یہ نعمت سب سے بڑی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں وجود بخشا ہے۔ ہم محض سانسوں کے تسلسل کے حامل جاندار نہیں بلکہ اس کائنات کا حصہ ہیں۔ یہ بات تو ہم سبھی اچھی طرح جانتے اور مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات اور اس میں موجود تمام جاندار اور بے جان مخلوق کے حوالے سے جو کچھ طے کیا تھا وہ ازل سے ابد تک کا معاملہ ہے۔ ہم آج اس کائنات کا حصہ ہیں تو ہم دراصل اللہ تعالیٰ کی عظیم سکیم کا حصہ ہیں۔ جب خالق و مالک نے اس کائنات کے بارے میں سوچا اور اس کی تشکیل کے مراحل متعین کیے تو ہمیں بھی اُس میں رکھا۔ ہر جاندار خالقِ دو جہاں کی سکیم کا حصہ ہے۔ اس اعتبار سے یہ ماننا پڑے گا کہ خالق نے اُس کا کوئی نہ کوئی مقصدِ تخلیق یعنی کردار بھی ضرور رکھا ہوگا کیونکہ اس کا کوئی بھی عمل غایت سے خالی نہیں۔ انسان تو اشرف المخلوقات ہے‘ ناقابلِ تردید حقیقت یہ ہے کہ حشرات الارض کو بھی حقارت کی نظر سے نہیں دیکھا جاسکتا کیونکہ قدرت نے انہیں اس کائنات میں رکھا ہے تو کوئی نہ کوئی مقصد ہوگا‘ کوئی نہ کوئی کردار بھی ہوگا۔ کسی بھی مخلوق کا کردار یا مقصدِ تخلیق ہماری سمجھ میں نہ آئے تو یہ اور بات ہے۔ (ایمان کے حصے کے طور پر) اس بات پر یقین بہرحال رکھنا پڑے گا کہ قدرت نے کسی کو مقصد یا کردار کے بغیر خلق نہیں کیا۔
ہمارا خلق کیا جانا قدرت کی ایک نمایاں نعمت ہے کیونکہ ہمیں کائنات کا حصہ بناکر یہ تو طے کردیا گیا ہے کہ یہ وجود یونہی نہیں بخش دیا گیا۔ اس کا کوئی نہ کوئی مقصد بھی ہے۔ ہمارا خلق کیا جانا کسی واضح جواز کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ ہم اس کائنات کا حصہ بنائے گئے ہیں تو یقینا قدرت نے ہم سے کوئی نہ کوئی کام لینے کا بھی سوچا ہے، ہمارے لیے کوئی نہ کوئی کردار بھی طے کیا ہے۔ یہ کردار ہمیں بتا بھی دیا گیا ہے۔ دیگر مخلوق کو اُن کا کردار بتانے کی ضرورت نہیں کیونکہ جو کچھ اُنہیں کرنا ہے وہ اُن کی جبلت میں ودیعت کردیا گیا ہے۔ انسان کے سوا ہر مخلوق ایک طے شدہ فریم ورک کے تحت زندہ رہتی ہے اور اپنے حصے کا کام کرتی رہتی ہے۔ اُسے اپنا کردار سوچنا نہیں پڑتا‘ منصوبہ سازی نہیں کرنا پڑتی۔ جو کچھ اُسے کرنا ہے وہ اُس میں ڈیفالٹ طور پر سیٹ ہے۔ یہی سبب ہے کہ اُس سے اُس کے وجود اور کردار کے بارے میں کوئی سوال بھی نہیں کیا جائے گا۔
انسان کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ اُسے جو کچھ کرنے کی خاطر اس کائنات کا حصہ بنایا گیا ہے اُس کے بارے میں بتایا بھی گیا ہے۔ بتانا اس لیے ضروری تھا کہ انسان کو مرضی کے مطابق جینے کا اختیار بخشا گیا ہے۔ دیگر مخلوقات قدرت کے نظام کی مطلق پابند ہیں۔ انسان کواختیار بخشا ہے کہ چاہے تو اپنے خالق کے بتائے ہوئے راستے پر چلے اور چاہے تو شیطان کا بندہ بن کر اپنی دنیا اور آخرت‘ دونوں کو مٹی میں ملالے۔
ہمیں بخشا گیا یہ وجود اس بات کی علامت ہے کہ ہمارا خالق ہم پر مہربان ہے‘ ہم سے کوئی نہ کوئی کام لینا چاہتا ہے۔ زہے نصیب! ہم منتخب کیے گئے ہیں۔ اپنے مقصدِ تخلیق اور کردار کا احساس و ادراک انسان کو عظمت سے ہم کنار کرنے کے لیے کافی ہے۔ قدرت نے ہر انسان کو چند ذمہ داریاں بھی سونپی ہیں۔ یہ ذمہ داریاں بتائی جاچکی ہیں۔ اپنے خالق و مالک کو راضی رکھنا ہے اور اپنی زندگی کو بھی پُرسکون رکھنا ہے۔ ہم جب تک اس دنیا کا حصہ ہیں تب تک ہمیں اپنے خالق کی بتائی ہوئی حدود میں رہتے ہوئے اپنے اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔ ایک عمومی مقصدِ تخلیق تو یہ ہوا کہ ہم اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے والے کام کرتے رہیں۔ اپنے حقیقی مالک کو راضی کرنے والے کام بہت سے ہیں۔ اللہ کے دین کی مدد کرنا، دین کی اشاعت میں اپنا کردار ادا کرنا، اللہ کی مخلوق کو تکلیف نہ پہنچانا، اُس کی مدد کرنا، اپنی زندگی کا معیار بلند کرنا، خود کو دوسروں کی مدد کرنے کے قابل بنانا اور آخرت میں اللہ کے حضور پیش کرنے کے لیے چند اچھے اعمال جمع کرنا، یہ سب کچھ ہماری تخلیق کے بنیادی مقاصد ہیں۔ خوش نصیبی اِس کے سوا کیا ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے بخشے ہوئے وجود کا مقصد یاد رہے، اپنے خالق کو راضی کرنے کی لگن ہمیشہ جوان رہے؟
انسان کے لیے ایک بڑا بلکہ جاں گُسل امتحان یہ بھی ہے کہ اُسے اپنے آپ کو قدرت کا طے کیا ہوا کردار ادا کرنے کے قابل بھی بنانا ہوتا ہے۔ دیگر مخلوقات کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ایک طے شدہ راستے پر چلتی ہیں۔ ان کے لیے خود کو تیار کرنے کا مرحلہ درپیش نہیں ہوتا۔ چرند، پرند اور حشرات الارض کو جو کردار تفویض کیا گیا ہے وہ اُسے ادا کرتے چلے جاتے ہیں۔ اِس کے لیے انہیں کوئی خاص تیاری نہیں کرنا پڑتی کیونکہ اُنہیں ارادہ و اختیار سے نوازا ہی نہیں گیا۔ اور اُن میں شعور بھی اِسی لیے نہیں ہوتا۔ انسان کا تو معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ اُسے سوچنا اور سمجھنا ہے اور اپنے لیے راستہ منتخب کرنا ہے۔ ارادہ و اختیار سے نوازے جانے کی صورت میں اُس کے لیے آزمائش کا اہتمام کیا گیا ہے۔ وہ کسی بھی طرف جاسکتا ہے‘ کچھ بھی کرسکتا ہے۔ شعور اور اختیار کو آزادی سمجھنا سادہ لوحی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ تو اول تا آخر امتحان ہے۔ انسان کو قدم قدم پر اندرونی کشمکش درپیش رہتی ہے۔ وہ ہر معاملے میں فیصلہ کرنے کے مرحلے سے گزرتا ہے۔ یہ کوئی کم آزمائش نہیں۔
وجود کا مل جانا ہی کافی نہیں۔ قدرت کی منشا یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو ان عظیم تر مقاصد کے لیے بھی تیار کریں جن کے لیے ہمیں خلق کیا گیا ہے۔ ہمیں ''ہونے‘‘ کی منزل میں اٹک کر نہیں رہ جانا بلکہ ''بننے‘‘ کے مرحلے سے بھی گزرنا ہے اور یہی حقیقی آزمائش ہے۔ انسان کو قدرت کی منشا کے سانچے میں ڈھلنا ہے۔ اس طرف جانے سے روکنے والے عوامل کم نہیں۔ قدم قدم پر رکاوٹیں ہیں جو آگے بڑھنے سے روکتی ہیں۔ ہر رکاوٹ کو سمجھنا اور دور کرنا انسان پر لازم ہے۔ کوئی بھی رکاوٹ خود بخود نہیں ہٹتی‘ اُسے ہٹانا پڑتا ہے۔
محض ہونے سے بننے تک کا مرحلہ ہی تو انسان کے لیے حقیقی آزمائش اور مقصدِ تخلیق ہے۔ اگر انسان خود کو ڈھیلا چھوڑ دے، جس حال میں خلق کیا گیا ہے اُسی حال میں رہتے ہوئے عمر کی میعاد پوری کردے تو کیا کمال کِیا؟ قدرت کی منشا تو یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو لمحہ بہ لمحہ اَپ گریڈ کرتا رہے، اَپ ڈیٹنگ کے مرحلے سے گزارتا رہے۔ خود کو کسی قابل بنانے کی بہت سی صورتیں ہوسکتی ہیں۔ تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزرنا بھی اِس عمل کا ایک حصہ ہے۔ کردار کی تہذیب بھی اس عمل میں شامل ہے۔ معاملات درست رکھنے پر متوجہ ہونا بھی اسی عمل میں شامل ہے۔ انسان اپنے آپ کو زیادہ کارآمد بناکر دوسروں کے کام آنے کی صورت میں اللہ کے تفویض کردہ کردار کو ادا کرنے کے قابل ہو پاتا ہے۔
ہم جب تک رُوئے ارض پر ہیں تب تک اپنے وجود کو اَپ گریڈ کرتے رہنا ہے۔ قدرت نے بہت کچھ ہمارے ذمے لگایا ہے۔ اپنے وجود کی تشفّی یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے کام بھی آنا ہے۔ انسانوں سے ہٹ کر دیگر مخلوقات کا بھی خیال رکھنا ہے۔ ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہیں۔ بیشتر مخلوقات اپنے متعدد معاملات میں انسانوں کی طرف دیکھنے پر مجبور ہیں۔ انسانوں پر فرض ہے کہ ان کے آرام کا خیال رکھے، ان کے کھانے پینے کا دھیان رکھے اور ان کی سلامتی بھی یقینی بنائے۔ ساتھ ہی ساتھ اپنے خالق سے اپنے تعلق کو مضبوط بنانے پر بھی متوجہ ہونا ہے۔ ہم اس دنیا اور اس میں پائی جانے والی مخلوق میں گم ہوکر اپنے مالک سے اپنے تعلق کو بھول نہیں سکتے‘ بے نیاز نہیں رہ سکتے۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت بھی بہت بڑے اجر کا معاملہ ہے مگر اپنے خالق و مالک کو یاد رکھنا ہے، اُس کے دربار میں بھی باقاعدگی سے حاضر ہوتے رہنا ہے۔
ہمیں جو وجود بخشا گیاہے‘ اُسے زیادہ سے زیادہ بارآور بناتے رہنا ہے۔ جنہیں قدرت نے دانش بخشی ہے اور جو اُس دانش کو بروئے کار لانے پر آمادہ بھی رہتے ہیں‘ وہی ''ہونے‘‘ سے ''بننے‘‘ تک کا مرحلہ کامیابی سے طے کرتے ہیں۔