کامیابی یقینی بنانے والے عوامل میں ہم بالعموم صلاحیت و سکت کے ساتھ ساتھ حالات کو بھی شمار کرتے ہیں۔ اس میں تو خیر کوئی شک نہیں کہ کامیابی کے لیے صلاحیتوں کا حامل ہونا بھی لازم ہے اور سکت کے بغیر بھی کام نہیں چل سکتا۔ کام کرنے کی سچی لگن ناپید ہو تو انسان بہت کچھ چاہتے ہوئے بھی کام نہیں کر پاتا۔ کبھی کبھی موافق حالات کامیابی آسان بنا دیتے ہیں۔ حالات کا موافق ہونا بھی محض اتفاق کا معاملہ ہوتا ہے۔ زندگی اتفاقات کی مرہونِ منت نہیں رہ سکتی۔ کامیابی سے متعلق سوچنے اور بولنے کے عمل میں بالعموم ایک اہم عامل نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ وہ ہے فیصلہ سازی۔
ہم زندگی بھر بہت سی خواہشوں کے حامل رہتے ہیں۔ دل پتا نہیں کیا کیا کرنے کو چاہتا رہتا ہے۔ کیا ہم اپنے دل کی ہر خواہش کے مطابق کچھ کر پاتے ہیں؟ اس سوال کا جواب کبھی اثبات میں نہیں ہو سکتا۔ ہر خواہش پوری نہیں ہوسکتی۔ اس سے بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ جن خواہشوں کو ہم پورا کر سکتے ہیں‘ وہ بھی پوری نہیں ہو پاتیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم وقت پر فیصلے نہیں کر پاتے۔
کوئی بھی کام صرف اس وقت شروع ہو سکتا ہے جب فیصلہ کیا جائے۔ فیصلہ کرنے کا مطلب ہے کام کا ارادہ۔ کام کا ارادہ نہ ہو تو کام ہو ہی نہیں سکتا۔ عام آدمی کا بنیادی مخمصہ یہ ہے کہ وہ بیشتر معاملات میں وقت پر فیصلہ نہیں کر پاتا۔ وقت گزر جانے پر کیا جانے والا فیصلہ بالعموم کسی کام کا نہیں ہوتا اور نقصان ہی پہنچاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ وقت سے پہلے کیے جانے والے فیصلے کا بھی ہوتا ہے۔
کامیاب معاشروں کی ایک بڑی اور نمایاں نشانی یہ ہے کہ وہاں لوگوں کے ذہن الجھے ہوئے نہیں ہوتے۔ وہ کسی بھی معاملے میں فیصلوں کو ٹالتے نہیں اور جو کچھ بھی کرنا ہوتا ہے وہ کر گزرتے ہیں۔ فیصلوں کو ٹالنے کا مطلب ہے کام کو ٹالنا۔ جب ہم کسی معاملے میں فیصلے کی منزل تک نہیں پہنچیں گے تو کام شروع کرنے سے بھی گریز ہی کریں گے۔ کوئی بھی کام (اپنے وقت کے تناظر میں) جتنی دیر سے شروع ہوگا اُتنا ہی زیادہ پریشان کن ثابت ہوگا۔ ہر معاملے اور ہر کام کا ایک وقت تو ہوتا ہی ہے۔ ہمیں وہ وقت پہچاننا ہوتا ہے۔ عمومی سطح پر ہم اس قابل تو ہوتے ہی ہیں کہ کام کا وقت پہچانیں مگر دیکھا گیا ہے کہ لوگ کام کا ذہن نہیں بنا پاتے۔ یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ ٹالتے رہنے سے بھی کام ہو جایا کرتے ہیں۔
ٹال مٹول سے گریز کی عادت اپنائی جائے تو انسان اپنے بیشتر معاملات میں بالکل درست وقت پر فیصلہ کرنے کے قابل ہو پاتا ہے۔ نفسی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ ہر دور میں جتنے بھی بڑے کام ہوئے ہیں اُن میں بنیادی کردار فیصلے کا رہا ہے۔ فیصلوں کی نوعیت ہی بتاتی ہے کہ کوئی اپنے ذہن کو بھیڑ بھاڑ سے کس حد تک اور کس طور محفوظ رکھ سکا ہے۔ بیشتر کا معاملہ یہ ہے کہ غیرمعمولی صلاحیت و سکت کے حامل ہونے کے باوجود فیصلے کرنے میں یا تو تاخیر کرتے ہیں یا پھر فیصلے کرتے ہی نہیں ہیں۔ صلاحیت و سکت کا حامل ہونا بہت اچھی بات سہی مگر یہ سب کچھ نہیں ہے۔ کسی بھی شعبے میں بہت سے معمولی صلاحیت رکھنے والے بھی نام کمانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ کیوں؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ ہو سکتا ہے۔ ایسا اُس وقت ہوتا ہے جب غیرمعمولی صلاحیت رکھنے والے کچھ کرنے سے متعلق فیصلہ نہ کر پائیں اور اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں۔ لازم نہیں کہ ہر باصلاحیت فرد اچھی کارکردگی کا حامل ہو‘ کامیابی سے ہم کنار ہو۔ بات ایسی مشکل نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے یا سمجھی نہ جا سکے۔ آپ کسی بھی شعبے میں عمومی سی ذہانت کے حامل افراد کو بھی قابلِ رشک حد تک کامیاب دیکھ سکتے ہیں۔ اُن کی کامیابی کام کی بدولت ممکن ہو پاتی ہے۔ کام اُسی وقت ہو پاتا ہے جب انسان اپنے ذہن کو فضول باتوں سے بچاکر یکسو کرے اور موزوں ترین وقت پر فیصلے کرکے عمل نواز رویہ اپنائے۔
فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہی وہ وصف ہے جو انسان کو ڈھنگ سے کام کرنے اور دوسروں کے لیے مثال بننے کے قابل بناتا ہے۔ انسان فیصلہ اُسی وقت کر پاتا ہے جب ذہن یکسو ہو۔ ذہن کی یکسوئی انسان کے مزاج کو ظاہر کرتی ہے۔ جب ذہن منظم اور قابو میں ہو تب ہی کچھ کرنے کا ارادہ سامنے آتا ہے۔ بکھرے ہوئے ذہن کے ساتھ فیصلے نہیں کیے جا سکتے۔
فیصلے وقت پر کیے جائیں تو زیادہ سُود مند ثابت ہوتے ہیں۔ بے وقت کیے گئے فیصلے کبھی کبھی نقصان ہی پہنچاتے ہیں۔ فیصلے اچھے ہوں یا برے‘ کیے جانے چاہئیں۔ ذہن کا اٹکاؤ بری چیز ہے۔ جب ذہن اٹکا اور بھٹکا ہوا ہو تب فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ فیصلہ نہ ہو پائے تو کام یا تو شروع نہیں ہو پاتا یا پھر ڈھنگ سے مکمل نہیں ہو پاتا۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ فیصلے سے گریز میں اپنے لیے عافیت کا سامان پاتے ہیں۔ عافیت کی یہ شکل سر بہ سر خسارے سے عبارت ہے۔ الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ جینے میں خسارے کے سوا کچھ نہیں رکھا۔ معاشرے میں آپ کو ایسی بہت سی مثالیں مل جائیں گی کہ محنت اور خطرات سے بچنے کے لیے فیصلے موخر کیے جاتے رہے اور پھر اتنا وقت گزر گیا کہ فیصلے کرنے کا وقت ہی نہ رہا۔ پھر اگر کسی نے فیصلہ کیا بھی تو کسی کام کا نہ نکلا۔
کاروباری اور پیشہ ورانہ دنیا میں ٹائمنگ بہت اہمیت رکھتی ہے۔ کاروباری دنیا میں تو اہمیت ہی صرف اس بات کی ہے کہ فیصلہ بروقت کیا جائے۔ ویسے ٹائمنگ کا معاملہ صرف کاروباری معاملات محدود نہیں‘ پوری کی پوری زندگی ہم سے بروقت فیصلے مانگتی ہے۔ کسی بھی معاملے میں تساہل اور تاخیر کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اگر کوئی فیصلہ نہ کرے اور معاملات کو ٹالتا رہے تو بالآخر خرابی اتنی بڑھتی ہے کہ ڈھنگ سے کام کرنا ممکن نہیں ہو پاتا۔
زندگی کا ہر معاملہ چونکہ ہم سے فیصلے کے معاملے میں موزوں بلکہ آئیڈیل ٹائمنگ کا تقاضا کرتا ہے‘ اس لیے لازم ہے کہ اس حوالے سے خود کو نفسی یا ذہنی طور پر تیار کیا جائے۔ عمومی مزاج یہ ہے کہ کسی بھی معاملے پر سرسری سی نظر ڈالیے اور فیصلہ کیجیے یا نہ کیجیے۔ کام کرنے کا یہ طریقہ کسی بھی طور درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کسی معاملے پر ایک نظر ڈال کر کیا جانے والا فیصلہ اپنی اصل میں فیصلہ نہیں ہوتا۔ ایسا کوئی بھی فیصلہ اچھے نتائج بھی دے سکتا ہے اور برے بھی۔ فیصلہ وہی معیاری ہوتا ہے جو سوچ سمجھ کر‘ تمام متعلقہ معاملات کا جائزہ لے کر قدرے پرسکون ذہنی حالت میں کیا جائے۔ فیصلوں کا معیاری ہونا اس لیے لازم ہے کہ انہی سے عمل بھی جڑا ہے اور نتائج بھی۔ فیصلہ غلط ہو تو عمل بھی متاثر ہوتا ہے اور نتائج بھی۔ بہت سے معاملات میں ہم محض جذباتی ہوکر فیصلہ کر بیٹھتے ہیں اور پھر خمیازہ بھی بھگتتے ہیں۔
ابراہم لنکن نے کہا تھا کہ میں کسی بھی معاملے میں فیصلہ کرنے سے پہلے بہت سوچتا ہوں اور یہ عمل اس لیے ضروری ہے کہ فیصلے ہی سے تو عمل کا رخ متعین ہوتا ہے۔ انہوں نے اس معاملے میں کلہاڑی کی مثال دی۔ ان کا کہنا تھا کہ درخت کاٹنے کے لیے بہت محنت اور جاں فشانی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے مگر کامیاب لکڑ ہارے وہ ہیں جو کلہاڑی کے پھل کی دھار تیز رکھنے پر خاص توجہ دیتے ہیں۔ اگر کلہاڑی کی دھار تیز نہ ہو یا پھر ٹوٹی ہوئی‘ کُند ہو تو درخت یا لکڑی کاٹنے کا عمل خاصا مشکل ثابت ہوتا ہے۔ فیصلوں کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ فیصلے درست ہوں تو کام آسان ہو جاتا ہے۔ غلط فیصلے انسان کو مزید الجھنوں سے دوچار کرتے ہیں۔ ذہن واضح ہو اور کسی بھی معاملے میں بے جا طور پر بھٹکتا نہ ہو تو انسان بڑے اور اہم فیصلے بھی اچھی طرح کرتا ہے۔ اس حوالے سے تیار کیا جانے والا ذہن معاملات کو زیادہ کارگر طور پر تکمیل کی منزل تک پہنچاتا ہے۔
فی زمانہ ہر شعبے میں مسابقت بہت زیادہ ہے‘ اس لیے محنت بھی بہت کرنا پڑتی ہے۔ ذہن بھٹکے ہوئے ہیں اور بھٹکتے رہنے پر بضد بھی ہیں۔ ایسے میں انہیں درست اور بروقت فیصلوں کے لیے تیار کرنا انتہائی دشوار گزار مرحلہ ہے۔ اس مرحلے سے گزرے بغیر چارہ بھی نہیں۔ کامیاب زندگی کے لیے درست اور بروقت فیصلے یقینی بنانے پر توجہ دیجیے۔