"MIK" (space) message & send to 7575

تعلقاتِ کار

ہر انسان کو زندگی بھر تعلقاتِ کار قائم رکھنا پڑتے ہیں۔ تعلقاتِ کار یعنی ایسے تعلقات جن کے بغیر ہمارا کام چل ہی نہ سکتا ہو۔ تعلقاتِ کار معاشی بھی ہوسکتے ہیں اور غیر معاشی بھی۔ اور ہو کیا سکتے ہیں‘ ہوتے ہی ہیں۔ تعلقاتِ کار کی اصطلاح آپ نے بالعموم سیاسی معاملات میں سنی ہوگی۔ مثلاً یہ کہ دو ممالک کے درمیان تعلقاتِ کار اچھے ہیں۔ منتخب حکومت اور ریاستی مشینری کے درمیان تعلقاتِ کار کے حوالے سے تو ہمارے ہاں طرح طرح کی خبریں آتی ہی رہتی ہیں۔ جنہیں کسی بھی معاملے میں ایک دوسرے کی لازمی ضرورت پڑتی ہو اُن کے درمیان پائے جانے والے تعلقات کو ہم تعلقاتِ کار کہتے ہیں۔ یہ تعلقات بتاتے ہیں کہ معاملات کس طرف جارہے ہیں اور حتمی تجزیے میں اونٹ کس کروٹ بیٹھ سکتا ہے یا بیٹھے گا۔
عوام اور خواص دونوں ہی کو زندگی بھر مختلف سطحوں پر تعلقاتِ کار اُستوار رکھنا پڑتے ہیں۔ معاشرہ انسانوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ جو معاشرے کا حصہ ہوتا ہے اُسے مستقل بنیاد پر لوگوں سے ملنا ہی پڑتا ہے۔ لوگوں سے ملنے کا مطلب ہے اُن سے کام لینا، اُن کے کام آنا۔ کوئی بھی انسان جزیرہ نہیں یعنی کوئی بھی الگ تھلگ رہ کر زندگی بسر نہیں کرسکتا۔ ڈھنگ سے جینا تو بہت دور کا معاملہ ہے، تنِ تنہا جینے میں تو انسان عمومی سطح کی زندگی بھی ممکن نہیں بنا پاتا۔ ہمیں بہت کچھ دوسروں سے لینا ہوتا ہے اور اُنہیں بہت کچھ دینا ہوتا ہے۔ زندگی کا سفر اِسی طور جاری رہتا ہے۔
تعلقاتِ کار کا معیار بلند کرنے کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں۔ آپ اچھے تو جگ اچھا۔ یہ ایک ایسا جملہ ہے جو بہت کچھ بیان کرتا ہے۔ جو لوگ دوسروں کا خیال رکھتے ہیں، اُن کے کام آتے ہیں اُنہیں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ کسی بھی اچھے انسان کے لیے لوگ بالعموم ''دیدہ و دل فرشِ راہ‘‘ جیسی کیفیت پیدا کرتے ہی ہیں۔ پھر بھی انسان کو ہر طرح کی صورتِ حال اور ردِعمل کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ کیا آپ نے ایسا نہیں دیکھا کہ کچھ لوگ کسی بھی صورتِ حال میں دوسروں کے لیے صرف پریشانی کھڑی کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں؟ کوئی اُن سے کتنا ہی اچھا سلوک کرلے، وہ پلٹ کر کچھ نہ کچھ غلط ہی کرتے ہیں۔ ایسے لمحات میں انسان اپنے آپ کو بہت عجیب کیفیت میں پاتا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ جس سے اچھا سلوک کیا گیا ہو وہ اگر برا سلوک کرے تو اُس سے کیسا سلوک کرنا چاہیے۔ یہ بات تو طے ہے کہ کوئی بھی انسان معاشرے سے الگ رہ کر ڈھنگ سے جی نہیں سکتا۔ ہر انسان کو دوسروں کے ساتھ مل کر زندگی بسر کرنا پڑتی ہے۔ اِسی بنیاد پر تعلقاتِ کار بھی قائم ہوتے ہیں۔ تعلقاتِ کار کو اعلیٰ معیار کے ساتھ برقرار رکھنے کے لیے دوسروں کے کام آنا پڑتا ہے اور دوسروں سے کام لینا پڑتا ہے۔ کسی بھی ماحول میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو کسی اور کے تو کیا ہوں گے، ڈھنگ سے اور کماحقہٗ اپنے بھی نہیں ہوتے۔ منفی سوچ انسان کو کسی کام کا اور کسی کے لیے کام کا نہیں رہنے دیتی۔ منفی سوچ رکھنے والوں کی زندگی بے ڈھنگی ہوتی ہے۔ اُن کا بے ڈھنگا پن صرف اُن کی ذات تک محدود نہیں رہتا۔ متعلقین بھی متاثر ہوتے ہیں۔ سوچ اگر زندگی بھر منفی رہے تو متعلقین بے چارے کسی جواز کے بغیر زندگی بھر پریشان رہتے ہیں۔ آپ کو اپنے قریب ترین ماحول میں ایسی متعدد مثالیں مل جائیں گی۔
منفی سوچ رکھنے والوں سے نجات پانے کے ممکنہ طریقے کیا ہوسکتے ہیں؟ یہ سوال ہر اُس انسان کو پریشان کرتا ہے جو مثبت سوچ رکھتا ہو، کچھ کرنے کا خواہش مند ہو مگر ایسا کرنے کی گنجائش ہی نکل نہ پارہی ہو۔ مثبت سوچ رکھنے والوں کا اچھا خاصا وقت منفی سوچ رکھنے والوں سے نمٹنے میں کھپ جاتا ہے۔ یہ کام بھی زندگی بھر کا ہے۔ جنہیں بگاڑ پیدا کرنا ہو وہ بگاڑ پیدا کرنے سے باز نہیں آتے اور جنہیں کچھ کرنا ہو وہ غریب پریشان ہی رہتے ہیں اور پریشانی کا سامان کرنے والوں سے نمٹنے ہی میں کھپ جاتے ہیں۔ کیا لازم ہے کہ انسان اپنے ماحول میں پائے جانے والے ایسے لوگوں سے الجھا رہے جو اُس کی راہ میں دیوار بنیں؟ عمومی سطح پر تو معاملہ ایسا ہی رہتا ہے یعنی دردِ سر بننے والوں سے نمٹنے ہی میں اچھی خاصی توجہ اور توانائی ضائع ہو جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مثبت سوچ اور عمل پسند رویے کے حامل کسی بھی فرد کو منفی سوچ رکھنے والوں سے نمٹنے پر ایک خاص حد تک ہی توجہ دینا چاہیے۔ احتیاط بھی لازم ہے اور توجہ بھی۔ وقت بہت کم ہے۔ وقت سے زیادہ قیمتی اثاثہ کوئی نہیں۔ جو چیز اتنی قیمتی ہو کہ قیمت کا اندازہ ہی نہ لگایا جاسکے اُسے خرچ یا صرف کرتے وقت مثالی نوعیت کی احتیاط سے کام لیا جانا چاہیے۔
کیا وقت کا بہترین مصرف یہ ہے کہ اِسے دوسروں کو سُدھارنے پر صرف کردیا جائے؟ اس سوال کا جواب صرف اور صرف نفی میں ہے۔ کسی بھی انسان کو زیبا نہیں کہ اپنا وقت ایک ایسے کام پر ضائع کرے جس میں کامیابی کے بارے میں پورے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ کسی بھی انسان کی اصلاح اصلاً اُس کا اپنا معاملہ ہے۔ ہر معاشرے میں وہی لوگ اپنی اصلاح ممکن بنا پاتے ہیں جو خود ایسا کرنا چاہتے ہیں۔ کسی بھی انسان کی ایک نمایاں بے وقوفی یہ ہوسکتی ہے کہ وہ لوگوں کے اخلاق و اطوار کی اصلاح کا بیڑا اٹھائے اور اپنے کام بھول کر اس کام میں جُت جائے۔ ہم زندگی بھر اس گمان میں مبتلا رہتے ہیں کہ جن سے ہمارا تعلق بنتا ہے وہ لوگ کبھی نہ کبھی راہِ راست پر ضرور آئیں گے۔ ایک عمر گزارنے کے بعد پتا چلتا ہے کہ جو کچھ لوگوں کی اصلاح کے حوالے سے ہمارے ذہنوں میں تھا وہ خوش فہمی یا غلط فہمی کے سوا کچھ نہ تھا۔
کسی کو بدلنا بہت مشکل کام ہے۔ برسوں تک پنپ کر پختہ ہونے والی عادتیں راتوں رات تبدیل نہیں ہوسکتیں اور تبدیل بھی تب ہوتی ہیں جب اس حوالے سے شوق اور لگن پائی جاتی ہو۔ لوگوں کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا تاہم لوگ تو بدلے جاسکتے ہیں! جی ہاں، جن لوگوں کو بدلنا ممکن نہ ہو اُن سے فاصلہ رکھنے ہی میں دانش مندی ہے۔ اِتنا وقت کسی کے پاس نہیں کہ دوسروں پر لُٹاتا اور ضائع کرتا پھرے۔ ایسی بے دردانہ اور لاپروایانہ شاہ خرچی کی کوئی گنجائش ہے ہی نہیں۔ یہ زندگی کسی بھی اعتبار سے ایسی گئی گزری چیز نہیں کہ بے سوچے سمجھے کسی بھی کام میں کھپادی جائے۔ حقیقت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ ایک ایک لمحہ سوچ سمجھ کر بروئے کار لایا جائے۔ تعلقات زندگی بھر کا معاملہ ہیں۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، تعلقات تو اُستوار کرنا ہی پڑتے ہیں۔ ہاں، ایک معاملہ ضرور ہمارے اختیار میں ہے۔ اگر ہمارے قریب ترین حلقے میں کوئی پریشان کن حالات پیدا کر رہا ہو تو اُس سے کنارہ کش ہونا ہمارے اختیار کی بات ہے۔ کسی کو بدلنا ہمارے بس میں ہو نہ ہو، اُسے بدلنا تو سراسر ہمارے اختیار ہی کی بات ہے۔ جو بھی آپ کے لیے الجھنیں پیدا کر رہا ہو اُس سے دور رہیے یا اُسے دور کیجیے۔ یہ کام خاصی نزاکت کے ساتھ کرنا پڑتا ہے۔ تلوار چلانے والا انداز اختیار کرنے کی ضرورت نہیں۔ جس کے ساتھ آپ کام نہ کرنا چاہیں یا جسے اپنے معاملات سے دور رکھنا چاہیں اُسے خاصے مہذب انداز سے بات سمجھائی جاسکتی ہے۔ ایسا کرنے میں فائدہ یہ ہے کہ اگر کوئی اپنی فکری ساخت پر نظرِ ثانی کرے اور اپنی اصلاح پر مائل ہو تو دوبارہ تعلقات اُستوار کرنے میں کوئی خاص الجھن محسوس نہیں ہوتی۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کسی سے تعلقات معطل کرنے اور ختم کرنے میں بہت فرق ہے۔ معطل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی سے زیادہ میل جول نہ رکھنا اور اُسے اپنے معاملات سے دور رکھنا۔ تعلقات ختم کرنے کا مطلب ہے ہمیشہ کے لیے خدا حافظ کہہ دینا۔ یہ انتہائی نوعیت کا معاملہ ہے جو سوچ سمجھ کر کیا جانا چاہیے۔ لوگوں کی اصلاح جتنا مشکل کام ہے اُتنا ہی مشکل کام ہے اُنہیں بدلنا یعنی اُن سے کنارہ کش ہونا۔ یہ کام بھی غیر معمولی احتیاط کا طالب ہے۔ بہر کیف، جب کسی سے جان چھڑانا لازم ہو تو ایسا کرنے سے گریز دانش مندی نہیں۔ رشتے ہوں یا تعلقاتِ کار، رابطہ صرف اُن سے رکھا جائے جو کام کے ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں