کمانے کے لیے بہت کچھ سوچنا اور کرنا پڑتا ہے مگر خرچ کرنے کے معاملے میں لوگ زیادہ سمجھ داری کا ثبوت نہیں دیتے۔ عام آدمی کا حال یہ ہے کہ انتہائی محنت سے کمائے ہوئے پیسوں کو جب خرچ کرنے بیٹھتا ہے تو عقل کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ اُس کی کوشش بظاہر‘ صرف یہ ہوتی ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو، تھوڑی سی آمدن کو بھی ٹھکانے لگادیا جائے۔ ذہنوں میں یہ نکتہ غلط تصور کے ساتھ ٹھونک دیا گیا ہے کہ قدرت عطا کر رہی ہے تو کھلے ہاتھوں سے خرچ کرو۔ بے شک قدرت عطا کر رہی ہے مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جو کچھ آپ کے پاس ہے اُسے سوچے سمجھے بغیر ٹھکانے لگادیا جائے۔ دانش اور حکمت کا تقاضا ہے کہ جتنی محنت کمانے کے لیے کرنا پڑتی ہے‘ اُتنی ہی محنت سے محنت کی کمائی کو خرچ کیا جائے۔
ایک زمانہ تھا کہ ہمارے ہاں چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا ایک تابندہ روایت کا درجہ رکھتا تھا۔ لوگ اپنے وسائل کی حدود میں رہتے ہوئے زندگی بسر کرتے تھے۔ یہی ڈھنگ سے جینے کا معقول ترین طریقہ تھا اور ہے۔ اپنے وسائل کی حدود میں رہتے ہوئے جینا ہی انسان کی ذہنی حالت درست رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ معاشرتی سطح پر بہت کچھ درست رکھنے میں اِسی وصف کا اہم حصہ ہے۔ ڈھائی‘ تین عشرے پہلے تک پاکستان بھر میں لوگ ایسی زندگی بسر کرتے تھے جس میں وسائل سے ہٹ کر اور بڑھ کر خرچ کرنے کے رجحان کی حوصلہ افزائی کرنے والے بہت کم تھے۔ اگر 1950ء سے 1970ء تک کی دہائیوں کے دوران ملک میں عمومی زندگی کا جائزہ لیں تو یہ دیکھ کر حیرت ہوگی کہ تب لوگ ایسی معیاری زندگی بسر کرتے تھے جس میں کوئی بھی معاملہ اپنی حد سے نکلتا دکھائی نہ دیتا تھا۔ معیاری زندگی یہی تو ہوتی ہے کہ تمام معاملات اپنی اپنی منطقی حدود میں رہیں اور کوئی بھی معاملہ کسی دوسرے معاملے پر بے جا اثر انداز نہ ہو۔ بزرگ ہمیں چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے کی تاکید اس لیے کرتے آئے ہیں کہ اِسی صورت زندگی ڈھنگ سے گزاری جاسکتی ہے۔ کوئی بھی انسان جب اپنے وسائل کی حدود سے باہر قدم رکھتا ہے تو زندگی غیر متوازن ہونے لگتی ہے۔ کسی بھی ماحول میں شدید عدم توازن سے دوچار لوگوں کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ جب وسائل کی حدود کو نظر انداز کرکے بلا جواز طور پر اخراجات بڑھائے جاتے ہیں تب معاملات غیر متوازن ہونے لگتے ہیں۔ ایسے میں سب سے زیادہ متاثر وہ معاملات ہوتے ہیں جو عدمِ توجہ برداشت کر ہی نہیں سکتے۔ غیر ضروری اخراجات کی چوکھٹ پر اہم معاملات کو قربان کرنے کی صورت میں ہم اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارتے ہیں۔ ہمارے ہاں لوگ ایک مدت سے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارتے آئے ہیں۔
چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا وقت کی قید سے آزاد تصور ہے۔ یہ ابدی حقیقت ہے۔ ہر عہد میں وہی لوگ پُرسکون زندگی بسر کرتے پائے گئے ہیں جنہوں نے چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے کی حکمتِ عملی اپنائی۔ یہ حکمتِ عملی خود بخود زندگی کا حصہ نہیں بنتی۔ اس کے لیے والدین اور خاندان کے بزرگوں کو بچوں کی خصوصی تربیت پر دھیان دینا پڑتا ہے۔ بچوں میں بہت سے اوصافِ حمیدہ پیدا کرنا پڑتے ہیں۔ اگر اُن کی تربیت پر مطلوب حد تک توجہ نہ دی جائے تو بہت سی خراب عادات پروان چڑھتی جاتی ہیں۔ بچے ناسمجھ ہونے کی بنیاد پر بہت سی خرابیوں کو اپناتے چلے جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں بچے خرچ کرنے کے معاملے میں قدرے بے لگام ہوتے جاتے ہیں۔ اگر بڑے اُن پر توجہ نہ دیں تو وہ فضول خرچی کے عادی ہو جاتے ہیں۔ اس حوالے سے تربیت سکول کی سطح پر دی جانی چاہیے۔ بچے سکول میں اور اُس کے باہر بہت سی چیزیں خریدتے ہیں۔ یہ خریداری معقولیت کے دائرے میں ہو ٹھیک وگرنہ زندگی کے لیے روگ بننے میں دیر نہیں لگاتی۔ ہمارے معاشرے کو اس وقت غیر معمولی نوعیت کے کنزیومر اِزم نے گھیر رکھا ہے۔ کنزیومر اِزم یعنی صَرف کا رجحان۔ اور صرف بھی وہ جسے صرف نامعقولیت سے عبارت کیا جاسکتا ہے۔ پاکستانی میں گردشِ زر کی رفتار ہمیشہ تیز رہی ہے اور اب بھی ایسا ہی ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ گردشِ زر کی رفتار زیادہ ہونے سے معاشرے میں روزگار کی سطح بلند رہتی ہے اور جو لوگ محنت کریں وہ نمایاں حد تک کمانے لگتے ہیں۔ یہ سب کچھ اچھا‘ مگر مسئلہ یہ ہے کہ لوگ جتنی تیزی سے کماتے ہیں اُتنی ہی تیزی سے خرچ بھی کرتے ہیں۔ معیاری انداز سے خرچ کرنے کی صورت میں انسان کو بہت کچھ ایسا ملتا ہے جو اُس کے معیارِ زندگی کو بلند کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ سرِدست ہمارا ایک بڑا اور بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ قوم صَرفِ بے جا کی دلدل میں دھنسی ہوئی ہے۔ مجموعی قومی مزاج یہ ہے کہ جو کچھ بھی کمایا جائے وہ تیزی سے خرچ کردیا جائے۔ اس نوعیت کے خرچ میں ذہن تو کام کرتا نہیں اس لیے نتیجتاً معاملات درست ہونے میں نہیں آتے۔ ہمارے معاشرے کو جو کام بہت تیزی اور عمدگی سے کرنے ہیں اُن میں بے جا صَرف کے رجحان پر قابو پانا بھی شامل ہے۔ غیر معمولی کنزیومر اِزم نے معاشرے کے ہر طبقے کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ مالدار طبقہ تو خیر معاملات کو کسی نہ کسی طور بڑے بگاڑ سے بچانے میں کامیاب ہو جاتا ہے مگر زیریں متوسط اور غریب طبقے کا حال بہت بُرا ہے۔ پست معیار کی زندگی بسر کرنے والوں کے لیے لازم ہے کہ جو کچھ کمائیں اُسے ذہانت کے ساتھ استعمال کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ ضرورتیں پوری ہوں اور معیارِ زندگی بلند ہو۔
کنزیومر اِزم کا ایسا غلغلہ ہے کہ اب وہ چادر ہی ناپید ہے بزرگ جسے دیکھ کر پاؤں پھیلانے کی ہدایت کیا کرتے تھے! آج ہمارے معاشرے میں ہر طرف لوگ محض خرچ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ کئی عشروں کے دوران پنپنے والی عادت نے اب خطرناک انداز اختیار کیا ہوا ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ کنزیومر اِزم ویسے تو ڈھائی‘ تین عشروں کے دوران پروان چڑھا مگر اب اِسے پروان چڑھانے میں روپے کی قوتِ خرید میں تواتر سے رونما ہونے والی کمی نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ عام آدمی مہنگائی کا عالم دیکھ دیکھ کر حیران و پریشان ہے۔ قیمتیں اب بڑھنے کے لیے مہینوں یا ہفتوں کا انتظار نہیں کرتیں بلکہ روز بروز بڑھتی جاتی ہیں۔ ایسے میں لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ جو کچھ بھی کمایا جائے اُسے تیزی سے خرچ کرلیا جائے تاکہ بڑھتی قیمتوں کے نتیجے میں قوتِ خرید میں رونما ہونے والی کمی کے اثرات سے بچا جاسکے۔ یہ سوچ ہر نئے دن کے ساتھ پختہ تر ہوتی جارہی ہے۔ بدلتا ہوا وقت ہم سے بہت کچھ چاہتا ہے۔ ہمیں اپنے تمام معمولات اور عادات کا جائزہ لے کر ایسی طرزِ زندگی اپنانی ہے جس میں بیشتر معاملات معقولیت کی حدود میں ہوں۔ زندگی کی بدلتی ہوئی تصویر ہم سے پوری توجہ چاہتی ہے۔ ایسا بہت کچھ ہے جو کل تک ناگزیر سمجھا جاتا تھا اب اُس کی اہمیت برائے نام رہ گئی ہے۔ ہمیں اپنے معمولات، مزاج اور حالات کا جائزہ لے کر اندازہ لگانا ہے کہ کون سے معاملات ہمارے لیے بہت اہم ہیں اور کن معاملات پر سرسری سی توجہ بھی کافی ہوگی۔ ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیاں ہر انسان سے کچھ نہ کچھ سوچنے اور اپنے آپ کو بدلنے کا تقاضا کرتی ہیں۔ آج کا ہمارا معاشرہ بے جا صَرف کی دلدل میں یوں دھنسا ہوا ہے کہ ہم معیاری انداز سے جینے کے قابل نہیں ہو پارہے۔ زندگی محض کمانے اور خرچ کرنے کا نام نہیں۔ اِن دو معمولات سے ہٹ کر بھی بہت کچھ ہے جو ہمیں معیاری زندگی کی طرف لے جاسکتا ہے۔ معیاری زندگی کیا ہے اِس کا جواب ہر انسان مختلف طریق سے دیتا ہے کیونکہ سب کی اپنی اپنی ترجیحات ہیں۔ پھر بھی چند بنیادی باتوں کا دھیان رکھنے سے ہم معیاری زندگی کا تعین کرسکتے ہیں۔ انسان جو کچھ بھی کماتا ہے اُسے بہت سوچ سمجھ کر خرچ کرنا چاہیے۔ سوچے سمجھے بغیر اپنی کمائی کو ٹھکانے لگانے سے ہم اپنے حالات بہتر بنانے میں زیادہ کامیاب نہیں ہوسکتے۔ خرچ کے معاملے میں اعتدال کی روش پر گامزن ہونے کے لیے ہمیں وہ چادر تلاش کرنا ہوگی جسے دیکھ کر پاؤں پھیلانے کی تاکید کی جاتی رہی ہے۔ کنزیومر اِزم کی چوکھٹ پر تمام معاملات، تمام اقدار کو قربان نہیں کیا جاسکتا۔