"MIK" (space) message & send to 7575

کھونٹے

مرزا داغؔ دہلوی کی زبان کے معیار سے کسے انکار ہوسکتا ہے؟ اُن کے اشعار میں دہلی کی بول چال نظر آتی ہے۔ وہ زبان و بیان پر قابلِ رشک عبور رکھتے تھے اور قلعۂ معلیٰ میں بولی جانے والی زبان کے ساتھ ساتھ دہلی کے گلی کوچوں کی زبان کو بھی اپنی فکری کاوشوں میں سمونے کا ہنر جانتے تھے۔ داغؔ ہی نے کہا تھا ع
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
اور یہ دعویٰ بھی اُنہی کا تھا ع
کہ آتی ہے اُردو زباں آتے آتے
داغؔ کے کئی مصرع زباں زدِ عام ہوئے۔ میرؔ کی طرح اُن کا فرمایا ہوا بھی مستند ہی ٹھہرا۔ یہ مصرع کس نے نہیں سُنا؟ ع
حضرتِ داغؔ جہاں بیٹھ گئے‘ بیٹھ گئے
بیشتر معاملات میں حقیقت و اہمیت مستقل مزاجی کی ہے۔ جس میں مستقل مزاجی ہے وہی کچھ کر پاتا ہے۔ زندگی بہت سے مواقع سے نوازتی ہے۔ سوال مواقع سے ہم کنار ہونے کا نہیں‘ اُن سے بطریقِ احسن مستفید ہونے کا ہے۔ کسی بھی اچھے موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے مستقل مزاجی ناگزیر ہے۔ جس نے یہ وصف پروان چڑھایا‘ وہ قابلِ رشک کامیابی سے ہم کنار ہوا۔ بہت سے انسان کھونٹوں کی طرح ہوتے ہیں۔ گڑ گئے تو گڑ گئے۔ کسی بھی چیز کو اِدھر اُدھر ہونے سے بچانے کے لیے کھونٹا گاڑ کر اُس سے باندھنا پڑتا ہے۔ کھونٹے سے بندھا جانور کہیں نہیں جاتا۔ اگر وہ واقعی بہت طاقتور ہو تو کھونٹے کو اُکھاڑ کر چل دیتا ہے۔ ویسے عام طور پر ایسا ہوتا نہیں! بڑے اور تنومند جانور بھی کھونٹے سے باندھے جانے پر بندھے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور زیادہ مزاحمت نہیں کرتے۔ جانوروں کا دماغ اِتنا ہی کام کرتا ہے۔ اور انسانوں کا دماغ؟ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ہمارا دماغ کس طور کام کرتا ہے؟ ہمارے دماغ کا ارتقا جاری رہتا ہے۔ دماغ و ذہن میں بہت کچھ داخل ہوتا رہتا ہے۔ یہ سب کچھ ذہن کی مجموعی کارکردگی پر بھی اثر انداز ہوتا ہے اور ساخت پر بھی۔ ذہن میں بہت سی معلومات جمع ہوں تو ہمارے لیے ڈھنگ سے کام کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ ڈھنگ سے جینے کے لیے معلومات کا ہونا لازم ہے مگر معلومات معقولیت اور ضرورت کے دائرے میں ہونی چاہئیں۔ غیر ضروری معلومات بھی ذہن کو الجھن سے دوچار کرتی ہیں اور معقول معلومات بھی نامعقول حد تک ہوں تو خرابی ہی پیدا کرتی ہیں۔ ذہن کی ایک نمایاں خصوصیت ذرا سا موقع ملنے پر بھٹکنا بھی ہے۔ ذہن کو آوارہ گردی بہت پسند ہے کیونکہ اِس میں کرنا کچھ نہیں پڑتا اور مزہ بہت آتا ہے۔ ذہن کی آوارہ گردی کیا ہے؟ کسی بھی معاملے پر غور کرنا، کسی بھی چیز میں دلچسپی لینا اور کچھ بھی کرنے پر آمادہ ہو جانا۔ یہ بجائے خود خوبی بھی ہے اور خامی بھی۔ ذہن کا لگا بندھا نہ ہونا بہت اچھی بات ہے مگر اُس کا کسی بھی معاملے میں کہیں نہ ٹِکنا بھی زیادہ اچھی بات نہیں۔ ذہن کو کہیں نہ کہیں تو رُکنا اور ٹِکنا ہی چاہیے کیونکہ اِسی صورت اندازہ ہوسکتا ہے کہ اُس میں ہے کیا اور وہ کیا کرسکتا ہے۔
ذہن اگر فضول معاملات اور ناکارہ و فاضل معلومات سے بھرا ہوا ہو تو کوئی بھی ٹھوس رائے آسانی سے قائم نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ ذہن کو ڈھنگ سے کام کرنے کے قابل بنایا جائے تو لازم ہے کہ اُسے کچھ کرنے کو کہا جائے، کوئی حکم دیا جائے۔ ذہن کو حکم دینا؟ ذہن کو کسی خاص راہ پر گامزن کرنا لازم ہے کیونکہ ایسا کرنے ہی سے وہ ڈھنگ سے کچھ کرنے کے قابل ہو پاتا ہے۔ اس معاملے میں جیمز ایلن کی رائے بہت صائب ہے۔ جیمز ایلن کا شمار شخصی ارتقا کی نمایاں ترین شخصیات میں ہوتا ہے۔ اس نے زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے انتہائی کارآمد مشورے دیے۔ یہ مشورے اُس کی کئی کتابوں میں درج ہیں۔ یہ کتابیں آج بھی غیر معمولی مقبولیت سے ہم کنار ہیں۔ As a Man Thinketh اُن کی مقبول ترین کتاب ہے۔ جیمز ایلن نے کم و بیش ایک صدی قبل کہا تھا کہ ذہن کو بھٹکنے اور بے لگام ہونے سے بچانے کا سب سے معقول طریقہ یہ ہے کہ اُس کے لیے چند بڑے چیلنجز کا اہتمام کیا جائے، اسے چند بڑے کاموں پر لگادیا جائے، چند اہداف کے حصول کی راہ پر گامزن کردیا جائے۔
ذہن کو کام پر لگانا ناگزیر ہے۔ طاقت محض وجود رکھتی ہو تو کسی کام کی نہیں ہوتی۔ طاقت سے کام لیا جائے تو اُس کے ہونے کا پتا چلتا ہے۔ کوئی اگر خوب کھا پی کر‘ ورزش کرکے اپنے آپ کو تگڑا کرلے تو؟ کیا محض تگڑا ہونا کافی ہے؟ سوال یہ ہے کہ وہ تگڑا ہوکر کرے گا کیا؟ اگر پہلوانی کرنی ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ سخت جاں فشانی والے کام کرنے ہیں تو بھی معاملہ سمجھ میں آتا ہے۔ اگر کوئی مقصد نہ ہو تو جسم کو طاقت کا مرکز بنانے سے کیا حاصل؟ ذہن کا بھی ایسا ہی تو معاملہ ہے۔ ہم ذہن کو مختلف حوالوں سے پروان چڑھا سکتے ہیں۔ ایک اچھا طریقہ تو مطالعے کا ہے۔ ہم جتنا مطالعہ کرتے ہیں ذہن اُتنا ہی توانا اور کارگر ہوتا جاتا ہے۔ مشاہدہ بھی ذہن کو توانا تر بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ ذہن کو مزید مضبوط اور کارگر بنانے کا ایک اور اچھا طریقہ ہے تربیت۔ کسی بھی شعبے سے متعلق عملی پہلو سیکھنے کو تربیت کہا جاتا ہے۔ بیماریوں اور دواؤں کے بارے میں پڑھتے رہنے سے کوئی ڈاکٹر نہیں ہو جاتا۔ اس کے لیے باضابطہ کلاسیں لینا پڑتی ہیں اور علاج کے طریقے سیکھنا پڑتے ہیں۔ علاج کے ایس او پیز یعنی طے شدہ طریق ہائے کار کو جانے بغیر اور اُن میں مہارت پیدا کے بغیر کوئی ڈاکٹر نہیں بن سکتا۔ اب سوال یہ ہے کہ بہت کچھ پڑھ کر، مشاہدہ کرکے یا تربیت پانے کے بعد ذہن کو انتہائی توانا بنانے کا مقصد کیا ہے؟ محض مطالعہ کرتے رہنے سے ذہن کی کارکردگی بہتر نہیں ہوتی۔ مطالعہ کسی نہ کسی بڑے مقصد کے تحت کیا جانا چاہیے۔ انسان اچھا بولنے کے لیے بھی پڑھتا ہے۔ اچھا لکھنے کے لیے بھی بہت پڑھا جاتا ہے۔ بالکل اِسی طور مشاہدہ بھی کسی نہ کسی مقصد کے تحت ہونا چاہیے۔ کسی کو اداکاری میں مہارت پیدا کرنی ہے تو مشاہدہ وسیع اور وقیع ہونا چاہیے۔ خطابت میں بھی مشاہدہ بہت کام آتا ہے۔ اگر کوئی مقصد نہ ہو تو غیر معمولی مشاہدہ ذہن کو بوجھل بناتا ہے۔ ایسے میں ذہن اِدھر اُدھر چرتا اور جُگالی کرتا پھرتا ہے۔ ذہن کو بے لگام چھوڑنا کسی بھی ماحول میں کوئی اچھا عمل نہیں ہوتا۔ ذہن کو کام پر لگانا ہی پڑتا ہے، کسی نہ کسی کُھونٹے سے باندھنا ہی پڑتا ہے۔ جیمز ایلن کا مشورہ صائب ہے کہ جب ذہن بھٹک رہا ہو اور قابو میں نہ آرہا ہو تب اُسے چند بڑے کاموں میں لگایا جائے۔ یہ بڑے کام وہی کردار ادا کرتے ہیں جو جانوروں کو ایک جگہ محدود رکھنے کے لیے کھونٹے ادا کرتے ہیں۔ کھونٹوں سے بندھے ہوئے جانور اِدھر اُدھر بھٹک کر اپنی توانائی ضائع نہیں کرتے۔ اُن سے کسی کو نقصان پہنچتا ہے نہ اُنہیں کوئی نقصان پہنچتا ہے۔ ذہن بھی چند بڑے کاموں میں لگا رہے، منہمک رہے تو اپنی توانائی کو درست انداز سے بروئے کار لانے کے قابل ہو پاتا ہے۔ ذہن کا بہترین استعمال اِس کے سوا کیا ہے کہ وہ کسی بڑے اور مفید مقصد کے حصول کے لیے کھپ جائے؟
کھونٹے تلاش کیجیے۔ اگر کھونٹے مل نہ پائیں تو خود بنائیے۔ سوچیے کہ آپ کے نزدیک کون سا مقصد اس قابل ہے کہ ذہن کی توانائیاں اُس پر صرف کر دی جائیں۔ آپ بہت کچھ کرنا چاہتے ہوں گے۔ چند ایک معاملات میں آپ سنجیدہ ہوں گے اور چند ایک معاملات کو محض سرسری لیتے ہوں گے۔ جو کچھ آپ کرنا چاہتے ہیں اُس کے حوالے سے اپنے ذہن کو یک سُوئی کی راہ پر گامزن کیجیے۔ مقاصد کے تعین کا معاملہ انہماک کے مرحلے سے گزاریے۔ یہ اہم مرحلہ ہے۔ اچھی طرح طے کیجیے کہ ذہن سے کیا اور کتنا کام لیا جانا چاہیے۔ ہر بڑا مقصد اور ہر بڑا کام ذہن کو مستحکم رکھنے والا کھونٹا ہوتا ہے۔ اِس کھونٹے سے بندھنے کے بعد ہی ذہن اِدھر اُدھر بھٹکنے سے باز رہتا ہے۔ ذہن کے لیے کھونٹا نہ صرف یہ کہ ہونا چاہیے بلکہ مضبوط ہونا چاہیے۔ ایک مضبوط کھونٹا ہی ذہن کو ضائع ہونے سے بچا سکتا ہے۔ فی زمانہ ذہن کو بھٹکاتے پھرنے والے معاملات بہت زیادہ ہیں۔ ایسے میں چند بڑے مقاصد کے حصول کی کوشش ہی حقیقی ذہنی تسکین کا ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں