ایک طرف الزام تراشی اور خود کو بے قصور ثابت کرنے کی کوششوں کا سلسلہ ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا اور دوسری طرف معاشی بدحالی ہے کہ کسی مقام پر رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ اہلِ سیاست اب تک آپس میں بُری طرح الجھے ہوئے ہیں۔ سرکاری یا ریاستی مشینری اپنی جگہ ڈٹی ہوئی ہے۔ مفادات کا تصادم روز بروز سنگین سے سنگین تر شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ کوئی کچھ بھی کہے، کتنی ہی اُمید افزا باتیں کرے، حقیقت بدل نہیں سکتی اور اس وقت دل خراش زمینی حقیقت یہ ہے کہ ملک مسائل اور بحرانوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ سالِ رواں کے اوائل سے جو خرابی شروع ہوئی تھی وہ برقرار ہے۔ سائفر سے شروع ہونے والا سلسلہ حکومت کی تبدیلی پر ختم نہیں ہوا بلکہ خرابیوں کی زُلفِ دراز کا اسیر ہوتا چلا گیا ہے۔ آٹھ ماہ کے دوران ملک میں صرف خرابیوں نے ڈیرے ڈالے ہیں۔ معیشت کا جو حال ہے وہ اب عام پاکستانی محض سمجھ ہی نہیں رہا‘ جھیل بھی رہا ہے۔ عام آدمی تو خیر جیسے تیسے جی ہی لیتا ہے اور گزارے کی سطح پر جینے کا عادی ہوچکا ہے، حالات کی خرابی کے نتیجے میں سرمایہ کاروں، تاجروں اور صنعت کاروں کا بھی بُرا حال ہے۔ تاجر بھی خرابیوں سے دوچار ہیں؛ تاہم اصل مسائل تو صنعت کاروں کے لیے ہیں کیونکہ لاگت بڑھتی جارہی ہے۔ برآمدی تاجروں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بروقت شپمنٹ کا ہوتا ہے۔ بیرونی آرڈرز کی تکمیل میں تاخیر ہو تو معاملات ایسے بگڑتے ہیں کہ پھر سنورنے کا نام نہیں لیتے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کاروباری طبقہ کبھی کبھی غیر معمولی ایڈوانٹیج بھی لیتا ہے؛ تاہم یہ بھی ماننا پڑے گا کہ حالات کی خرابی اُنہیں کبھی کبھی شدید نقصان سے بھی دوچار کرتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ٹیکس چوری کا رجحان قوی سے قوی تر ہوتا جارہا ہے۔
اہلِ سیاست کی آپس کی لڑائی مفادات کے تصادم سے کہیں آگے جاکر اب ملک کے وجود ہی پر اثر انداز ہونے لگی ہے۔ انا پرستی نے معاملات کو خطرناک حد تک بگاڑ دیا ہے۔ حکومتوں کی تشکیل و تحلیل کو کھیل سمجھ لیا گیا ہے۔ کورونا کی وبا نے باقی دنیا کی طرح پاکستان کو بھی شدید مشکلات سے دوچار کیا تھا۔ اس عذاب سے جان چھوٹی تو سیلاب نے آلیا۔ سیلاب کے ہاتھوں ملک بھر میں بالعموم اور سندھ میں بالخصوص رونما ہونے والی تباہی نے معیشت کو پھر بحرانی کیفیت سے دوچار کردیا۔ اس وقت بھی سندھ بھر میں لاکھوں افراد اپنے گھروں سے دور ہیں یا پھر اپنے علاقے میں پہنچ کر بے گھر ہیں کیونکہ مکانات کو سیلاب نے تباہ کردیا۔ اب اُن کی بحالی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ عالمی بینک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں نے پاکستان کو سیلاب کی تباہ کاری سے نمٹنے کے معاملے میں غیر معمولی امداد کا یقین دلایا ہے اور فنڈز کی فراہمی کا اعلان بھی کیا ہے۔ اگر سندھ حکومت فنڈز کو معقول طریقے سے اور دیانت کے ساتھ بروئے کار لانے میں کامیاب ہو جائے تو بہت سوں کا بھلا ہوسکتا ہے۔ فی الحال اِس کے آثار نہیں کیونکہ کرپشن پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ سرکاری مشینری کس طور کام کرتی ہے یہ تو ہم سبھی جانتے ہیں۔ کوئی پُرزہ ایسا نہیں جو کرپشن کی گرد سے اَٹا ہوا نہ ہو۔ یہ سب کچھ دیکھ کر دل بیٹھ بیٹھ جاتا ہے، ڈوبنے لگتا ہے۔ مایوسی سے دوچار کرنے والے عوامل زیادہ ہیں اور زیادہ بھی اتنے کہ امید کی کوئی کرن پھوٹتی دکھائی نہیں دیتی۔ معاشرہ شدید بے یقینی کا شکار ہے۔ ایک طرف عام آدمی اپنے اور اہلِ خانہ کے گزارے کے لیے اَدھ مُوا ہوا جاتا ہے اور دوسری طرف ملک کو چلانے کی باتیں کرنے والے ہیں کہ ٹس سے مس ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ کم و بیش ڈھائی سال کے دوران ملک شدید بحرانی کیفیت سے دوچار رہا ہے۔ کورونا نے کون سی کسر چھوڑی تھی کہ اہلِ سیاست اپنے اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے یوں آپس میں لڑتے۔ کم از کم یہی سوچ لیا جاتا کہ کورونا کی وبا سے پہنچنے والے نقصان سے بخوبی نمٹنے کے لیے کچھ وقت معیشت کو دینا بہتر ہوگا۔ اول تو حکومت کو تبدیل کرنا کوئی آسان اور معقول کام نہ تھا۔ پھر اگر حکومت تبدیل ہو ہی گئی تھی تو ملک کو جیسے تیسے چلنے دیا جاتا۔ وفاق کچھ سوچتا ہے، صوبے کسی اور ہی ڈگر پر چلتے رہتے ہیں۔ وفاق میں کسی کی حکومت، صوبوں پر کسی کا راج۔ یہ کیفیت ملک کو مزید الجھنوں سے دوچار کر رہی ہے۔
پیپلز پارٹی پر الزام ہے کہ اُس نے آئین میں ترمیم کی صورت میں صوبوں کو ملنے والے اختیارات حاصل کرنے میں تو دیر نہیں لگائی؛ تاہم اختیارات کو نچلی ترین سطح تک منتقل کرنے میں برائے نام بھی دلچسپی نہیں لی۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ بلدیاتی ادارے انتہائی کمزور ہیں۔ وہ صفائی ستھرائی جیسے بہت سے عمومی مسائل حل کرانے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ سندھ میں بلدیاتی اداروں کے انتخابات کو بھی اَنا کے مسئلے میں تبدیل کرلیا گیا ہے۔ سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات سے باضابطہ گریزاں رہی ہے۔ آئین کے تحت بلدیاتی اداروں کے قیام اور اُن کی بہتر کارکردگی یقینی بنانے کے انتظام و انصرام کی گنجائش رکھی گئی ہے مگر پیپلز پارٹی بظاہر اس معاملے کو اپنے لیے اَنا کا مسئلہ بناکر بلدیاتی اداروں کو کچھ دینے کے مُوڈ ہی میں نہیں۔ کراچی میں بلدیاتی الیکشن کے نام پر جو تماشا لگایا گیا ہے وہ شرم ناک ہے۔ کسی کی کامیابی روکنے کے لیے مُردہ گھوڑوں میں بھی جان ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جو تیس سال تک مینڈیٹ ملنے پر شہرِ قائد کے لیے کچھ نہ کر پائے اور کرپشن ہی میں ڈوبے رہے اُن کے ہاتھ مضبوط کرکے صرف اُنہیں کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو عوام میں جڑیں رکھتے ہیں اور کچھ کرنے کا عزم بھی۔ یہ انتہائی نوعیت کی کیفیت معاملات کو تلپٹ کر رہی ہے۔
عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے جارہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ نظامِ عدل کیا کرے اور کتنا کرے؟ عدلیہ کی جانب سے احکامات ہی جاری ہو سکتے ہیں اور وہ کیے جا رہے ہیں۔ سوال مقنّنہ اور منتظمہ کا آ جاتا ہے۔ ملک کا نظام جنہیں چلانا ہے اُنہی کو کچھ ہوش مندی اور احساسِ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ تمام معاملات کو ذاتی مفادات کی چوکھٹ پر قربان نہیں کیا جاسکتا۔ منتخب اداروں کے اراکین کو بھی اپنے حصے کا کام کرنا ہے اور ریاستی مشینری کو بھی دیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کے حالات سنوارنے ہیں۔ مفادات کے تصادم کی سطح سے بلند ہوکر ملک کے لیے سوچنے پر مائل ہونا ہے۔ معیشت کے لیے چیلنج اب بھی کم نہیں۔ برآمدات سکڑتی جارہی ہیں۔ خام مال، توانائی اور محنت کے بڑھتے ہوئے دام برآمدی تاجروں کو اس قابل نہیں چھوڑ رہے کہ عالمی منڈی میں ڈھنگ سے مقابلہ کرسکیں۔ معیشت کے بیشتر حصے مافیاز کے شکنجے میں ہیں۔ صنعتی عمل روز بروز دُشوار سے دُشوار تر ہوتا جارہا ہے۔ برآمدات بڑھانے پر فی الفور غیر معمولی توجہ مرکوز کی جانی چاہیے کیونکہ برآمدات بڑھنے سے ملک کو زرِ مبادلہ ملتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ترسیلاتِ زر کے معاملے کو بھی درست کرنے کی ضرورت ہے۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو اس بات پر آمادہ کرنا ہوگا کہ وہ حوالہ ہنڈی کے نظام سے رقوم بھیجنے کے بجائے بینکنگ سسٹم کے ذریعے اپنی کمائی وطن بھیجیں تاکہ معیشت واقعی مستحکم ہوسکے۔
ملک تماشوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اہلِ سیاست اور ریاستی مشینری دونوں ہی کو اپنی اپنی ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے۔ یہ وقت اپنے ضمیر کی عدالت میں کھڑے ہونے کا‘ اپنا احتساب خود کرنے کا ہے۔ وقت محض گزر نہیں رہا بلکہ خرابیاں چھوڑ کر جارہا ہے۔ جو کچھ اس وقت ہو رہا ہے وہ عشروں تک قوم کے پیروں میں زنجیر بنا رہ سکتا ہے۔ ترقی تو بہت بعد کا معاملہ رہا‘ فی الحال بقا کا مسئلہ درپیش ہے۔ یاروں نے تو کچھ خاص کسر چھوڑی نہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہوش کے ناخن لیتے ہوئے لایعنی تماشے بند کیے جائیں، ملک کے لیے سوچا جائے، معیشت و معاشرت کو مزید زوال سے بچایا جائے۔ غلطی کی گنجائش تو ہمیشہ رہتی ہے مگر غلطی جان لیوا قسم کی تو نہ ہو!