں۔ وہ اس حقیقت کو یکسر نظر انداز کیے ہوئے ہیں کہ ملک اول و آخر عوام کے دم سے چلتا ہے۔ اُن سے وصول کیے جانے والے محصولات کی شکل ہی میں وہ آمدنی میسر ہو پاتی ہے جو قومی خزانے میں شامل ہوکر تمام سرکاری اخراجات کا بھگتان کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ عوام کے مفاد کو نظر انداز کرکے ملک کو بہتری کی طرف نہیں لے جایا جاسکتا۔ وطن محض زمین، دریا اور پہاڑوں کا نام نہیں۔ وطن در حقیقت اہلِ وطن سے ہے۔ اگر یہ بنیادی حقیقت ہی نظر انداز کردی جائے تو پھر بچا کیا؟
اس وقت ہر سطح کی حکومت اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔ وفاق سے کچھ طلب کیجیے تو وہ اپنی کم مائیگی کا رونا روتا ہے۔ صوبائی حکومت کی طرف دیکھیے تو وہ خالی جیبیں دکھاکر مزید مایوسی میں مبتلا کرتی ہے۔ مقامی سطح کی حکومت جس نہج پر ہے وہ ہم سب جانتے ہیں۔ مقامی اداروں پر افرادی قوت کا بوجھ اِتنا زیادہ ہے جو کچھ اُنہیں ملتا ہے اُس کا غالب حصہ تنخواہوں اور مراعات پر خرچ ہو جاتا ہے۔ ایسے میں کسی بھی سطح پر بہتری کی کیا توقع کی جائے؟ عوام پر بوجھ ڈالنے کی بہرحال ایک حد ہوتی ہے۔ اُس حد کا خیال نہ رکھا جائے تو ملک و قوم کے لیے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ملک کے حالات اس امر کے متحمل نہیں ہوسکتے کہ صرف عوام کو نچوڑا جاتا رہے۔ کاروباری طبقہ بھی قومی خزانے میں بہت کچھ ڈالتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کاروباری طبقے سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ ٹیکس چوری میں ملوث ہیں مگر ہم یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کرسکتے کہ سرکاری میشنری میں بھی کرپشن جڑوں تک بیٹھ گئی ہے۔ معمولی کلرک بھی کروڑوں کی جائیدادیں بنا بیٹھے ہیں اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔ اُن کا محاسبہ ہو پاتا ہے نہ ٹیکس وصول کیا جاسکتا ہے۔ جب نچلی سطح کے ملازمین کا یہ حال ہے تو اعلیٰ سطح کے افسران کا کیا عالم ہوگا! عوام کے لیے یہ صورتِ حال سوہانِ روح ہے۔ سرکاری میشنری غیر معمولی سطح پر وسائل سے مستفید ہو رہی ہے اور عوام کا حصہ بھی ہڑپ رہی ہے۔ سرکاری تنخواہوں اور مراعات کا بلند ہوتا ہوا گراف بالآخر عوام پر پڑنے والے بوجھ ہی میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔
مجموعی ماحول کچھ ایسا ہوگیا ہے کہ کسی بھی سطح کی حکومت اپنے حصے کا کام نہیں کر رہی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سیاسی عدم استحکام نے تمام معاملات کو الجھادیا ہے۔ احتجاج کی سیاست نے معیشت اور معاشرت دونوں کا تیا پانچا کردیا ہے۔ اپریل میں قائم ہونے والی حکومت اب تک کھل کر کام کرنے کے قابل نہیں ہو پائی۔ گٹھ جوڑ کی حکومتوں میں یہی ہوتا ہے۔ فریقین کے مفادات آپس میں اِتنے ٹکراتے ہیں کہ وہ لاکھ کوشش پر بھی مثبت اور تعمیری انداز سے کچھ نہیں کر پاتے۔ سارا زور اپنے اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے پر ہوتا ہے۔ ایسے میں عوام کے لیے سوچنے کی فرصت کسے ملتی ہے؟
جو سٹیک ہولڈرز بنے پھرتے ہیں اُنہیں مل بیٹھ کر کچھ ملک و قوم کا بھی سوچنا چاہیے۔ صرف اپنی اپنی جیبیں بھرنے کا عمل کب تک جاری رہے گا؟ یہ ''ٹرینڈ‘‘ کب تک برداشت کیا جاسکتا ہے؟ لازم ہوچکا ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے عملی سطح پر کچھ کیا جائے۔ تمام معاملات کا حتمی بوجھ عوام تک منتقل نہیں کیا جانا چاہیے۔ جن کے پاس بہت کچھ ہے اُن سے وصولی کی جائے اور آمدن سے زائد اثاثے بنانے والے سرکاری ملازمین و افسران کا کڑا محاسبہ کیا جائے۔ کاروباری دنیا کے ٹیکس چوروں کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے تو کرپشن کے ذریعے پلازے کھڑے کرنے والے سرکاری ملازمین کو بھی نہ بخشا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں