ایک صدی کے دوران تحریک و تحرّک کا شعبہ بہت تیزی سے پروان چڑھا ہے۔ دو‘ ڈھائی سو سال پہلے تک عام آدمی کو ڈھنگ سے جینے کی تحریک دینے کا فریضہ شعرا، مصنفین اور مقررین انجام دیا کرتے تھے۔ اساتذہ بھی اس حوالے سے متحرک رہتے تھے۔ یہ بات براہِ راست نہیں سمجھائی جاتی تھی کہ زندگی کس طور بسر کی جائے کہ کامیاب کہلائیں۔ شعرا اپنی کاوشوں سے عوام کو بہت کچھ سکھانے کی کوشش کرتے تھے؛ تاہم یہ کوشش بھی بالواسطہ ہوا کرتی تھی۔ مصنفین بھی معاشرے کی اصلاح میں اپنا کردار ادا کرتے تھے مگر فکشن کے پردے یا پھر مضامین و تجزیے کی شکل میں۔ آپ بیتی لکھنے کا رواج تب تک پروان نہیں چڑھا تھا۔ ریڈیو، فلم اور ٹی وی کا تو دور دور تک پتا نہ تھا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کسی نے اِن عظیم ایجادات کے بارے میں سوچا بھی نہ تھا۔ ایسے میں عوام کو ڈھنگ سے جینے کی تحریک دینے کا معاملہ بلا واسطہ انداز ہی کا حامل ہوسکتا تھا۔
عوام کی اصلاح اور اُن میں کچھ الگ اور زیادہ کرنے کی لگن پیدا کرنے کے حوالے سے لکھنے اور بولنے کا کلچر ڈیڑھ صدی قبل شروع تو ہوا تھا؛ تاہم اُس نے زور پکڑا 1930ء کے عشرے میں جب امریکہ میں غیر معمولی نوعیت کا معاشی بحران پیدا ہوا۔ اس بحران نے یورپ کو بھی متاثر کیا۔ تب مغربی معاشروں کا عام آدمی شدید بے یقینی کا شکار تھا۔ پہلی عالمی جنگ نے بہت کچھ الٹ پلٹ دیا تھا۔ امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک میں لازم ہوگیا کہ لوگوں کو قنوطیت کے گڑھے سے نکالنے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر کچھ کیا جائے۔ ہزاروں سال سے انسان کو ڈھنگ سے جینے کے قابل بنانے کی خاطر بہت کچھ کہا اور لکھا جارہا ہے۔ ہر تہذیب اور معاشرے میں ایسے اہلِ نظر اور اہلِ قلم ابھرتے رہے ہیں جن کی تحریروں نے لاکھوں کی زندگی بدلی ہے۔ اس سے یہ اندازہ تو کوئی بھی لگا سکتا ہے کہ محنت کی جائے تو لوگوں کو اچھی زندگی بسر کرنے کے قابل بنایا جاسکتا ہے۔ اصلاحِ معاشرہ کے حوالے سے کی جانے والی کوششیں عام آدمی کو ذہن میں رکھتے ہوئے کی جاتی ہیں۔ عام آدمی اس قدر الجھی ہوئی زندگی بسر کرتا ہے کہ اُسے بہت کچھ سکھانے اور سمجھانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔
گزشتہ دنوں رچرڈ برینسن کا ایک جملہ نظر سے گزرا جو کچھ یوں تھا ''سب سے پہلے اس حقیقت کو شناخت اور تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی انسان کسی بھی انسان میں کام کرنے کی بھرپور لگن پیدا نہیں کرسکتا کیونکہ یہ معاملہ یا تو ڈی این اے میں ہوتا ہے یا پھر نہیں ہوتا‘‘۔ بادی النظر میں بات بڑی دلکش ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اِس میں دانش برائے نام بھی نہیں۔ اگر رچرڈ برینسن کی بات درست مان لی جائے تو پھر یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ کسی کو کچھ بھی نہیں سکھایا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی میں جب تک سیکھنے کی لگن نہیں ہوتی‘ تب تک وہ زیادہ نہیں سیکھتا مگر دوسری طرف ایسی لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں مثالیں موجود ہیں کہ تربیت اور ماحول کے ذریعے انسانوں کو تبدیل کیا گیا اور پھر معاشروں میں ایسی تبدیلیاں رونما ہوئیں کہ دنیا دیکھتی رہ گئی۔ خود مغربی معاشرے اِس کی بہترین مثال ہیں۔ مغربی معاشروں نے ایک ہزار سال سے بھی زائد مدت تک جہالت کے اندھیروں میں غرق رہنے کے بعد علم و فن کی روشنی میں جینا شروع کیا۔ یہ راتوں رات ہوا نہ محنت کے بغیر! حقیقت یہ ہے کہ یورپ کے اہلِ دانش نے پورے خطے کا مقدر بدلنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ہزاروں مصنفین اور مقررین نے لوگوں کو زندگی کا پورا ڈھانچا بدلنے کی تحریک دی، اُنہیں بتایا کہ جو زندگی وہ بسر کر رہے ہیں وہ پست درجے کی ہے، اگر ڈھنگ سے جینا ہے تو بہت کچھ بدلنا ہوگا اور سب سے پہلے اپنے آپ کو بدلنا پڑے گا۔
کیا اس حقیقت سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ مغرب کے عام آدمی نے اپنے آپ کو بدلا اور ایسا بدلا کہ دنیا دیکھتی ہی رہ گئی۔ مغرب میں اِتنی بڑی تبدیلیاں کیونکر ممکن ہوئیں کہ معاشرے کے معاشرے تبدیل ہوگئے؟ معاشرے کو کچھ نیا اور بہتر کرنے کی تحریک دینے والوں نے اپنے حصے کا کام کیا اور دنیا نے تبدیلی کا نظارہ کیا۔ پانچ سو سال پہلے کے اور آج کے یورپ کا فرق بتاتا ہے کہ اِس دنیا میں کسی کی بھی صلاحیت کو نکھارا جاسکتا ہے اور کام کرنے کی بھرپور لگن بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔ ہاں‘ رجحان کا ہونا ناگزیر ہے۔ کھیلوں کی مثال لیجیے۔ بہت سے بچے کسی نہ کسی کھیل کو پسند کرتے ہیں۔ اگر اُن کے رجحان کو پرکھ کر صلاحیتوں کو نکھارا جائے تو وہ بڑے ہوکر کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ ہی نہیں لیتے بلکہ اپنے آپ کو منواتے بھی ہیں۔ ایسے لوگ کم ہی ہیں جو کسی سے مدد لیے بغیر اپنے طور پر بڑی زندگی کی تیاری کرسکیں۔ اگر ہر باصلاحیت انسان اپنے طور پر کچھ بن سکتا تو تعلیم و تربیت کے شاندار اداروں کی کوئی ضرورت محسوس نہ کی جاتی۔ موزوں ماحول کی فراہمی سے بھی کسی کو بھرپور جوش و جذبے کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار کیا جاسکتا ہے۔
محض پیدائشی وصف کی بنیاد پر کچھ کرنے کے قابل ہونے والی بات آسانی سے ہضم ہونے والی نہیں۔ یہ کہنا کسی بھی درجے میں حقیقت پر مبنی نہیں کہ ڈی این اے میں یعنی توارث میں نہ ہو تو کسی میں کام کرنے کی لگن پیدا نہیں کی جاسکتی۔ ہم اپنے ماحول میں ایسے بہت سے کامیاب لوگوں کو تلاش کرسکتے ہیں جن کے پورے خاندان میں کوئی ایک فرد بھی غیر معمولی صلاحیت و سکت کا حامل نہیں ملے گا۔ بیشتر کامیاب اداکار، گلوکار، مصنفین اور دیگر ماہرین یا معروف شخصیات کے گھریلو اور خاندانی حالات کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ اُنہوں نے آگے بڑھنے کا جذبہ اپنے طور پر پیدا کیا۔ اس معاملے کا اُن کے ڈی این اے سے کوئی تعلق نہ تھا۔ بہت سے انتہائی کامیاب افراد کی اولاد اور گھر کے دیگر افراد کسی بھی شعبے میں کچھ بھی خاص نہیں کر پاتے۔ کسی میں کچھ نیا اور اچھا کرنے کی لگن کے نہ پائے جانے اور اس معاملے کے موروثی ہونے میں بہت فرق ہے۔ بہت سے لوگ زندگی کو شاندار انداز سے بسر کرنے کے حوالے سے برائے نام جوش و جذبہ بھی نہیں رکھتے مگر اُن کی اولاد میں محض صلاحیت ہی زیادہ نہیں ہوتی بلکہ کام کرنے کی لگن بھی غیر معمولی ہوتی ہے اور ہم اُنہیں کامیابی کی راہوں پر تیزی سے منزلیں پاتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ صلاحیت موروثی ہوسکتی ہے نہ کام کرنے کی لگن۔ انسان اپنے ماحول ہی سے سیکھتا ہے۔ کسی بڑے اداکار کے بچوں میں اگر اداکاری کا شوق پیدا ہوتا ہے تو صرف ماحول کی بدولت۔ انسان جو کچھ دیکھتے ہوئے بڑا ہوتا ہے اُس کے اثرات قبول کرتا ہی ہے۔ پاکستان اور بھارت میں بہت سے اداکاروں کے حالاتِ زندگی کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ اُنہوں نے گھر کے ماحول ہی سے بہت کچھ سیکھا۔ یہی حال دوسرے بہت سے شعبوں کا بھی ہے۔ یہ اکتسابِ فن کا معاملہ ہے نہ کہ موروثیت کا۔ اگر کسی بڑے اداکار کے بچے بھی اداکار ہیں اور یہ موروثی معاملہ قرار دیا جائے گا تو سوال اٹھے گا کہ پھر اُس اداکار کے والد اداکار کیوں نہ تھے؟
ہر انسان کسی نہ کسی شعبے کی طرف جھکتا ہی ہے۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ یہ قدرت کا نظام ہے۔ قدرت نے ہر انسان کے لیے کوئی نہ کوئی شعبہ مختص کیا ہوتا ہے۔ یہ موروثی معاملہ نہیں ہوسکتا۔ جو بھی اپنے میلانِ طبع کو پروان چڑھاتا ہے وہ کامیاب ٹھہرتا ہے۔ اِس کے لیے پہلے مرحلے میں ذہن سازی کرنا پڑتی ہے۔ پھر جسم کو بھی اس قابل رکھنا پڑتا ہے کہ بھرپور محنت کے لیے تیار رہے۔ اِس کے بعد تحریک کا نمبر آتا ہے۔ انسان بہت سے لوگوں اور معاملات سے تحریک پاکر اپنی صلاحیت و سکت بڑھا سکتا ہے، کام کرنے کی لگن کا گراف بھی بلند کرسکتا ہے۔ دنیا بھر میں اکثریت آج بھی اس مغالطے میں مبتلا ہے کہ لوگ محض فطری صلاحیت کی بنیاد پر کامیاب ہوتے ہیں۔ فطری صلاحیت کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں مگر صلاحیتوں میں پیدا کیے جانے والے نکھار کو کیا کہیے گا! تربیت کے ذریعے صلاحیتوں کو نکھار کر مہارت میں بدلا جاسکتا ہے اور شاندار کامیابی کے لیے درکار لگن بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔