"MIK" (space) message & send to 7575

… طبیعت اِدھر نہیں آتی

بہانے تلاش کرنے اور تراشنے کی عادت انسان کو کشاں کشاں لیے پھرتی ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ ہر اُس بات پر دھیان دیتے ہیں جو اُن کے لیے کسی اچھے بہانے میں تبدیل ہوسکتی ہو۔ ایسا کیوں ہے؟ لوگ کچھ بھی کرنے سے بھاگتے کیوں ہیں؟ عمل سے بھاگنے کا رجحان ہر معاشرے اور ہر طبقے میں پایا جاتا ہے۔ انسان کا مزاج بنیادی طور پر ایسا ہی ہے۔ یہی سبب ہے کہ اُسے تحریک دینے کے لیے سو جتن کرنا پڑتے ہیں۔ اِس ذیل میں سب سے پُرلطف بات یہ ہے کہ لوگ سستی اور تن آسانی کے بطن سے پیدا ہونے والی قباحتوں کو دیکھتے اور جانتے ہیں مگر پھر بھی اپنی روش تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ ذہنوں میں ایک زبردستی کا گمان پایا جاتا ہے کہ کام تو دوسروں کو کرنا چاہیے، میں کیوں اپنی جان ہلکان کروں! مزید لطف کی بات یہ ہے کہ کم و بیش ہر انسان جانتا ہے کہ اُس کے اپنے ماحول میں اور اُس سے باہر کامیابی صرف اُسے مل سکی ہے جو اعصاب شکن محنت کے مرحلے سے گزرا ہے۔ جاں گسل قسم کی مشقت کے بغیر کسی کو کچھ کب ملا ہے؟ بات صرف دولت کی نہیں‘ حقیقی کامیابی کی ہو رہی ہے۔ انسان محنت کرنے سے بھاگتا کیوں ہے؟ اِس کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ مایوسی کے علاوہ بے دِلی بھی انسان کو محنت سے دور کرتی ہے۔ سنجیدگی کا فقدان بھی پوری توجہ کے ساتھ عمل کی دنیا میں کچھ کرنے کے قابل ہونے سے روکتا ہے۔ انسان کو عمل سے دور کرنے میں کلیدی کردار ناکامی کے خوف کا ہوتا ہے۔ ناکامی کا خوف ہی وہ گڑھا ہے جس میں گرنے کے بعد انسان باہر نکلنے کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیتا ہے۔ ہم عمل کی دنیا میں جی رہے ہیں۔ یہ دنیا ہر دور میں دارالعمل رہی ہے۔ ہر دور میں وہی لوگ کامیاب رہے ہیں جنہوں نے عمل دوست رویہ اپنایا ہے۔ عمل ہی کی مدد سے انسان اپنے تمام مسائل حل کرتا ہے‘ اپنی زندگی کا معیار بلند کرتا اور دوسروں کی مشکلات دور کرتا ہے۔ ناکامی کا خوف انسان کو عمل سے دور کرکے تمام امکانات سے دور کر دیتا ہے۔ معروف برطانوی مصنفہ جے کے رولنگ کہتی ہیں ''اگر کوئی انتہائی درجے کی احتیاط کے ساتھ یوں نہ جی رہا ہو گویا جیا ہی نہیں تب تو یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ کبھی نہ کبھی ناکام ہوئے بغیر زندگی بسر کرلے۔ اگر انسان ناکامی کے خوف سے عمل ہی کو ترک کردے تو پھر ناکامی اُس کے لیے ڈیفالٹ کا معاملہ بن جاتی ہے‘‘۔ کچھ لوگ مزاجاً ڈرپوک ہوتے ہیں اور کچھ بھی کرنے سے ڈرتے ہیں۔ دوسری طرف کچھ لوگ تن آسانی کے ہاتھوں عمل کی دنیا سے دور رہنا پسند کرتے ہیں۔ دونوں ہی کے معاملے میں ناکامی مقدر ہو رہتی ہے۔ مرزا اسداللہ خاں غالبؔ نے کہا تھا ؎
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زُہد
پر طبیعت اِدھر نہیں آتی
کچھ لوگوں کا عمل کے حوالے سے ایسا ہی معاملہ ہے۔ اُنہیں کچھ کرنے کی تحریک دینا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اُن کا ذہن عمل سے دور رہنے کے بہانے ڈھونڈتا رہتا ہے۔ اُن کے شب و روز زیادہ سے زیادہ تن آسانی ممکن بنانے کے طریقوں کے بارے میں سوچنے میں بسر ہوتے ہیں۔ ناکامی کا خوف فطری ہے۔ جو کچھ بھی فطری ہے اُس سے مفر ممکن نہیں۔ فطری معاملات میں شرم محسوس کرنا بھی غیر فطری ہے۔ ہر اُس طرزِ عمل کو غلط قرار دیا جانا چاہیے جسے اپنانے سے دنیا صرف خرابی کی طرف بڑھتی ہے۔ کیا ناکامی کے خوف سے یا حالات سے دل برداشتہ ہوکر عمل سے دامن چھڑایا جاسکتا ہے؟ اور کیا ایسا کرنا دانش کا تقاضا ہوسکتا ہے؟ کسی بھی طور نہیں! کسی بھی انسان کے لیے عمل سے گریز کی راہ پر گامزن ہونا دانش کا تقاضا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ یہ تو حقیقت سے فرار کی روش ہے۔ حقیقت پسندی انسان کو عمل پسند بھی بناتی ہے۔ حقیقت کا ادراک ہی تو انسان کو ڈھنگ سے جینے کی تحریک دیتا ہے۔ ہر معاشرے میں اکثریت کو ناکامی کا خوف ہی زیادہ محنت سے روکتا ہے۔ کامیابی کے لیے انسان کو بہت سی تیاریاں کرنا پڑتی ہیں۔ سب سے پہلے تو اپنے لیے کامیابی کا مفہوم طے کرنا ہوتا ہے۔ جب ایک بار طے کرلیا کہ کامیابی کے بارے میں ذاتی تصور یا نظریہ کیا ہے تب منصوبہ سازی شروع ہوتی ہے۔ کامیابی کئی مراحل سے گزرنے پر ممکن ہو پاتی ہے۔ ہر مرحلے کے تقاضوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔
جو لوگ کسی بھی معاملے سے خوفزدہ ہوکر عمل ترک کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اُنہیں سوچنا چاہیے کہ کامیابی کسی کے لیے بھی بچوں کا کھیل نہیں ہوتی۔ بہت کچھ سیکھنے اور مشق کرنے کے بعد ہی انسان اُس راہ پر گامزن ہو پاتا ہے جو کامیابی کی طرف لے جاتی ہے۔ ناکامی کا خوف انسان کو محدود کردیتا ہے۔ ایسی حالت میں شخصیت پوری طرح کِھلنے سے پہلے ہی مرجھا جاتی ہے۔ ہر انسان کو یہ سوچنا چاہیے کہ ناکامی کے خوف سے عمل کو ترک کرنا کوئی سود مند روش ہوتی تو آج دنیا کس حالت میں ہوتی۔ آج ہمیں جتنی بھی ترقی دکھائی دے رہی ہے اور زندگی میں جتنی بھی آسانیاں ہیں وہ سب کی سب عشروں بلکہ صدیوں کی محنت کا نتیجہ ہیں۔ ڈھائی تین صدیوں کے دوران موجد اور محقق عمل کے میدان میں رہے ہیں تو دنیا کو کچھ مل سکا ہے۔ یہ عمل ترقی یافتہ معاشروں میں آج بھی جاری ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم ترقی یافتہ معاشروں کو علم و فن میں مہارت، تحقیق اور محنت کی بدولت فقید المثال ترقی اور خوش حالی سے ہم کنار دیکھ رہے ہیں مگر پھر بھی اُن جیسا بننے کا ذہن نہیں بناتے۔ جب کسی کو محنت کے نتیجے میں کامیاب ہوتا دیکھ ہی لیا تو پھر ناکامی کا خوف کیوں؟ یہ بھی انسانی مزاج کا انتہائی عجیب پہلو ہے کہ جو کچھ حقیقت کے روپ میں دیکھ لیتا ہے اُس پر بھی یقین کرنے کو تیار نہیں ہوتا اور بیشتر وقت خیالی معاملات میں گم رہتا ہے اور اُسی کو حقیقت سمجھ کر دل کو بہلاتا رہتا ہے ؎
کبھی جوشِ جنوں ایسا کہ چھا جاتے ہیں صحرا پر
کبھی ذرّے میں گم ہوکر اُسے صحرا سمجھتے ہیں
زندگی کے بنیادی تقاضوں میں ہوش مندی بھی شامل ہے۔ ہمیں پورے ہوش و حواس کے ساتھ جینا ہے۔ زندگی کو زیادہ بامقصد اور بامعنی بنانے کا یہی سب سے معقول طریقہ ہے۔ ناکامی کے خوف کو سر پر سوار کرنے کے شوق کی تکمیل کے دوران ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا اِس طور نہیں چلتی۔ کسی بھی معاشرے کو کمزور کرنے والے عوامل میں عمل سے دوری نمایاں ہے۔ جو قوم ذوق و شوقِ عمل سے محروم ہو جاتی ہے اُس کا ذکر تاریخ کے حاشیوں میں بھی نہیں ملتا۔ کسی بھی معاملے میں خوفزدہ ہوکر ذوق و شوقِ عمل ترک کرنے کی عادت انفرادی اور اجتماعی‘ دونوں ہی سطحوں پر شدید اور ہمہ گیر زوال کا باعث بنتی ہے۔ یہ تماشا چشمِ فلک نے بارہا دیکھا ہے اور اب بھی دیکھ رہی ہے۔ زوال پذیر معاشروں کی عمومی طرزِ فکر و عمل کا تجزیہ کیجیے تو معلوم ہوگاکہ ناکامی کے خوف سے ترکِ عمل کی راہ پر چلنے والوں کے حصے میں صرف ناکامی رہ جاتی ہے۔ ایسی حالت میں گزاری جانے والی زندگی ایسی ہوتی ہے گویا گزاری ہی نہ گئی ہو۔ زندگی کو بامقصد اور بامعنی بنانا کبھی کسی کے لیے آسان نہیں ہوتا۔ اس معاملے میں دل پر جبر بھی کرنا پڑتا ہے۔ غیر معمولی محنت سے بھاگنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ جس محنت سے وہ بھاگ رہے ہیں وہی اُنہیں کامیابی دلا سکتی ہے۔ بیٹھے بٹھائے کسے کامیابی ملی ہے؟ منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہونے والوں کو بھی کچھ کرنے اور اپنا آپ منوانے کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ کامیابی اپنی قیمت وصول کرنے ہی پر سکون کا سانس لیتی ہے۔ اس معاملے میں کسی کے لیے کوئی استثنا نہیں۔ شاندار کامیابی جس محنت کی طالب ہوتی ہے وہ سبھی کو کرنا پڑتی ہے۔ کامیاب افراد کے بارے میں پڑھتے رہنے سے یہ نکتہ اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ پورے اخلاص اور دیانت سے کی جانے والی محنت کبھی ضائع نہیں جاتی۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل ایمان کے ساتھ کام کرنے والے ہی اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین ہو اور محنت کا پورا صلہ ملنے کی امید ہو تو ناکامی کے خوف کی گنجائش بچتی ہی نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں