"MIK" (space) message & send to 7575

کام کی لگن برقرار رکھنے کا مسئلہ

خالص پروفیشنل بنیاد پر کام کرنے والے کسی بھی کاروباری ادارے کے لیے سب سے بڑا اور حقیقی اثاثہ کیا ہے؟ سرمایہ؟ یقینا سرمایہ بہت اہم ہے مگر وہ سب کچھ نہیں۔ کاروباری مواقع؟ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ کاروباری مواقع شاندار ہوں تو کوئی بھی ادارہ ڈھنگ سے کام کرتے ہوئے اپنے لیے زیادہ سے زیادہ بڑھوتری یقینی بنانے میں کامیاب رہتا ہے۔ پھر بھی کاروباری مواقع کو سب کچھ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مقامِ کار؟ کسی بھی کاروباری ادارے کو کامیابی سے ہم کنار کرنے اور ہم کنار رکھنے میں مقام بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کاروباری دنیا اس بات کو بہت اہمیت دیتی ہے کہ دفتر، شو روم، فیکٹری اور گودام وغیرہ ایسی جگہ پر ہوں جہاں تک رسائی آسان ہو اور کسی بھی ہنگامی صورتِ حال میں جو کچھ فوری طور پر کرنا ہو‘ وہ کسی بڑی الجھن کے بغیر کیا جاسکے۔
کسی بھی کاروباری ادارے کے لیے سب سے بڑا سرمایہ اُس کی افرادی قوت ہے۔ ملازمین اور اُن کے انچارجز کی کارکردگی اُسی وقت معیاری ہوسکتی ہے جب وہ خود اعلیٰ معیار کی صلاحیتوں اور مہارت کے حامل ہوں۔ کسی بھی آجر کے لیے ممکن ہی نہیں کہ اپنے ادارے کی کامیابی یقینی بنانے کے عمل میں اجیر کی کارکردگی اور کردار کو نظر انداز کرے۔ اگر کوئی آجر ایسا کرتا ہے تو در حقیقت اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارتا ہے۔ کسی بھی آجر کے لیے اس بات کی اہمیت غیر معمولی ہوتی ہے کہ اُس کے اجیر زیادہ اور بہتر کام کرنے پر یقین رکھتے ہوں۔ جو کچھ دیا جارہا ہو یعنی جو اجرت یا تنخواہ ادا کی جارہی ہو اُس سے کچھ زیادہ حاصل کرنا ہر آجر کا مقصد ہوتا ہے مگر یہ ایسا آسان نہیں کہ سوچئے اور ہو جائے۔ کوئی بھی آجر اپنے ہر اجیر سے اُسی وقت بھرپور کام لے سکتا ہے جب وہ اجرت یا تنخواہ کے ساتھ ساتھ چند دوسری باتوں کا بھی خاص خیال رکھے۔ کسی بھی ادارے کے لیے کام کرنے والے محض اجرت یا تنخواہ سے مطمئن نہیں ہوتے۔ اُنہیں چند ایک سہولتیں بھی درکار ہوتی ہیں۔ اگر اُنہیں علاج کی سہولت فراہم کی جائے تو کارکردگی کا معیار بلند ہوتا ہے۔ اِسی طور اگر انہیں کام پر آنے اور گھر واپس جانے کے سلسلے میں ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی دی جائے تو کارکردگی مزید بہتر ہو جاتی ہے۔ معاملہ یہیں تک نہیں رُکتا! کوئی بھی شخص بہتر کارکردگی کا مظاہرہ اُسی وقت کرسکتا ہے جب اُسے بہتر کارکردگی کی تحریک ملتی رہے۔ یہ تحریک مختلف شکلوں میں ملتی یا دی جاتی ہے۔ کام کرنے کی بھرپور لگن ہمہ وقت برقرار رکھنا سب کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ جو لوگ ایسا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں اُن سے پوچھئے تو بتائیں گے کہ اُنہوں نے کتنے جاں گُسل مراحل سے گزر کر اپنے لیے یہ سب کچھ ممکن بنایا ہے۔ کام کرنے کی بھرپور لگن کس طور برقرار رکھی جاسکتی ہے؟ کام کی تحریک دینا وہ عمل ہے جو مستقل محنت کا طالب ہے۔ کام کرنے کی لگن جوان رکھنا انتہائی مشکل کام ہے مگر یہ ناممکن ہرگز نہیں! دنیا بھر میں ایسی ہزاروں بلکہ لاکھوں مثالیں ہیں کہ اداروں نے بھرپور لگن کے ساتھ کام جاری رکھا اور کامیابی برقرار رکھی۔
کسی بھی معاشرے میں تمام افراد کام کرنے کی بھرپور صلاحیت و سکت رکھتے ہیں نہ لگن۔ اس معاملے میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ دنیا بھر میں کاروباری و غیر کاروباری اداروں کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ اُن سے وابستہ افرادی قوت کام کرنے کی بھرپور لگن سے ہم کنار رہے۔ اس حوالے سے سوچنے کی سطح سے بہت بلند ہوکر بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ دنیا بھر میں کم و بیش 52 فیصد ملازمین کام کرنے کی بھرپور لگن برقرار رکھنے میں ناکام رہتے ہیں۔ وہ زیادہ جوش و خروش کا مظاہرہ کرنے کے بجائے سطحی نوعیت کی کارکردگی کے ذریعے کام چلاتے ہیں اور یوں بہت سے اداروں کا زوال واقع ہوتا رہتا ہے۔ پاکستان جیسے معاشروں میں معاملات بہت خراب ہیں۔ کام کرنے کی لگن اول تو پائی نہیں جاتی اور اگر ہوتی بھی ہے تو عملی زندگی کی ابتدا میں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ لگن ماند پڑتی جاتی ہے۔ لوگ روایتی انداز سے بے ڈھنگا سا کام کرتے ہیں اور اُس کے عوض جو معاوضہ ملتا ہے اُسی میں خوش یا مطمئن رہتے ہیں۔
بیشتر کاروباری اداروں کا یہ حال ہے کہ لوگ بالکل عمومی سطح کی لگن کے ساتھ کام کرتے رہتے ہیں۔ ادارہ خسارے میں جارہا ہو تو بھی یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ تنخواہ یا اجرت بڑھاتا رہے۔ کاروباری دنیا میں رونما ہونے والے اتار چڑھاؤ سے ملازمین کو بالعموم کچھ خاص غرض نہیں ہوتی۔ وہ ادارے کو زیادہ منافع کمانے کے قابل بنانے میں کوئی قابلِ ذکر اضافی کردار ادا کرنے میں خاص دلچسپی نہیں لیتے۔ سچ تو یہ ہے کہ جو تنخواہ یا اجرت دی جارہی ہوتی ہے اُس کا حقیقی نعم البدل دینے میں بھی ڈنڈی ماری جاتی ہے۔ یہ سب کچھ زیادہ حیرت انگیز نہیں۔ جیسا معاشرہ ہوتا ہے ویسی ہی افرادی قوت ہوتی ہے۔ کسی بھی کاروباری ادارے میں کام کرنے والے کہیں اور سے نہیں‘ متعلقہ معاشرے ہی سے آتے ہیں۔ معاشرے کی عمومی ذہنیت ہی اُن کام کرنے والوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ حیرانی تو اُس وقت ہوتی ہے جب کسی ادارے کے لوگ زیادہ لگن کے ساتھ کام کرتے ہوئے ادارے کو مضبوط بنائیں اور اپنی صلاحیت و سکت کو کماحقہٗ بروئے کار لاتے ہوئے اپنی کارکردگی کا گراف قابلِ رشک حد تک بلند کریں۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ کسی ادارے کی افرادی قوت اپنے طور پر زیادہ کام کرنے کی لگن پیدا کرے؟ ایسا عام طور پر ہوتا نہیں! کام کرنے کی لگن اُسی وقت بڑھتی ہے جب بڑھائی جاتی ہے۔ کسی بھی ادارے کی بہتر کارکردگی اور منافع کمانے کی صلاحیت بڑھانے کے لیے لازم ہے کہ افرادی قوت کو زیادہ اشتیاق سے کام کرنے پر مائل کیا جائے۔ یہ کام آجر کے کرنے کا ہے۔ اِس کے مختلف طریقے ہوسکتے ہیں۔ افرادی قوت کی استعداد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ قابلیت اور مہارت کا گراف بلند ہو جانے سے بھی کارکردگی کا بڑھنا لازم نہیں ٹھہرتا۔ سوال یہ ہے کہ کسی میں کام کرنے کی لگن کس حد تک ہے۔
دنیا بھر میں آجر اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ افرادی قوت کام کرنے کی بھرپور لگن سے ہم کنار رہے۔ اس کے لیے صرف اضافی اجرت یا کوئی اور مالی منفعت کافی نہیں ہوتی۔ سوال یہ ہے کہ افرادی قوت کی عزتِ نفس کا کس قدر خیال رکھا جاتا ہے، اُسے اس کا بات کا احساس کس حد تک دلایا جاتا ہے کہ وہ اہم ہے اور ادارے کی تعمیر و ترقی میں اُس کا بھرپور کردار ہے۔ جو آجر اپنی افرادی قوت کو اہم ہونے کا احساس دلاتے ہیں وہ دی ہوئی اُجرت سے زیادہ کارکردگی کا حصول یقینی بنانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ پس ماندہ معاشروں کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ آجروں کا بیشتر وقت اجیروں سے لڑنے جھگڑنے میں گزرتا ہے۔ معمولی سی دکان بھی اُسی وقت کامیاب ہوسکتی ہے جب ملازمین یا کاریگروں کو احترام کی نظر سے دیکھا جائے، اُن کے دل کو ٹھیس لگانے سے گریز کیا جائے۔ ہمارے ہاں ملازمین کو احترام کی نظر سے دیکھنے کا کلچر اب تک پیدا نہیں ہوا۔ لوگ کسی کو کام پر رکھتے ہیں تو اُسے محض ملازم نہیں بلکہ غلام سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ سوچ انتہائی غلط اور بے بنیاد ہے۔ کسی بھی انسان کو کام پر رکھنے کا مطلب اُس کی صلاحیت و سکت سے استفادہ کرنا ہے۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب اُس کا اطمینانِ قلب یقینی بنایا جائے۔ کسی بھی ملازم کو زیادہ سے زیادہ سہولت فراہم کرنے کی صورت میں اُس سے بھرپور کام لیا جاسکتا ہے۔ سہولت سے مراد ہے اُسے زیادہ آرام پہنچانے کا اہتمام کرنا۔ اگر کارکردگی کے متاثر ہونے کا خدشہ نہ ہو تو اوقاتِ کار کے معاملے میں تھوڑی بہت رعایت دی جاسکتی ہے۔ اِسی طور اگر کوئی واضح حرج نہ ہو تو دیگر سہولتیں بھی فراہم کی جا سکتی ہیں۔ ملازمین اگر کھانے پینے کے معاملات میں زیادہ وقت صرف کرنے پر مجبور ہوں تو انہیں کھانے پینے کی سہولت فراہم کرکے بھی کارکردگی بہتر بنائی جاسکتی ہے۔ بڑے کاروباری اداروں کو ملازمین میں کام کی لگن برقرار رکھنے کے معاملے پر متعلقہ شعبے کے ذریعے توجہ دینی چاہیے۔ ترقی یافتہ دنیا میں کاروباری ادارے اس معاملے کو کسی بھی حال میں نظر انداز نہیں کرتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں