ایک زمانہ تھا جب انسان اپنے آپ کو کچھ نہ کچھ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کرتا تھا۔ اس کوشش سے استثنا کسی کو حاصل نہ تھا۔ تب سوال یہ تھا کہ انسان کیا ہے۔ آج سوال یہ ہے کہ انسان کیا نہیں ہے۔ آج کے انسان کو بیک وقت اِتنے محاذوں پر لڑنا پڑتا ہے کہ وہ کسی ایک محاذ کا حق ادا کرنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ چومُکھی لڑائی کے بارے میں تو آپ نے سنا ہی ہوگا یعنی چاروں طرف لڑنا۔ اب چار طرف سے نہیں بلکہ دس سمتوں سے حملے ہو رہے ہیں۔ دس سمتیں یعنی مشرق، مغرب، شمال، جنوب، شمال مشرق، شمال مغرب، جنوب مشرق، جنوب مغرب، نیچے اور اوپر! انسان کیا کیا دیکھے، کہاں تک دیکھے؟ اِدھر دیکھیے تو اُدھر کا معاملہ ہاتھ سے نکلتا ہے۔ اُدھر دیکھیے تو اِدھر بگاڑ پیدا ہوتے دیر نہیں لگتی۔
اب ذہن ہی کو لیجیے۔ جب زندگی تیز نہیں تھی تب ذہن پر بوجھ بھی بہت کم تھا۔ یہ بالکل فطری امر تھا کیونکہ انسان کو زیادہ سوچنا نہیں پڑتا تھا۔ ہر طرف سے حملے نہیں ہو رہے تھے۔ ذہن نشانے پر نہیں تھا۔ وقت پر ڈاکا ڈالنے والے معاملات بہت کم تھے۔ دو‘ ڈھائی سو سال پہلے کا انسان قدرے پُرسکون زندگی بسر کرتا تھا کیونکہ زیادہ بھاگ دوڑ تھی ہی نہیں۔ ذہن قدم قدم پر الجھتا نہیں تھا۔ زندگی سادہ تھی۔ معمولات میں پیچیدگی نہیں تھی۔ بہت کچھ ایجاد نہیں ہوا تھا۔ ایجادات کی بھرمار نے زندگی کو تماشا نہیں بنایا تھا۔ جو کچھ تب تک ایجاد ہو پایا تھا وہ ذہن کو شدید الجھن سے دوچار کرنے والا ہرگز نہ تھا۔ انسان کا اپنے وقت اور وجود پر اچھا خاصا کنٹرول تھا۔ باطن کی دنیا بھی آباد تھی۔ خارج کے معاملات باطن پر زیادہ اثر انداز نہیں ہوتے تھے۔ اقدار کو برقرار رکھنا، اُن سے مستفید ہونا اور اُن کی وقعت بڑھانا بہت حد تک ممکن تھا۔
فی زمانہ ایسا نہیں ہے۔ اب ذہن الجھ کر رہ گیا ہے۔ ہر انسان کے لیے ذہن کی الجھن پر قابو پانا ایک مستقل نوعیت کا مسئلہ ہے۔ آج کا انسان بہت سے کردار ادا کر رہا ہے۔ اُسے اب کئی محاذوں پر لڑنا ہے اور ہر محاذ پر کسی نہ کسی حد تک جیتنا ہی ہے۔ آج کے انسان کا اہم ترین اور انتہائی بنیادی کردار منیجر کا ہے۔ زندگی اب قدم قدم پر مینجمنٹ مانگتی ہے۔ بیشتر معاملات نظم و نسق کا ایسا معیار چاہتے ہیں جس میں کہیں کوئی جھول نہ ہو یا اگر کوئی کمی ہو بھی تو ایسی معمولی کہ جسے پورا کرنا زیادہ مشکل نہ ہو۔ نظم و نسق یعنی سب کچھ اپنے اپنے مقام پر ہو۔ آج کے انسان کو بعض معاملات میں اداکار بھی بننا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی ''اِس کی ٹوپی اُس کے سر‘‘ والا معاملہ بھی درپیش ہوتا ہے۔ تب انسان کو ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ چاہے تو آنکھوں میں دُھول بھی جھونک سکتا ہے۔ آج کے انسان کا المیہ یہ ہے کہ اُسے نہ چاہتے ہوئے بھی ایسا بہت کچھ کرنا پڑتا ہے جو وہ کرنا نہیں چاہتا۔ بعض بُرائیوں سے بچنا لازم ہے مگر انسان اپنے آپ کو اُن بُرائیوں کی گرد میں اَٹنے سے نہیں روک پاتا۔
آج سب سے زیادہ یلغار ذہن پر ہو رہی ہے۔ عام آدمی کا ذہن اب کباڑ خانے کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ جو کچھ ماحول میں ہے وہ کسی نہ کسی راستے سے ذہن میں داخل ہوکر اُس پر اثر انداز ہوتا رہتا ہے۔ یہ عمل اس قدر تواتر سے واقع ہو رہا ہے کہ اب کوئی بھی انسان لاپروا رہنے کی عیاشی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ دماغ ہی سے تو انسان زندہ رہتا ہے۔ دماغ ہی باقی جسم کو کنٹرول کرتا ہے۔ جب ہم دماغ کو بہتر حالت میں نہیں چھوڑتے تب معاملات صرف الجھتے ہیں۔ اُنہیں سلجھانے کا ایک ہی طریقہ ہے‘ وہ یہ کہ دماغ کو ڈھنگ سے کام کرنے کے قابل چھوڑا جائے۔ دماغ درست حالت میں صرف اُس وقت رہ سکتا ہے جب اُس پر بہت زیادہ بوجھ نہ پڑے۔ دماغ ہی میں ذہن ہے جو ہمارے تمام معاملات کو کنٹرول کرتا ہے۔ دماغ گوشت کا لوتھڑا ہے جبکہ ذہن اُس لوتھڑے کا باطنی جُز ہے۔
انسان صاف ستھرے ماحول میں رہتا ہو، ہوادار کمرے میں پُرسکون نیند کے مزے لیتا ہو تو دماغ کو جِلا ملتی ہے اور یوں ذہن ڈھنگ سے کام کرنے کی حالت میں رہتا ہے۔ آج کے انسان کو باغبان کا کردار بھی ادا کرنا پڑتا ہے اور یہ کردار بھی مستقل نوعیت کا ہے۔ کسی بھی باغ کو حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ پودوں کی نگرانی کرنا پڑتی ہے۔ اُنہیں صرف کھاد اور پانی دے کر سُکون کا سانس نہیں لیا جاسکتا۔ لازم ہے کہ اُن کے ارد گرد اُگنے والی گھاس اور کانٹوں کا بھی خیال رکھا جائے۔ کسی بھی باغ میں بہت کچھ خود رَو ہوتا ہے یعنی خود بخود اُگ آتا ہے۔ اس عمل کو روکا نہیں جاسکتا‘ ہاں کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ جس گھاس اور پودوں کو خود بخود اُگنا ہے وہ تو اُگتے ہی رہیں گے۔ یہ فطرت کا معاملہ ہے۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ قدرت ہی نے خود رَو پودوں اور جھاڑ جھنکاڑ کو اُگنے کا حکم دیا ہے۔ اِس سیلاب کے سامنے بند ہمیں باندھنا ہے۔ ہمیں خیال رکھنا ہے کہ خود رَو پودوں اور کانٹوں سے باغ کا حسن غارت نہ ہو۔ بعض بیلیں محض خود بخود اُگتی ہی نہیں بلکہ اپنے ارد گرد موجود پودوں کو بھی برباد کر ڈالتی ہیں۔ اِسی طور پودوں کو صرف دُھوپ میں رکھنا لازم نہیں ہے بلکہ اُنہیں تیز، جھلسا دینے والی دُھوپ سے بچانا بھی پڑتا ہے۔ تیز بارش میں پودوں کو تباہی سے بچانا بھی ہماری ہی ذمہ داری ہے۔ یہ سب کچھ ناگزیر ہے۔
ذہن کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ذہن ایک باغ ہے اور ہم‘ آپ سب باغبان ہیں۔ یہ باغبانی ناگزیر ہے یعنی مرضی ہو یا نہ ہو‘ کرنا تو پڑے گی۔ ذہن بہت کچھ قبول کرتا رہتا ہے۔ جو کچھ ہم دیکھتے، سنتے، چھوتے، چکھتے اور سونگھتے ہیں وہ ذہن تک پہنچتا ہے اور فکری ساخت کا حصہ بنتا جاتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ فکری ساخت زیادہ متاثر نہ ہو یعنی ذہن میں ایسی فضول باتیں نہ ہوں جو سوچنے کے عمل کو شدید متاثر کریں تو ناگزیر ہے کہ ماحول سے صرف وہی قبول کیا جائے تو کام کا ہو یا ہم سے متعلق ہو۔ غیر متعلق معاملات کو دور ہی سے سلام کرنا دانش مندی کی علامت ہے۔ فضول معاملات ذہن کے باغ کے لیے خود رَو گھاس اور جھاڑ جھنکاڑ کی طرح ہوتے ہیں۔ توجہ نہ دی جائے تو گھاس بڑھتے بڑھتے باغ کے معیاری پودوں کو بھی لپیٹ میں لینے لگتی ہے اور یوں پورے باغ کا محض حسن ہی غارت نہیں ہوتا بلکہ وجود بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ پوری سنجیدگی سے سوچئے تو اندازہ ہوگا کہ فی زمانہ ذہن کو آزاد و بے لگام نہیں چھوڑا جاسکتا۔ زمانے بھر کی غیر متعلق باتیں اِس میں جمع ہو جائیں تو کام کی باتیں کونوں کھدروں میں دب کر رہ جاتی ہیں۔ ذہن فضول معاملات سے بھرا ہو تو بوقتِ ضرورت کام کی باتیں ابھر کر سامنے نہیں آ پاتیں اور انسان کسی اچھے موقع سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے ایک بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ وہ اپنی ذہنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے میں ناکام رہے، بالخصوص جب پیچیدگی اُس کی اپنی پیدا کردہ ہو۔
ذہن کو منتشر ہونے سے بچانے کی بہت سی صورتیں ممکن ہیں۔ ایک معقول صورت یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو منفی معاملات سے دور رکھے۔ تشدد والی کہانیوں پر مبنی فلمیں کم دیکھنی چاہئیں اور اگر ممکن ہو تو بالکل نہ دیکھی جائیں۔ فضول اور سطحی نوعیت کی کتابیں پڑھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ بالکل اِسی طور فضول صحبت اختیار کرنے سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ یاد رکھیے کہ ذہن کو منتشر ہونے سے بچانا اولین ترجیحات میں سرِ فہرست ہونا چاہیے۔ ہم وہی کچھ بنتے اور کرتے ہیں جو ذہن کے اندر پنپتا ہے۔ جنہیں کر دکھانا ہو وہ ذہن میں کوئی بھی فضول معاملہ داخل نہیں ہونے دیتے۔ باشعور حساس باغبان وہی ہے جو باغ کو گھاس پھوس اور کانٹوں سے بچائے۔ آپ بھی تو اپنے ذہن کے باغبان ہیں۔ اپنے باغ کو محفوظ رکھنے پر توجہ دیجیے۔ اِس سے پہلے کہ آپ سے ذہن کے معاملے میں حساب لیا جائے، ذہن کو بروئے کار لانے کے معاملے میں احتسابِ نفس کے مرحلے سے گزریے اور اپنے وجود کو ضیاع سے بچائیے۔ ذہن کو منتشر کرنے والے معاملات میں دلچسپی لینا اپنے وجود کو داؤ پر لگانا ہے۔