"MIK" (space) message & send to 7575

بولنے کا ہوکا

بیماریاں ہیں کہ بڑھتی ہی جارہی ہیں اور کم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ قوم کو شوق سا چڑھا ہے کہ دنیا کو دکھائے کہ وہ سو بیماریوں کے ساتھ بھی جی سکتی ہے۔ یہ شوق روز بروز پروان چڑھتا جارہا ہے۔ بیماریوں کی فہرست مرتب کرنے بیٹھیے گا تو ہوش گم ہو جائیں گے۔ چند ایک نمایاں ذہنی پیچیدگیوں ہی پر غور کیجیے تو دل و دماغ ٹھکانے پر نہیں رہتے۔ بھولنے کی بیماری نے کیا کم گُل کھلائے تھے کہ اب بولنے کی بیماری دامن گیر ہوگئی ہے۔ بولنے کا ہَوکا اِس قوم کو ایسا لگا ہے کہ چھوٹنے کا نام نہیں لے رہا۔ ایک زمانے سے ذہنی ساخت میں یہ بات گھسی ہوئی تھی کہ خواتین بہت بولتی ہیں۔ اب خواتین کی یہ خصوصیت دم توڑ چکی ہے۔ اب بولنے کے معاملے میں مرد خاصی ''پامردی‘‘ کے ساتھ اُن کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ اب کس میں ہمت ہے کہ بولنے کے معاملے میں خواتین کی برتری ثابت کرکے دکھائے؟
بولنے کا ہَوکا کم و بیش دو عشروں کے دوران پروان چڑھا ہے اور یہ ہَوکا ذرائع ابلاغ کے بُوم کی دین ہے۔ اکیسویں صدی کے ابتدائی دنوں میں پاکستان میں ذرائع ابلاغ میں ترقی کے نئے باب کا آغاز ہوا اور خود رَو پودوں کی طرح راتوں رات اُگ آنے والے ماہرین کی بھرمار نے زندگی کا ڈھانچا ہی بدل دیا۔ معاشرہ کچھ کا کچھ ہوگیا۔ شام کا حسین وقت گھر پر اہلِ خانہ کے ساتھ گزارنے والوں نے دھیرے دھیرے ٹاک شوز کی غلامی قبول کرلی۔ ذرائع ابلاغ کی بھرمار نے قوم کو بدل کر رکھ دیا۔ شب و روز بھی بدل گئے اور معمولات بھی۔ شام کا وقت (میڈیا کی زبان میں کہیے تو پرائم ٹائم) اہلِ خانہ کی نذر کرنے کے بجائے ٹی وی کو دیا جانے لگا۔ یہ بھی بولنے کی بیماری کے شروع ہونے کی اصل وجہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف سوچنے والا بولے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جو دیکھتا اور سنتا ہے وہ بھی بولے بغیر نہیں رہ پاتا۔ خاموش رہنا ایک غیر معمولی وصف ہے مگر اب لوگ یا تو خاموش رہنا بھول ہی چکے ہیں یا پھر اِسے اچھا وصف نہیں گردانتے۔ عام آدمی کے ذہن میں یہ تصور سماگیا ہے کہ بولنا ہی چاہیے کیونکہ بولنے سے بات سنی جاتی ہے، شناخت قائم ہوتی ہے اور لوگ متوجہ ہوتے ہیں۔ یہ تصور مکمل طور پر غلط نہیں۔ لوگ جب کچھ سنتے ہیں تو متوجہ ہوتے ہیں اور کوئی شکایت ہو تو رفع کرنے کی تدبیر کی جاتی ہے مگر ایسا اُسی وقت ہوتا ہے جب ضرورت کے مطابق اور بالکل درست موقع پر کچھ بولا جائے۔ بولنے اور بولتے رہنے کا فرق ملحوظِ خاطر رہے تو کچھ بات بھی ہے۔ یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ لوگ ہر معاملے میں اپنے معیارات قائم کر بیٹھے ہیں۔ دین کے طے کردہ معیارات تو بہت دور کا معاملہ رہے، یہاں تو دنیا بھر میں پائے اور قبول کیے جانے والے خالص دنیوی معیارات کو اپنانے پر بھی کوئی آمادہ دکھائی نہیں دے رہا۔
بولنے کی بیماری نے پوری قوم کو گھیر لیا ہے۔ یہ بیماری ''اوور انفارمیشن‘‘ کا نتیجہ ہے۔ اس حقیقت سے اب کون انکار کرسکتا ہے کہ جس قدر چاہیے اُس سے کہیں زیادہ معلومات یہ قوم بٹورتی پھرتی ہے اور ذہنوں کو خواہ مخواہ گودام سے کچرا گھر بنانے کی کوشش جاری رکھتی ہے۔ یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ ذہن کو دنیا بھر کی ضروری و غیر ضروری باتوں سے بھردیا جائے؟ ایسا کرنے کے صرف منفی نتائج برآمد ہوا کرتے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ ڈھنگ سے بولنا ایک ایسا وصف ہے جو زندگی کا معیار قابلِ رشک حد تک بلند کرتا ہے۔ بہت سے شعبے محض اچھا بولنے ہی کی بنیاد پر انسان کو ترقی سے ہم کنار کرتے ہیں۔ اداکاری، صدا کاری، گلوکاری، سیلز مین شپ، تدریس، خطابت‘ یہ سب اچھا بولنے کے معاملات ہی تو ہیں۔ کوئی بھی اداکار کس بنیاد پر اچھا اداکار کہلاتا ہے؟ اچھا بولنے کے قابل ہونے کی بنیاد پر۔ اچھا بولنا انسان کو نمایاں کرتا ہے۔ لوگ اُنہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو اچھا بولنا جانتے ہی نہیں بلکہ اچھا بولتے بھی ہیں۔ تدریس میں بھی وہی کامیاب رہتا ہے جو اچھا بول پاتا ہے۔
اچھا بولنا کیا ہے؟ خیالات کو حُسنِ ترتیب کے ساتھ بیان کرنا۔ جس نے یہ ہنر سیکھا وہ آگے بڑھا۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ پڑھتے تو بہت ہیں مگر بولنے کے معاملے میں لڑکھڑا جاتے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ بولنے کو محض زبان ہلانے کا عمل سمجھتے ہیں۔ اچھا بولنا مشق و مشقّت کا طالب ہے۔ جسے ڈھنگ سے بولنا اور دوسروں کو متاثر کرنا ہو وہ اس حوالے سے تیاری بھی کرتا ہے۔ بڑوں سے بہت کچھ سیکھا جاتا ہے۔ جو کچھ پڑھا جاتا ہے اُسے ہضم بھی کرنا پڑتا ہے۔ اچھا بولنے کے لیے اچھا پڑھنا اور اُسے ہضم کرنا بھی لازم ہے۔ جنہیں بولنے کا ہنر آتا ہو اُن سے بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے۔ یہ کوئی راتوں رات ہو جانے والی بات نہیں۔ یہ تو ایک عمر کی ریاضت کا نام ہے۔ کبھی اداکاروں اور صدا کاروں کو ریہرسل کرتے ہوئے دیکھیے تو اندازہ ہوگا کہ ایک ایک جملے پر کس قدر محنت کرنا پڑتی ہے۔ بولنے اور اچھی طرح بولنے کا یہی تو فرق ہے۔
یہاں معاملہ ہے کہ لوگ صرف بولنے کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں۔ جنہیں کرنٹ افیئرز دیکھنے کا ہَوکا ہے وہ تین چار پروگرام دیکھ کر اپنے دماغ میں بہت کچھ بھرلیتے ہیں اور پھر دوسروں پر اُنڈیلتے پھرتے ہیں۔ جو کچھ ذہن میں پک رہا ہو وہ اگر باہر نہ آئے تو انسان کو شدید الجھن سے دوچار رکھتا ہے۔ اب سوشل میڈیا پورٹلز نے معاملے کو بہت زیادہ بگاڑ دیا ہے۔ لوگ دن بھر پوسٹیں دیکھتے رہتے ہیں، ذہن میں بہت کچھ اَلا بلا بھرا جاتا ہے اور پھر ذہن کی پتیلی میں پکنے والی کھچڑی کو لوگوں کے آگے پروسنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ فی زمانہ ایک بڑی بیماری یہ بھی ہے کہ کسی وٹس ایپ گروپ کے ارکان ایک دوسرے کو مختلف پوسٹیں فارورڈ کرنے کے بعد زبانی بھی بتا رہے ہوتے ہیں۔ وٹس ایپ پر کچھ بھی دیکھنے کے بعد اُسے بیان کرنے اور فوری طور پر کوئی نتیجہ اخذ کرنے کی بیماری بھی ذہنوں میں جڑ پکڑ چکی ہے۔ لوگ کوئی بھی سوشل میڈیا پوسٹ دیکھتے ہیں، فوری نتیجہ اخذ کرتے ہیں اور بولنا شروع کردیتے ہیں۔ کچھ دیر میں معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ پڑھا تھا وہ تو ''فیک‘‘ تھا! تعقل کا تقاضا ہے کہ کچھ بھی دیکھ اور سن کر فوری نتیجہ اخذ نہ کیا جائے، تھوڑا سا انتظار کرکے دیکھا جائے کہ معاملہ ہے کیا۔ مگر اِس کی توفیق کتنوں کو نصیب ہوتی ہے؟ چند ایک ہی کو! اکثریت کا عالم یہ ہے کہ ٹی وی پر کوئی ٹِکر دیکھ کر یا سوشل میڈیا پر کوئی پوسٹ دیکھ کر ''عِلمیت‘‘ کا دریا بہانے لگتے ہیں۔ کوئی اِس دریا میں پیر بھی رکھنے کو تیار نہ ہو تو یہ مانتے نہیں اور اُسے ڈُبکیاں لگانے پر مجبور کرتے ہیں!
ہمارے ہاں اب یہ تصورکرلیا گیا ہے کہ زبان عطا کی گئی ہے تو اُسے زیادہ سے زیادہ دیر بولنے میں مصروف رکھنا چاہیے۔ ذہنوں میں یہ تصور‘ کسی جواز کے بغیر‘ راسخ ہوگیا ہے کہ جو کچھ دیکھا، پڑھا اور سنا جائے وہ نمک مرچ لگاکر بیان کرنا ہی چاہیے۔ یوں بلا جواز بولنے کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے۔ بولنے بلکہ بولتے رہنے کی بیماری کی ایک منطقی نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ وقت بھی ضائع ہو رہا ہے اور توانائی بھی۔ لوگ کسی جواز کے بغیر دوسروں کو کچھ نہ کچھ بتانے پر تلے رہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں خاموشی اب ''نعمتِ ناپید‘‘ سی ہوکر رہ گئی ہے۔ کسی کو کچھ دیر سکون سے بیٹھنا بھی نصیب نہیں۔ یہ گھر گھر کی کہانی ہے۔ خاموش بیٹھنا اب کارِ محال ہے۔ کچھ نہ کچھ بولتے رہنے کو زندگی کا بنیادی یا کلیدی مقصد گردان لیا گیا ہے۔
لوگوں کو عمومی سطح پر بلا جواز بولتے رہنے کے نقصانات کا کچھ اندازہ ہی نہیں۔ کسی مقصد کے بغیر بولتے رہنے سے وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور توانائی بھی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دوسروں کو خواہ مخواہ الجھن کا سامنا رہتا ہے۔ بولنے کا ہَوکا کام کے ماحول کو بھی آلودہ کرتا ہے۔ اگر کسی دفتر میں دو‘ تین آدمی بلا جواز بول رہے ہوں تو باقی سب لوگ اپنے کام میں دشواری محسوس کرتے ہیں کیونکہ انہماک برقرار نہیں رہ پاتا۔ کم بولنا ہی دانش مندی ہے۔ اِس سے اپنا اور دوسروں کا انہماک زیادہ متاثر نہیں ہوتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں