"MIK" (space) message & send to 7575

آپ کا وجود کہاں رہ گیا؟

ہم زندگی بھر معمولات کے غلام رہتے ہیں۔ بہت کچھ ایسا ہے جو کرنا ہی ہے۔ کچھ کرنا لازم ہو تب بھی اُس کی غلامی اختیار کرنا کسی بھی درجے میں لازم نہیں۔ معمولات معاشی ہوں یا معاشرتی، اگر اُنہیں ذہن و دل پر مسلّط کرلیا جائے تو صرف خرابی پیدا ہوتی ہے۔ معمولات کے پنجرے میں قید ہوکر ہم زندگی کا حسن غارت کر بیٹھتے ہیں۔ معمول سے ہٹ کر بھی جیا جاسکتا ہے۔ لازم نہیں کہ زندگی کا پورا ڈھانچا ہی تبدیل ہو تو ہمیں کچھ راحت ملے۔ زندگی کا حسن بہت حد تک اِس امر سے مشروط ہے کہ ہم لگی بندھی زندگی چھوڑ کر ایسی طرزِ حیات اپنائیں جس میں معمول یا معمولات سے ہٹ کر بھی کچھ کرنا ممکن ہو۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ جو کچھ آپ کہتے اور کرتے ہیں اُس سے ہٹ کر بھی زندگی ہے؟ زندگی کے بہت سے رنگ ہیں اور ہم زندگی کے رنگوں کی تعداد بڑھا بھی سکتے ہیں۔ ایک بڑی الجھن یہ ہے کہ ہم چند ہی رنگوں تک خود کو محدود رکھتے ہیں۔ یوں محدود ہوکر جینے میں کچھ مزہ نہیں۔ زندگی کا اصل لطف تنوع میں ہے۔ یکسانیت ہمیں بیزار کرتی ہے۔
اپنے معمولات کا جائزہ لیجیے۔ کیا آپ اِن معمولات سے ہٹ کر کچھ کرنے کا سوچتے ہیں؟ اگر نہیں‘ تو اِس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ آپ نے طے کرلیا ہے کہ ایک خاص ڈھب کے ساتھ جینا ہے، خود کو چند حدود و قیود میں رکھنا ہے۔ ایسی حالت میں زندگی متنوع نہیں ہو پاتی۔ ہو ہی نہیں سکتی! بہت کچھ ہے جو ہمیں ہر حال میں کرنا ہے۔ اِس حوالے سے ہم مجبور ہیں مگر بہت کچھ ایسا بھی ہے جو ہماری توجہ کا منتظر رہتا ہے۔ ہماری زندگی کے بہت سے پہلو عدمِ توجہ سے تشنہ رہ جاتے ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ انسان چند معمولات کا غلام ہو رہے اور بعض ایسے مشاغل کو نظر انداز کردے جو اُس کی طبیعت اور مزاج سے مناسبت رکھتے ہوں؟ کہنے کو تو ایسا ممکن ہے مگر در حقیقت ممکن نہیں۔ جب بھی کسی معاملے کو لاپروائی یا عدمِ توجہ کی نذر کیا جاتا ہے تب صرف خرابی اور پیچیدگی پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً اگر کسی کو کرکٹ کھیلنے کا شوق ہو اور وہ گھریلو ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے ہی میں لگا رہے اور اپنے شوق کو پورا کرنے میں ناکام رہے تو معاملات الجھتے ہیں۔ کوئی بھی مشغلہ محض دل بہلانے کے لیے ہوتا ہے‘ کمانے کے لیے نہیں۔ دل بہلانے والی سرگرمیاں ہماری کمانے کی صلاحیت کو پروان چڑھاتی ہیں۔ مشاغل کے لیے کسی بھی طور تھوڑا بہت وقت نکالنا پڑتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو دل میں کسک سی رہ جاتی ہے جو بہت پریشان کرتی ہے۔ ہمارا ایک بڑا مسئلہ یہی تو ہے کہ زندگی کی ہماہمی یعنی کمانے کی فکر میں ہم ایسی تمام سرگرمیوں کو نظر انداز کردیتے ہیں جو طبیعت کو فرحاں و شاداں کرکے کمانے کے عمل کو بہتر بنانے میں غیر معمولی معاونت کرتی ہیں۔
آپ کبھی اپنے آپ کو میسر ہوتے ہیں؟ بیشتر کا معاملہ یہ ہے کہ اپنے ماحول اور باقی دنیا میں گم ہوکر اپنے ہی وجود کو بھول جاتے ہیں۔ کئی زمانے گزر جانے پر جب یاد آتا ہے کہ اپنے آپ کو بھی یاد رکھنا تھا‘ تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ اپنے آپ کو میسر ہونا بھی زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔ بھری دنیا میں اب ایسے افراد خال خال ہیں جو اپنے لیے پوری پابندی اور تیاری سے وقت نکالتے ہوں، اپنے بارے میں سوچتے ہوں اور اپنی زندگی کے خاکے میں کچھ رنگوں کا اضافہ کرنے کے حوالے سے سنجیدگی اختیار کرتے ہوں۔ اب کم و بیش ہر معاشرے میں اکثریت اُن کی ہے جو کسی نہ کسی طور جیے جاتے ہیں مگر اپنے وجود کو مستحکم کرنے کے پہلو پر متوجہ نہیں ہوتے۔ اِس روش پر گامزن رہنے ہی سے زندگی کا توازن بگڑتا ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے یہ امر پسندیدہ نہیں کہ اپنے وجود کو نظر انداز کرے۔ انسان کے لیے جو کچھ بھی ہے وہ اُس کے اپنے وجود کے دم سے ہے۔ اپنے وجود کو نظر انداز کرنا شدید زیادتی ہے کیونکہ ایسا کرنے سے کوئی بھی معاملہ اپنی اصل ڈگر پر نہیں رہ پاتا، سب کچھ الجھ کر رہ جاتا ہے۔ یاد کیجیے کہ آپ نے چند برسوں کے دوران کب ایک آدھ گھنٹے تک تنہائی میں بیٹھ کر اپنے وجود پر غور کیا تھا؟ ذہن پر زور دیجیے، یاد کیجیے کہ اپنے وجود کو ترجیح دینے کا مرحلہ آخری بار آپ کی زندگی میں کب آیا تھا؟ کسی بھی معاشرے میں واضح اکثریت اُن کی ہے جو اپنے وجود کو ترجیح دینے کے قائل نہیں۔ متعلقین کی فکر دل و دماغ پر مسلّط رہتی ہے۔ یہ بھی ضروری ہے۔ انسان پر جن کی کفالت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اُن کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ناگزیر ہے مگر ساتھ ہی ساتھ اپنے وجود کو بھی یاد رکھنا ہے۔ انسان کا اپنے وجود پر بھی حق بنتا ہے۔ متعلقین کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا جتنا ضروری ہے اُتنا ہی اپنے وجود پر متوجہ ہونا لازم ہے۔
اپنے وجود پر متوجہ ہونے کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں۔ اپنے آپ کو اَپ گریڈ کرنا پڑتا ہے۔ معیاری زندگی بسر کرنا اُسی وقت ممکن ہو پاتا ہے جب کوئی اپنے وجود کو پروان چڑھانے والی سرگرمیوں میں خاطر خواہ دلچسپی لینے کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں وہی لوگ زیادہ کامیابی اور حقیقی شادمانی سے مزین زندگی بسر کرتے ہیں جو اپنی شخصیت کو پروان چڑھانے والے مشاغل کو نہ صرف یہ کہ نظر انداز نہیں کرتے بلکہ اُن کا پورا خیال رکھتے ہیں۔ آج کی ہنگامہ خیز و طوفان پرور طرزِ زندگی نے انسان کو الجھادیا ہے۔ ذہن مختلف امور سے بھرے رہتے ہیں۔ بکھیڑے اتنے زیادہ ہیں کہ انسان چاہتے ہوئے بھی اُن سے مکمل نجات پانے میں اکثر ناکام رہتا ہے۔ ذہن مختلف الجھنوں کی آماجگاہ بن کر رہ گئے ہیں۔ ایسے میں انسان اپنے لیے وقت کیسے نکالے؟ یہ بہت بڑا مایا جال ہے۔ بکھیڑوں میں گم ہوکر اپنے وجود کو نظر انداز کردینا عام بات ہے۔ اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ ہمیں کچھ ملے اور قیمت نہ دینا پڑے یا ہم اپنے حصے کا کام نہ کر پائیں اور اُس کا نتیجہ نہ بھگتنا پڑے۔
دل و دماغ کو سکون بخشنے والے مشاغل پر متوجہ ہونا لازم ہے۔ دل و دماغ کا سکون و استحکام یقینی بنانے کی صورت ہی میں زندگی میں توازن پیدا ہوتا ہے اور ہم ڈھنگ سے جینے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ ڈھنگ سے جینا یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لاتے ہوئے مادّی وسائل کا حصول یقینی بنائے اور اپنے لیے بھی وقت نکالے تاکہ باطن کی پرورش یقینی ہو۔ کسی بھی انسان کے لیے اُس کا باطن اُس کی حقیقی دولت ہے۔ متعلقین کا خیال رکھنا، اُن کی ضرورتیں پوری کرنا فرض کے درجے میں ہے مگر اپنے وجود کا خیال رکھنا بھی اسی درجے میں آتا ہے۔ حقیقی معنوں میں دوسروں کا خیال رکھنے کے قابل ہونا اُسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنے وجود کو کماحقہٗ پروان چڑھائیں، اُس کی ضرورتوں کا پورا خیال رکھیں۔
آج کے معاشرتی ڈھانچے پر اُچٹتی سی نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ ہم زندگی جیسی نعمت کو بہت سے فضول معاملات میں ضائع کر رہے ہیں۔ آج معاشرے میں ہر طرف لایعنی نوعیت کے معاملات ہیں جن سے دامن چھڑائے بغیر زندگی کا معیار بلند کرنا ممکن نہیں۔ لوگ فضول معمولات کے اسیر ہیں اور دوسروں کو بھی ایسی ہی حالت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ تماشا دل و دماغ میں ہلچل مچانے والا ہے اور ہلچل بھی ایسی کہ ختم ہونے کا نام نہ لے۔ آج کی ہنگامہ خیز زندگی ایک طرف تو ہمارے پورے وجود کو لایعنی معاملات میں الجھانے پر تُلی ہوئی ہے اور دوسری طرف اُن تمام مشاغل کی اہمیت بڑھ گئی ہے جو ہمیں اِس پست معمول و ماحول سے نکال کر بامعنی اور بامقصد زندگی کی طرف لے جائیں، شخصیت کو اَپ گریڈ کرنے میں مدد کریں۔ اپنے معاشی و معاشرتی معمولات کا جائزہ لیجیے۔ کہیں آپ بھی تو پست درجے کے معاملات کی غلامی اختیار نہیں کرچکے؟ کہیں آپ بھی اپنے وجود کو نظر انداز کرکے مطمئن تو نہیں؟ اگر ایسا ہے تو اپنی خبر لیجیے۔ اپنے لیے وقت نکالیے، اپنے مشاغل کو یوں پروان چڑھائیے کہ طبیعت باغ و بہار رہے۔ اِسی سے زندگی کا معیار بلند ہوتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں