"MIK" (space) message & send to 7575

سوچنا تو ہم بھول ہی گئے ہیں

انسان واحد جاندار ہے جو منظم انداز سے سوچنا جانتا ہے۔ سوال صرف جاننے کا نہیں‘ سوچنے کا ہے۔ ہم میں سے بہت سے ہیں جنہیں بہت سے کام آتے ہیں مگر کام وہ کرتے ہی نہیں۔ کسی بھی کام کو جاننا اور بات ہے اور کام کرنا اور بات۔ آپ کو اپنے گرد ایسے کئی لوگ ملیں گے جو تھوڑی بہت مہارت کا حامل ہونے کے باوجود اپنا وقت فضول باتوں اور لاحاصل سرگرمیوں میں کھپادیتے ہیں مگر کام کے معاملے میں سنجیدہ ہونے کا نہیں سوچتے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ سوچنے کے بارے میں ذرا بھی نہیں سوچا جاتا۔
یہ بات کسی بھی انسان کے لیے شرم ناک ہے کہ سوچے سمجھے بغیر زندگی بسر کرے۔ انسان کو سوچنے کی صلاحیت عطا کی گئی ہے۔ وہ اس معاملے میں یکسر انفرادیت کا حامل ہے۔ ایسے میں اگر کوئی نہ سوچے تو؟ اِسے محض کفرانِ نعمت ہی سمجھا جائے گا۔ سوچنے کی انفرادیت سے مالا مال ہونے کی بنیاد پر انسان بہت کچھ کرتا آیا ہے اور بہت کچھ کرسکتا ہے۔ سوچنے کا عمل ہی اُسے کائنات میں ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے انسان کو سوچنے کی انفرادی صفت عطا فرمائی اور ساتھ ہی سوچنے‘ غور کرنے کا حکم بھی دیا۔ کائنات اس لیے ہے کہ اُس پر غور و تفکر کیا جائے، اُس کے بارے میں سوچا جائے، اُس کا حسن بڑھانے پر توجہ دی جائے اور اپنے حصے کے عمل سے جی چرانے کے بجائے آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کیا جائے۔
اس نکتے پر کم ہی لوگ غور کرتے ہیں کہ بروئے کار نہ لانے کی صورت میں ہر صفت رفتہ رفتہ ناکارہ ہوتی جاتی ہے۔ نہ سوچنے کی صورت میں ذہن کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہوتا ہے۔ جو لوگ سوچنے کی طرف متوجہ نہیں ہوتے وہ رفتہ رفتہ اپنے ذہن کی اس منفرد صلاحیت سے ہاتھ دھوتے جاتے ہیں۔ کسی بھی ماحول میں ایسے لوگوں کو تلاش کرنا زیادہ مشکل نہیں جو خالص مشینی انداز سے زندگی بسر کرتے ہیں یعنی سوچنے پر مائل نہیں ہوتے اور ہر معاملے میں ایک لگی بندھی ڈگر پر چلتے رہتے ہیں۔ قدرت نے انسان کو بہت سی ایسی صلاحیتوں سے نوازا ہے جن کا اُسے خود بھی کچھ خاص اندازہ نہیں ہے۔ اب اسی بات کو لیجیے کہ سوچے سمجھے بغیر جینے کی صورت میں بھی انسان اپنے معمولات جاری رکھ سکتا ہے! آپ سوچیں گے سوچے بغیر کوئی کیسے زندہ رہ سکتا ہے۔ کیسے نہیں رہ سکتا؟ ذرا اپنے ماحول پر ایک اُچٹتی سی نظر ڈالیے، ذرا سی دیر میں اندازہ ہو جائے گا کہ ماحول میں اکثریت اُن کی ہے جو خالص حیوانی سطح پر یعنی میکانیکی انداز سے جی رہے ہیں۔ اُن کے لیے زندگی صرف اس بات کا نام ہے کہ صبح ہو‘ وہ بیدار ہوں، کھائیں پئیں، کام کریں اور تھک کے سو جائیں۔ اِن چند معمولات کو زندگی کا نام دے کر وہ یوں مطمئن رہتے ہیں گویا ایک دنیا اپنی مٹھی میں کرلی ہو۔ عام آدمی کا یہی المیہ ہے۔ وہ دن رات خالص میکانیکی انداز سے جیتا ہے اور کبھی اس نکتے پر غور نہیں کرتا کہ سوچنے ہی سے تو زندگی کا حسن دوبالا ہوتا ہے۔ جس نے سوچنا سیکھا اُس نے اپنے لیے ایک نئی کائنات دریافت کی۔ یہ کائنات اُن کے لیے ہے جو سوچنا جانتے ہی نہیں‘ سوچنا چاہتے بھی ہیں۔ آپ ایسے لوگوں کو خاصی آسانی اور دور سے شناخت کرسکتے ہیں۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی قصداً سوچنے سے روگردانی کرے مگر خیالات اُس کے ذہن کا رُخ کر لیں؟ ایسا تو ہوتا بلکہ ہوتا رہتا ہے۔ ذہن میں خیالات پنپتے رہتے ہیں۔ جب بھی ہم کچھ دیکھتے یا سنتے ہیں تب ذہن میں کچھ نہ کچھ ہلچل ضرور ہوتی ہے۔ یہ ہلچل کسی نہ کسی خیال کی شکل اختیار کرتی ہے۔ کئی خیال مل کر باضابطہ سوچ کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ یکساں نوعیت کے اور متعلقہ سوچ جمع ہوکر کسی بھی معاملے میں ہمارا موقف تشکیل دیتی ہے۔ یہ موقف ہی ہماری شخصیت کا بہترین تعارف کراتا ہے۔ ذہن میں خیالات کا پیدا ہونا حیرت انگیز امر نہیں۔ خیالات خود بخود پیدا ہوتے ہیں اور توجہ نہ ملنے پر ضائع ہو جاتے ہیں۔ جب ہم سوچنے پر مائل ہوتے ہیں یعنی ذہن کے پردے پر ابھرنے والے تصورات پر متوجہ ہوکر انہیں ترتیب دیتے ہیں تب وہ خیالات کی شکل اختیار کرکے ہمارے لیے کام کے ثابت ہوتے ہیں۔
جو لوگ سوچنے پر بالکل توجہ نہیں دیتے وہ اگر تھوڑی سی توجہ دیں تو اندازہ ہوگا کہ ذہن میں دن بھر بہت سے خیالات ابھرتے اور ڈوبتے ہیں۔ کبھی کبھی طبیعت رواں ہونے کی صورت میں خیالات تیزی سے ابھرتے ہیں اور ہماری فوری توجہ چاہتے ہیں۔ جب کوئی بات ہماری توجہ چاہتی ہے تب متوجہ ہونے کی صورت میں ذہن جِلا پاتا ہے، نیا سوچنے پر مائل ہوتا ہے اور یوں ذہن کی کارکردگی سے بہتر طور پر مستفید ہونے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ ذہن سبھی کا کام کرتا ہے۔ جو اپنے ذہن کی آواز سنتا ہے وہ بہتر اور مربوط خیالات کی طرف تیزی سے بڑھتا ہے۔ ذہن پر متوجہ ہونے کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں۔ جب ذہن کے پردے پر چند تصورات تیزی سے ابھر رہے ہوں تب تھوڑی دیر کے لیے گوشہ نشینی اختیار کرنے میں کچھ حرج نہیں۔ پُرسکون حالت میں ایک طرف بیٹھ کر سوچنے سے ذہن مزید عمدہ خیالات پیدا کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ اگر خیالات تیزی سے وارد ہو رہے ہوں تو اُنہیں نوٹ کرنے ہی میں دانش مندی ہے۔ ہم دن بھر ایسے بہت سے خیالات سے بہرہ مند ہوتے ہیں جو ہماری توجہ چاہتے ہیں۔ ڈائری میں یہ تمام خیالات نوٹ کرنے سے ذہن کو بہتر انداز سے کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ڈائری میں درج کیے جانے والے خیالات پر بار بار نظر دوڑانے سے ذہن کو بہت کچھ نیا سوچنے کا بھی موقع ملتا ہے۔
کسی بھی کامیاب انسان کے معمولات کا جائزہ لیجیے تو معلوم ہوگا کہ وہ سوچتا بھی ہے اور خیالات کو ڈائری میں محفوظ کرنے کا اہتمام بھی کرتا ہے۔ خیالات آتے رہتے ہیں۔ ذہن کبھی آرام نہیں کرتا۔ بیداری کی حالت میں ذہن کے پردے پر کچھ نہ کچھ ابھرتا رہتا ہے۔ ہم جو کچھ دیکھتے اور سنتے ہیں اُس کے نتیجے میں بہت کچھ ہمارے ذہن کے پردے پر ردِعمل کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ جنہیں کامیاب ہونا ہو، کچھ کر دکھانا ہو وہ سوچنے پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اِس دنیا میں وہی کچھ کر پایا ہے جس نے ڈھنگ سے سوچنا اور خیالات کو محفوظ کرنا سیکھا ہے۔ عام آدمی کے ذہن میں یہ تصور گھر کرگیا ہے کہ باضابطہ سوچنا ہر انسان کا معاملہ نہیں، یہ صرف پڑھے لکھے لوگوں کا یا پھر اُن کا معاملہ ہے جن کا تعلق سوچنے کے شعبے سے ہو۔ ایسا نہیں ہے! سوچنا ہر انسان کے لیے ناگزیر ہے۔ سوچنا اور لکھنا ہر انسان کے لیے ایک بنیادی ضرورت کا درجہ رکھتا ہے۔ کوئی اگر اس حقیقت کو نظر انداز کرے تو اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ ہر دور کے انسان کو سوچنے اور لکھنے، پڑھنے کی ضرورت پیش آتی رہی ہے۔ کسی بھی دور کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ وہی لوگ کامیاب ہوئے جنہوں نے علوم و فنون میں پیش رفت یقینی بنائی۔ یہ پیش رفت سوچنے، لکھنے اور پڑھنے پڑھانے کے مراحل سے گزرے بغیر ممکن نہیں۔ آج بھی وہی لوگ کامیاب ہیں جو سوچنا محض جانتے ہی نہیں بلکہ سوچتے بھی ہیں۔ آج ایسا بہت کچھ ایجاد ہوچکا ہے جو انسان کو قدم قدم پر آسانیوں سے ہم کنار رکھتا ہے مگر اِن آسانیوں سے بھی کماحقہٗ استفادہ وہی لوگ کر پاتے ہیں جو سوچنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
ذہن صرف بڑھنا جانتا ہے، پیچھے ہٹنا اُس کی فطرت نہیں۔ اولیور وینڈل ہومز نے خوب کہا ہے کہ کسی نئے خیال کی بدولت وسعت پانے والا ذہن اپنی پچھلی پوزیشن دوبارہ حاصل نہیں کر پاتا۔ جنہیں کامیاب ہونا ہے وہ جانتے ہیں کہ ذہن کو آگے لے کر جانا ہے۔ اِس کے لیے سوچنا لازم ہے۔ افسوس کہ آج ہم سوچنا تو جیسے بھول ہی گئے ہیں۔ اور یہ بھی بھول گئے ہیں کہ سوچنا بہر کیف ناگزیر ہے! یہ دنیا آج جہاں دکھائی دے رہی ہے وہاں یہ صرف اور صرف سوچنے کی صلاحیت کی بدولت پہنچی ہے۔ آگے بڑھنا ہے تو سوچنا ہوگا۔ سوچنا یعنی عصری علوم و فنون میں غیر معمولی بلکہ قابلِ رشک پیش رفت یقینی بنانا۔ سوچنے کی صلاحیت کو پروان چڑھائے بغیر، اُس سے کماحقہٗ استفادہ کیے بغیر ہم کسی بھی طور آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ترقی یافتہ دنیا اس معاملے میں سب سے بڑی مثال اور تحریک کا درجہ رکھتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں