جب دِلّی پر قیامت ٹوٹی تو میرزا نوشہ یعنی غالبؔ تڑپ اٹھے۔ تب معاملات ہی کچھ ایسے تھے کہ ایک ایک لمحہ جسم و جاں پر عذاب بن کر نازل ہو رہا تھا۔ دِلّی کئی بار اُجڑی اور کئی بار بسی۔ جب بھی اُجڑی‘ ہزاروں کی دنیا اُجاڑ گئی۔ اور بسنے کا عمل زیادہ جاں گُسل ثابت ہوتا تھا۔ ع
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں
بات ہو رہی تھی میرزا نوشہ کی۔ اُنہوں نے دِلّی پر ٹوٹنے والی قیامت کے حوالے سے اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے پورے معاشرے کی ترجمانی کی ع
کاوِ کاوِ سخت جانی ہائے ناکامی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جُوئے شیر کا
آج کل اہلِ پاکستان پر کچھ ایسا ہی وقت گزر رہا ہے۔ گزرتا ہوا ہر لمحہ قیامت ڈھانے پر تُلا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسان کس کس چیز کو روئے، کس کس بات کا ماتم کرے۔ کوئی ایک معاملہ بھی قابو میں دکھائی نہیں دے رہا۔ قدم قدم پر صرف الجھن کا سامنا ہے۔ حکمرانوں کی نا اہلی اور لاپروائی نے عام آدمی کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ سرکاری یا ریاستی مشینری کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ اس مشینری کا ہر پُرزہ صرف اپنے مفادات کو ذہن نشین رکھے ہوئے ہے۔ تکنیکی طور پر عوام کے خادم (پبلک سرونٹ) کہلائے جانے والے در حقیقت عوام کے آقا بن بیٹھے ہیں۔ کوئی بھی کام آسانی سے نہیں ہوتا۔ رشوت بھی دیجیے اور پریشانی بھی جھیلئے۔
وہ وقت گیا جب مہنگائی صرف ہوش رُبا کہی جاسکتی تھی۔ اب تو یہ قیامت خیز ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کسی نہ کسی چیز کے دام بڑھتے ہوئے نہ پائے جائیں۔ یہ سب کچھ ایسے وقت ہو رہا ہے کہ جب ملک شدید سیاسی عدم استحکام سے بھی دوچار ہے۔ اب کوئی بھی پورے یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ سیاست نے معیشت کا بیڑا غرق کیا ہے یا معیشت کے ہاتھوں سیاست کا حال بُرا ہے۔ بات چاہے کچھ بھی ہو‘ حقیقت یہ ہے کہ ملک کا حال بُرا ہے۔ عام آدمی کے لیے حالات انتہائی خطرناک شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔ سُورج روز نکلتا ہے مگر شام کے ہوتے ہوتے انسان پر کئی کیفیتیں اِس طور گزرتی ہیں کہ جسم و جاں کا درست حال میں رہنا ممکن نہیں رہتا۔ کم و بیش ایک عشرے سے مہنگائی کا معاملہ کچھ اور ہی ہوچکا ہے۔ قیمتیں بڑھتی رہی ہیں۔ دنیا بھر میں جو اکھاڑ پچھاڑ ہوتی ہے اُس کے اثرات بھی ہماری معیشت پر مرتب ہوتے رہے ہیں۔ معاشرے میں رونما ہونے والی تبدیلیاں بھی مہنگائی کے معاملے کو سنگین تر بنانے کی ذمہ دار ہیں مگر سچ یہ ہے کہ ایک ڈیڑھ عشرے پہلے تک ایسا حال نہیں تھا کہ انسان قدم قدم پر بے حال ہو۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ اشیا و خدمات کی قیمتوں کو پَر لگ گئے ہیں۔ وہ اِتنی اُونچی اُڑ رہی ہیں کہ اُنہیں چھونا کم و بیش ناممکن ہوچلا ہے۔ اب آٹے ہی کو لیجیے۔ کراچی میں آٹے کی قیمت میں ہوش رُبا اضافے نے قیامت ڈھانے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ قیمتوں پر نظر رکھنے والا میکانزم یا تو معطل کردیا گیا ہے یا پھر اُسے ختم کیا جاچکا ہے۔ بازار میں کہیں بھی متعلقہ شعبے کا کوئی اہلکار دکھائی نہیں دیتا۔ اور ایسے اقدامات بھی عنقا ہیں جن سے یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ حکومت قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کچھ کر رہی ہے۔
مہنگائی کے حوالے سے کراچی انوکھا نہیں۔ پورے ملک کا یہی حال ہے۔ جسے جہاں موقع مل رہا ہے اپنا داؤ چلا رہا ہے اور جتنا مال بٹور سکتا ہے بٹور رہا ہے۔ یہ سب کچھ ایسے عالم میں ہو رہا ہے کہ ملک شدید بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ حکومتی ڈھانچا کمزور پڑچکا ہے۔ ریاستی اداروں کی گرفت کمزور پڑتی جارہی ہے۔ حکومتی اور انتظامی مشینری کی ساری دلچسپی صرف اور صرف اس بات تک محدود ہوکر رہ گئی ہے کہ ذاتی مفادات کو کس طور زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کیا جائے۔ ایسے میں عام آدمی یعنی یومیہ بنیاد پر کام کرنے والے افراد شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ کرائے پر رہنے والوں کے مسائل خطرناک حد کو چھو رہے ہیں۔ تنخواہ دار طبقہ بھی انتہائی نوعیت کی پریشانی سے دوچار ہے۔ بیشتر نجی اداروں میں بھرتیاں نہیں ہو رہیں۔ بعض ادارے لاگت اور دیگر اخراجات میں کمی کے لیے چھانٹی کی پالیسی پر کاربند ہیں۔ جو ادارے چھانٹی نہیں کر رہے وہ تنخواہوں میں اضافہ نہ کرکے اپنے آپ کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے میں اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ تنخواہ دار طبقہ کس نوعیت کی پریشانیاں جھیل رہا ہو گا۔ عام آدمی کی زندگی دشوار سے دشوار تر ہوتی جارہی ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ گزارے کی سطح سے کسی طور بلند نہیں ہو پارہے۔ عام آدمی کے لیے اب کچھ بچانا اور مستقبل کے لیے کچھ تیاری کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ملک کو کس طور چلایا جارہا ہے۔ مہنگائی کا گراف محض بلند نہیں ہو رہا بلکہ راتوں رات قیمتیں کچھ سے کچھ ہو جاتی ہیں۔ کوئی روکنے‘ ٹوکنے والا نہیں۔ ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ مہنگائی کسی جواز کے بغیر بھی بڑھائی جارہی ہے۔ جسے جہاں موقع ملتا ہے وہ وہیں شکار کو گھیر کر بے بس کرتا ہے اور برچھی مار دیتا ہے۔ بعض اشیا و خدمات کے نرخ بڑھانے کا بظاہر کوئی تکنیکی جواز ہے نہ اخلاقی۔ پھر بھی لوگ شرمندہ ہوئے بغیر اپنے حصے کا منافع یا مال بڑھانے پر تُلے رہتے ہیں۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ ملک بھر میں یار لوگوں نے طے کرلیا ہے کہ کھانے پینے کے آئٹمز پر منافع کی شرح 150 سے 200 فیصد تک ہونی چاہیے۔ ریسٹورنٹس اور ہوٹلز کے ہر آئٹم پر منافع کی شرح 200 فیصد تک ہے۔ ٹھیلوں پر فروخت ہونے والے تیار شدہ فوڈ آئٹمز پر بھی منافع کی شرح 150 سے 200 فیصد تک ہے۔ سادہ برگر ہی کو لیجیے۔ لاگت 60‘70 روپے تک ہے اور قیمتِ فروخت 150روپے تک۔ یہی حال بریانی، پلاؤ وغیرہ کا بھی ہے۔ کراچی میں نہاری کا سب سے چھوٹا پارسل ڈھائی سے تین سو روپے تک میں دستیاب ہے۔ یہی حال دیگر کھانوں کا ہے۔ بعض کھانوں میں لوگوں کو تھوڑی بہت رعایت دی جاسکتی ہے۔ نہاری‘ پائے وغیرہ کے معاملے میں منافع کی شرح 250 تا 300 فیصد ہے۔ دنیا بھر میں منافع کمانے کا رجحان ضرور ہے؛ تاہم منافع خوری سے گریز کیا جاتا ہے۔ منافع اتنا لیا جاتا ہے کہ کسی کی جیب پر زیادہ یا پریشان کن بوجھ نہ پڑے۔ مشرقِ وسطیٰ کے چند ممالک میں یہ نظام بھی ہے کہ سالن کے ساتھ دو روٹیاں مفت ملتی ہیں۔ تیسری روٹی سے روٹی کے پیسے چارج کیے جاتے ہیں۔ خلیجی ممالک میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ عام آدمی کو کم از کم کھانے پینے کے معاملات میں زیادہ الجھن کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کسی بھی معاشرے میں عام آدمی کے لیے سب سے بڑا مسئلہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کا ہوا کرتا ہے۔ تین وقت کا کھانا تو ہر انسان کا حق ہے جو اُسے عزت کے ساتھ ملنا چاہیے۔ اس کیلئے لازم ہے کہ معاشی ڈھانچے میں عام آدمی کے لیے روزگار کی سہولت معیاری انداز سے موجود ہونی چاہیے۔
آج کے معاشرے میں دیگر بنیادی مسائل کے ساتھ ساتھ عام آدمی کے لیے گزارے کی سطح برقرار رکھنا بھی انتہائی دشوار ہوتا جارہا ہے۔ بڑے شہروں میں زندہ رہنے کی لاگت خطرناک بلکہ جان لیوا حد تک بڑھ چکی ہے۔ کرائے کے مکان میں رہنے والوں کا حال اِتنا بُرا ہے کہ اُن کی مصیبت دیکھی نہیں جاتی۔ وہ کرایہ ادا کرنے کے بعد ڈھنگ سے کھانے پینے کا اہتمام کرنے کے قابل نہیں رہ پاتے۔ ایسے میں بچوں کی تعلیم اور تمام اہلِ خانہ کی صحت کے حوالے سے کچھ کر پانا محض خواب ہوکر رہ گیا ہے۔ یہ صورتِ حال انتہائی عذاب ناک اور سوہانِ روح ہے۔ حکومتِ وقت کو سوچنا چاہیے کہ وطن چمکتے ہوئے کنکروں کا نام نہیں۔ یہ تو انسانوں کے آباد ہونے سے ہے۔ اگر لوگ ہی ناخوش ہوں تو کوئی بھی سرزمین کس طور پروان چڑھ سکتی ہے؟ آج کا پاکستان بہت سی الجھنوں سے گھرا ہوا ہے۔ سب سے بڑی الجھن یہ ہے کہ عام آدمی کا جینا دوبھر کردیا گیا ہے۔ حکومتی مشینری کو اس حوالے سے فعال ہوکر ایسا کچھ کرنا ہے جس سے مہنگائی کو قابو میں رکھنا ممکن ہو۔