"MIK" (space) message & send to 7575

اساتذہ ہی ہوتے ہیں قوم کے معمار

کسی بھی قوم کے لیے چند شعبے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ شعبے ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہوتے ہیں۔ اگر ریڑھ کی ہڈی میں شدید چوٹ لگے تو ڈھنگ سے چلنا تو بہت دور کا معاملہ رہا‘ انسان ٹھیک سے بیٹھ بھی نہیں سکتا۔ لیٹنا بھی عذاب ہی کی ایک صورت ہو جاتا ہے۔ ریڑھ کی ہڈی پورے جسم کو قائم و دائم رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اِسی طور بعض شعبے کسی بھی قوم کی معیشت و معاشرت اور اخلاقی و روحانی زندگی کے لیے کلیدی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اِن شعبوں کی اچھی کارکردگی پوری قوم کے لیے نعمت کی طرح ہوتی ہے۔ اگر یہ شعبے کمزور کارکردگی کا مظاہرہ کریں تو معیشت و معاشرت ہی نہیں بگڑتی‘ قوم کا وجود بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔
کسی بھی قوم کو ڈھنگ سے زندہ رہنے کے لیے بہرطور معاشی جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ملک و قوم کی ترقی اور خوش حالی حقیقی محنت و مشقت کے بغیر ممکن نہیں۔ جن ممالک کو قدرتی وسائل سے خوب نوازا گیا ہے اُن کی دیرپا خوش حالی کا مدار بھی بالآخر اس امر پر ہے کہ وہ اپنی دولت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانا سیکھیں، محض اخراجات پر یقین نہ رکھیں بلکہ محنت کے ذریعے کمانا بھی سیکھیں۔ اگر قدرتی وسائل کی آمدن کے ذریعے پُرتعیش زندگی بسر کرنے ہی کو سبھی کچھ سمجھ لیا جائے تو اُن دنوں کے آنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی جب سبھی کچھ ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور زندگی کے ہر معاملے پر چھا جانے والی عُسرت بھاگی چلی آتی ہے۔
تعلیم و تعلم کا شعبہ کسی بھی معاشرے کے لیے انتہائی بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ معلم یعنی استاد ہی وہ فرد ہے جو قوم کے لیے سب سے بڑا اور کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ کلیدی کردار نئی نسل کو آنے والے زمانوں کے لیے تیار کرنے کا ہے۔ آنے والے زمانوں کے تقاضوں کو اگر کوئی سمجھتا ہے تو وہ استاد ہے کیونکہ اُس کی نظر ماضی پر بھی ہوتی ہے۔ ماضی کو سمجھے بغیر مستقبل کو سمجھا جاسکتا ہے نہ اُس کے لیے تیار ہوا جاسکتا ہے۔ آئیڈیل استاد وہ ہے جو گزرے ہوئے زمانوں کو اچھی طرح کھنگال کر ایسے کسی بھی معاملے کو آنے والی نسل سے دور رکھنے پر متوجہ ہوتا ہے جو قومی زندگی پر اثر انداز ہوسکتا ہو۔ اس حوالے سے جس نوعیت کی ذہنی تیاری ناگزیر ہوتی ہے وہ صرف معیاری استاد ہی کی بدولت ممکن ہو پاتی ہے۔ معاشرے کو متوازن رکھنے اور نئی نسل کو مستقبل کے تقاضے ڈھنگ سے سمجھنے کے قابل بنانے میں کلیدی کردار اساتذہ ہی ادا کرتے ہیں۔ وہی معاشرے کے حقیقی نبّاض ہوتے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ معاشرے کو کب کیا چاہیے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس حوالے سے کیا کیفیت ہے۔ کیا ہمارے ہاں اساتذہ اپنے حصے کا کام کر رہے ہیں؟ کیا وہ اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہیں؟ کیا نئی نسل کو آنے والے مشکل تر زمانوں کے لیے ڈھنگ سے تیار کیا جارہا ہے؟ یہ تمام سوال ہر اُس انسان کے ذہن میں ابھرتے رہتے ہیں جو معاشرے کو بہتر مقام پر دیکھنے کا خواہش مند ہو۔
سیاسی قائدین بھی معاشرے کے نبّاض ہوتے ہیں اور اس کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ مختلف شعبوں کے ماہرین بھی بہت کچھ کرسکتے ہیں اور کرتے ہی ہیں؛ تاہم اساتذہ کی ذمہ داری زیادہ اور مختلف ہے۔ اُنہیں پڑھنا بھی بہت پڑتا ہے اور پڑھانے پر بھی بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ فی زمانہ ہر شعبہ غیر معمولی رفتار سے پیش رفت کا حامل ہے۔ تحقیق کا بازار گرم ہے۔ ہر شعبے میں اتنی تحقیق ہو رہی ہے کہ نئے خیالات آتے ہیں اور بہت کچھ بدل دیتے ہیں۔ آج کے اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیے تو عوامی سطح کا کوئی ایک شعبہ بھی ڈھنگ سے کام کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ بے دِلی اور بے حِسی نے پورے معاشرے کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کام کرنے کی لگن کمزور پڑتی جارہی ہے۔ کچھ نیا سیکھنے کا جذبہ دم توڑنے کی منزل میں ہے۔ نئی نسل کو غیر متعلقات ہی سے فرصت نہیں۔ والدین بھی اس معاملے میں ڈھیلے پڑچکے ہیں۔ لے دے کر صرف اساتذہ سے کوئی امید وابستہ کی جاسکتی ہے؛ تاہم معاملہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اب سکول سے جامعات کی سطح تک کے اساتذہ بھی اُس معیار کے نہیں جو معاشرے کو بدلنے یعنی بہتر بنانے کے لیے ناگزیر ہوا کرتے ہیں۔ سچ بالعموم کڑوا ہوا کرتا ہے اور تلخ سچ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اساتذہ کا موجودہ معیار دیکھتے ہوئے اُن سے قومی تعمیرِ نو میں کلیدی کردار ادا کرنے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اساتذہ کے انتخاب کا مرحلہ ہی دم توڑ چکا ہے۔ سرکاری شعبے میں مبینہ طور پر سفارش اور رشوت کی بنیاد پر اساتذہ بھرتی کیے جارہے ہیں۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ جب کہیں اور دال نہیں گلتی یا بات بنتی دکھائی نہیں دیتی تو ٹیچنگ کی طرف آجاتے ہیں۔ ایسے میں کسی بہتری یا بڑی مثبت تبدیلی کی توقع کیونکر وابستہ کی جاسکتی ہے؟
ترقی یافتہ دنیا میں اساتذہ بہت چھان پھٹک کے بعد بھرتی کیے جاتے ہیں۔ ایک طرف اُن کا علمی معیار جانچا جاتا ہے اور دوسری طرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ جو کچھ اُنہیں آتا ہے وہ نئی نسل تک منتقل کرنے کی لگن بھی پائی جاتی ہے یا نہیں۔ لگن سے پہلے تربیت کا معیار دیکھا جاتا ہے یعنی پڑھانا آتا بھی ہے یا نہیں۔ ابتدائی تعلیم سے وابستہ اساتذہ کو غیر معمولی مشاہرے دیے جاتے ہیں کیونکہ وہی تو نئی نسل میں پڑھنے‘ لکھنے اور کچھ بننے کا عزم پیدا کرتے ہیں۔ بات ایسی مشکل نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے۔ بڑی عمر کے بچے خود بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ کالج اور جامعات کی سطح پر اساتذہ کی ذمہ داری خاصی کم رہ جاتی ہے۔ ابتدائی تعلیم کے اداروں میں غیر معمولی صلاحیت و تربیت کے حامل اساتذہ اس لیے بھرتی کیے جاتے ہیں کہ اُنہی کو نئی نسل کے رجحانات جانچ کر اُن کے لیے موزوں ترین راہِ عمل کا تعین کرنا ہوتا ہے۔ یہ راہِ عمل ایسی آسان نہیں کہ متعین کرتے ہی گامزن ہوا جائے اور کامیابی کی منزل تک پہنچ کر دم لیا جائے۔ اس راہ پر چلنے کے لیے بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے اور بہت کچھ اپناتے ہی بنتی ہے۔ ہمارے ہاں فی الحال اساتذہ کا معیار ایسا نہیں ہے کہ اُن سے کوئی بہت بڑی توقع وابستہ کی جائے۔ اول تو سیکھے ہوئے لوگ اس طرف آتے ہی نہیں اور اگر بھرتی ہو بھی جائیں تو کچھ نیا سیکھنے پر متوجہ نہیں ہوتے۔ وہ دور لد گیا جب صرف سرکاری شعبے کے اساتذہ کا معیار پست ہوتا تھا۔ اب نجی شعبے میں بھی عمومی سطح کے ایسے اساتذہ دکھائی دے رہے ہیں جن میں بصیرت تو کیا ہو گی‘ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ بصیرت ہوتی کیا ہے۔ جیسے تیسے کلاسیں لینے سے غرض ہے اور نصاب مکمل کراکے اپنے دام کھرے کرنے پر توجہ دی جاتی ہے۔ اِس سے زیادہ کے بارے میں کوئی سوچتا ہی نہیں۔ پاکستان کو حقیقی قومی تعمیرِ نو کے لیے تدریس کے شعبے میں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو غیر معمولی معیار کے ساتھ ساتھ بھرپور لگن اور عزم کے بھی حامل ہوں۔ سرکاری شعبے میں اساتذہ کی بھرتی کا طریقِ کار بدلنے کی ضرورت ہے۔ محض پرسنٹیج کی بنیاد پر بھرتی درست نہیں۔ رجحان بھی دیکھنا چاہیے اور یہ بھی کہ جسے تدریس پر مامور کیا جارہا ہے وہ پڑھنے‘ پڑھانے سے حقیقی شغف رکھتا بھی ہے یا نہیں۔ محض بھرتی کس کام کی؟ اور وہ بھی تدریس کے شعبے میں!
نئی نسل بیشتر معاملات میں راہ نمائی چاہتی ہے۔ لازم ہے کہ اُسے بھرپور تعلیم و تربیت فراہم کرنے کی راہ ہموار کی جائے اور قابل ترین اساتذہ بھرتی کرکے تدریس کے شعبے کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کیا جائے۔ یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوسکتا۔ دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا۔ قومی تعمیرِ نو کے لیے جامع منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے اور اُسے عملی جامہ پہنانے کے لیے غیر معمولی تگ و دَو بھی کرنا پڑتی ہے۔ یوں تو تمام ہی شعبے خرابی کا شکار دکھائی دے رہے ہیں؛ تاہم تدریس کے شعبے کی خرابی کئی شعبوں کو مزید خراب کرتی ہے۔ نئی نسل کو بہتر دنوں کے لیے تیار کرنا ایک عظیم مقصد ہے اور اس مقصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے لازم ہے کہ متعلقہ افرادی قوت کا معیار بلند کیا جائے۔ تدریس کے شعبے میں معاشرے کے قابل ترین افراد بھرتی کرنے کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں