ایک بات تو اب طے ہوچکی ہے‘ وہ یہ کہ کچھ کرنا ہے تو محض سیکھنا نہیں بلکہ مسلسل سیکھتے رہنا ہے۔ سیکھتے رہنا کب ناگزیر نہ تھا؟ انسان کو ہر دور میں سیکھنے پر مائل ہونا ہی پڑا ہے۔ نیا سیکھے بغیر پُرانے کو موثر اور دنیا کو بہتر بنانے کی گنجائش کب پیدا ہوسکی ہے؟ ہزاروں سال سے انسان سیکھتا ہی تو آیا ہے۔ چار پانچ صدیوں کے دوران یہ عمل بہت تیز ہوا ہے۔ اور اب تو خیر یہ تیزی ہوش اُڑا دینے والی ہے۔ یہ دنیا ہمیشہ ہی اُن کی رہی ہے جنہوں نے سیکھتے رہنے کو ترجیح دی ہے اور جو کچھ سیکھا ہے اُسے رُو بہ عمل لانے کی بھی کوشش کی ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ سیکھنے کا عمل ہی کسی بھی انسان کو دوسروں سے ممتاز کرتا ہے؟ ہر وہ انسان آپ کو نمایاں اور بھرپور صلاحیت کا حامل دکھائی دے گا جس نے سیکھتے رہنے کو زندگی کا ایک بنیادی مقصد بنا رکھا ہو۔ سیکھنے کا عمل ہی انسان کو وہ اعتماد بھی بخشتا ہے جس کی بنیاد پر بڑے بڑے کام کیے جاتے ہیں۔
انسان کو دیگر مخلوق سے ممتاز کرنے والے عوامل اور اوصاف میں سیکھنا بھی شامل ہے اور نمایاں ہے۔ حق تو یہ ہے کہ ہر انسان کے لیے مرتے دم تک سیکھنا لازم ہے۔ سیکھنے ہی کی بنیاد پر تو وہ اپنے آپ کو بدلتے ہوئے حالات کے مطابق بہتر اور کارگر حالت میں رکھ پاتا ہے۔ جو لوگ سیکھنا ترک کردیتے ہیں وہ ٹھہرے ہوئے پانیوں جیسے ہوتے ہیں یعنی جوہڑ کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ ٹھہرا ہوا پانی سڑ جاتا ہے، اُس میں سے تعفّن اٹھتا ہے اور ایسا پانی پینے کے قابل نہیں رہتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِس کی غلاظت بڑھتی جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں ماحول بھی متاثر ہوتا ہے۔ انسان کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ جو انسان سیکھنا چھوڑ دیتا ہے وہ اپنے وجود کو غلاظت اور تعفّن کی نذر ہونے دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اس کی کارکردگی کا گراف گرتا چلا جاتا ہے۔ سیکھنے کا عمل ترک کرنے سے انسان محدود ہوتا جاتا ہے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وہ کچھ زیادہ یا بہتر کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ ہم اپنے ماحول کا جائزہ لیں تو یہ اندازہ لگانے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ آگے وہی بڑھتے ہیں جو اپنے وجود کو زیادہ کارگر بناتے ہیں۔ اپنے وجود کو زیادہ کارگر بنانے کا عمل اِس کے سوا کیا ہے کہ بہت کچھ سیکھا جائے، اپنے آپ کو محض اَپ ڈیٹ نہیں بلکہ اَپ گریڈ کیا جائے؟ جو لوگ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنے آپ کو بدلنے کا رجحان اور ذوق رکھتے ہیں وہ بہت کچھ سیکھنے پر مائل ہوتے ہیں۔ اُن کی کارکردگی کا گراف بھی بلند ہوتا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنی صلاحیت اور اعتماد کا دائرہ وسیع کرتے جاتے ہیں۔ جب صلاحیت اور اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے تو سکت بھی بڑھتی ہے۔ کام کرنے کی لگن توانا ہوتی رہے تو انسان زیادہ اور اچھی طرح کام کرنے کے قابل ہو پاتا ہے۔
فی زمانہ تبدیلیاں بہت تیزی سے رونما ہو رہی ہیں۔ بیشتر تبدیلیاں چاہتی ہیں کہ انسان اپنے آپ کو بدلے۔ انسان کے لیے اپنے آپ کو بدلنا اس لیے ناگزیر ہوگیا ہے کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہ ڈھنگ سے جینے کے قابل نہیں ہو پاتا۔ جو لوگ خود کو بدلنے کا آپشن قبول نہیں کرتے اُن کا انجام بھی ہم نے دیکھا ہی ہے۔ ایسے لوگ ٹھہرے ہوئے پانیوں کی طرح ہوتے ہیں اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ یہ ریلوے سٹیشن پر کسی دور افتادہ کونے میں کھڑی ہوئی خالی، سڑی ہوئی بوگی کی طرح ہو جاتے ہیں۔ کوئی اُن کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ یہ دنیا چڑھتے سُورج کی پجاری کہی جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہے! جن میں صلاحیت و سکت ہوتی ہے اور کام کرنے کی لگن بھی پائی جاتی ہے اُن کی طرف جھکنا فطری امر ہے۔ جو لوگ غروب ہوتے ہوئے سُورج کا سا مزاج رکھتے ہیں اُن میں کون دلچسپی لے گا؟ اگر کوئی چاہتا ہے کہ لوگ اُس میں دلچسپی لیں تو لازم ہے کہ وہ چڑھتے سُورج کی طرح روشن اور تازگی بخش ہو۔
ہمیں بادی النظر میں یہ دنیا بہت مطلبی دکھائی دیتی ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ مطلبی ہونا کیا ہے؟ ہم کم و بیش ہر معاملے میں اپنے مفاد کو ذہن نشین رکھتے ہیں۔ یہ مفاد کسی بھی شکل میں ہوسکتا ہے۔ جب ہم کسی کی مدد کر رہے ہوتے ہیں تب بھی ہمارا کچھ نہ کچھ مفاد ہوتا ہے۔ تب کیا مفاد ہوسکتا ہے؟ کسی کی مدد ہم اس لیے بھی کرسکتے ہیں کہ ہمیں لوگ تشکر اور احترام کی نظر سے دیکھیں، ہم سے متاثر ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اپنی جگہ مطلوب ہے مگر انسان چاہتا ہے کہ جب وہ کسی کی مدد کرے تو لوگ تھورے بہت احترام کے ساتھ دیکھیں۔ یہ کوئی غیر فطری خواہش نہیں! اللہ تعالیٰ کو بھی وہ لوگ پسند ہیں جو مدد ملنے پر متعلقہ فرد کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ تشکر کا اظہار مدد پانے والوں کی روحانی بالیدگی کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ کیا دنیا کو مطلبی قرار دے کر جان چھڑائی جاسکتی ہے؟ شاید نہیں! دنیا نیوٹرل ہے۔ وہ جب کسی میں کوئی بات دیکھتی ہے تو اُس کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور جب کسی میں کچھ بھی نہیں دیکھتی تو اُس سے دور ہوتی چلی جاتی ہے۔ غور کیجیے تو سبھی ایسے ہیں۔ ہم‘ آپ بھی! کیا ہم کسی ناکارہ انسان کو پسند کرتے ہیں؟ کیا ہم کسی ایسے انسان سے دوستی پسند کرتے ہیں جو کسی کے کام نہ آتا ہو؟ یقینا نہیں! جس طور کسی بھی ناکارہ انسان کو پسند نہیں کیا جاتا بالکل اُسی طور، عمل کی دنیا میں، ایسے لوگوں کو پسند کرنے والے بھی خال خال ہوتے ہیں جو سیکھنے کا عمل ترک کردیں۔ کسی مقام پر ساکت ہوکر زندگی بسر کرنے والوں کے پاس دنیا کو دینے کے لیے کچھ خاص نہیں ہوتا۔ جو لوگ سیکھتے رہتے ہیں وہ کچھ نہ کچھ اچھا کرتے رہتے ہیں۔ سیکھتے رہنے کی صورت میں انسان بہت کچھ کرنے کے قابل رہتا ہے۔ زندگی معیار کو بلند کرنے سے عبارت ہونی چاہیے اور معیار کی بلندی صرف اور صرف سیکھتے رہنے سے ممکن ہے۔
فی زمانہ سیکھنا کیا ہے؟ کم و بیش ہر شعبے میں کچھ نہ کچھ نیا ہو رہا ہے۔ ایسے میں لازم ہوگیا ہے کہ پیشرفت پر متوجہ رہا جائے اور اُسی کے مطابق اپنے آپ کو بدلا جائے۔ یہ کام آسان ہے نہ تیزی سے ہونے والا۔ یہ اب زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ اگر کسی نے طے کیا ہے کہ سیکھنا ہے تو پھر یہ بھی طے کرے کہ زندگی بھر سیکھتے رہنا ہے۔ جو زندگی بھر سیکھتے رہتے ہیں وہ اپنا معیار بلند کرتے جاتے ہیں اور چڑھتے سُورج کا سا درجہ پاتے جاتے ہیں۔ وقت ہمیں اُس موڑ پر لے آیا ہے جہاں اپنے آپ کو بدلتے رہنے کے سوا کوئی بھی آپشن نہیں رہا۔ اگر کوئی طے کرلے کہ پست درجے کی زندگی بسر کرنی ہے تو اور بات ہے وگرنہ معیاری زندگی تو کچھ نہ کچھ سیکھتے رہنے ہی کا تقاضا کرتی ہے۔
جدید ترین ٹیکنالوجی اور بالخصوص آئی ٹی سے متعلق ایپس اور دیگر جدتوں نے سیکھنے کے عمل کو تیز اور پیچیدہ کردیا ہے۔ پیشہ ورانہ معاملات میں ہر وقت کچھ نہ کچھ نیا آتا ہی رہتا ہے۔ کوئی کتنی ہی کوشش کرے، کسی ایک مقام پر ٹھہر کر معیاری و پُرسکون اور خوش حال زندگی بسر کرنے کے قابل نہیں ہو سکتا۔ بعض شعبوں میں لوگوں کو سیکھنے کا عمل مستقل بنیاد پر یوں جاری رکھنا پڑتا ہے کہ ایسا کیے بغیر چارہ ہی نہیں ہوتا۔ طب، آئی ٹی اور بینکنگ وغیرہ میں وہی لوگ آگے بڑھ پاتے ہیں جو زیادہ سے زیادہ سیکھتے رہتے ہیں۔ اب اعلیٰ تعلیم کا شعبہ بھی ایسا ہی ہے۔ جو زیادہ پڑھتا ہے، خود کو اَپ ڈیٹڈ رکھتا ہے اور اَپ گریڈیشن کی بھی جسے فکر لاحق رہتی ہے وہی کامیابی کی راہ پر بڑھتا رہتا ہے۔ جو لوگ کہیں رُک جاتے ہیں اور سیکھنے کا عمل ترک کر بیٹھتے ہیں وہ کام تو کرتے رہتے ہیں؛ تاہم کچھ زیادہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے اور یوں اُن کی بے رنگ سی زندگی دور ہی سے پہچانی جاتی ہے۔ آج کی دنیا میں کامیابی کا سب سے بڑا ''فنڈا‘‘ ہے‘ سیکھتے رہنا۔ سیکھتے رہیے گا تو اندازہ ہوگا کہ زندگی کتنی حسین اور رنگین ہے۔ اِس کا حقیقی حُسن صرف اور صرف سیکھتے رہنے میں ہے۔ سیکھنے والے ہی زندگی اور دنیا کو بامعنی پاتے ہیں۔