"MIK" (space) message & send to 7575

بے روزگاری کہاں ہے!

معیشت کا بُرا حال ہے۔ سیاست دان اس حوالے سے دل دہلا دینے والی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ معاشی خرابیاں ہیں مگر اُن کی ''فِیل‘‘ زیادہ آ رہی ہے۔ معیشت کی خرابیوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر محض خرابیوں کا ذکر کرکے معاملات کو درست نہیں کیا جاسکتا۔ معاشی خرابیاں معاشروں میں ہلچل پیدا کرتی ہیں۔ دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ معاشی خرابیوں کا رونا رو روکر اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کیا جائے۔ ہر پریشانی اصلاً اس لیے ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طور تدارک کے بارے میں سوچا جائے۔
قومی معیشت کا حال راتوں رات بُرا نہیں ہوا۔ یہ عشروں کے تفاعل کا نتیجہ ہے۔ کم و بیش ڈھائی عشروں کے دوران مختلف سطحوں پر خرابیوں کو پروان چڑھنے دیا گیا‘ تبھی معاشرے میں اب ہر طرف خرابیاں دکھائی دے رہی ہیں۔ اب یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ کس چیز نے کس چیز کو متاثر کیا ہے۔ کوئی کہتا ہے معاشرتی خرابیاں معاشی الجھنیں بڑھارہی ہیں۔ کسی کا کہنا ہے کہ معاشی الجھنوں نے معاشرتی پیچیدگیاں پیدا کی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب ملا جلا معاملہ ہے۔ کس کے ہاتھوں کتنی خرابیاں پیدا ہوئی ہیں اس کا تعین بعد میں کیا جائے گا۔ فی الحال تو یہ دیکھنا ہے کہ خرابیوں کو دور کیسے کیا جائے۔ معاشی الجھنیں زیادہ اثرات کی حامل ہوتی ہیں۔ شدید معاشی مشکلات زندگی کے معاشرتی پہلو کو بھی بُری طرح متاثر کرتی ہیں۔ اخلاقی خرابیاں بھی بالعموم معاشی پیچیدگیوں ہی کے بطن سے نمودار ہوتی ہیں۔ پھر بھی ہم تمام الزام معاشی خرابیوں کے سر منڈھ کر سکون کا سانس نہیں لے سکتے۔ ہر معاملے میں ذمہ داری قبول کرنے کی روش پر گامزن ہوئے بغیر ہم اپنے معاملات کو درست نہیں کرسکتے۔ بہر کیف‘ سرِدست مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ طرح طرح کی معاشی الجھنوں سے اَٹا ہوا ہے۔ مہنگائی کا دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ عام آدمی کی قوتِ خرید میں جس تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے اُتنی ہی تیزی سے بدحواسی بھی بڑھ رہی ہے۔ اِس طرح کے معاملات میں ایسا تو ہوتا ہی ہے۔ جب انسان ڈھنگ سے جینے کے مالیاتی وسائل حاصل نہیں کر پاتا تب پریشانی ہی کا سامنا رہتا ہے۔ یہ حقیقی بنیادی مسئلہ ہے۔ عام آدمی کے لیے اپنے اور اہلِ خانہ کے لیے ڈھنگ سے پیٹ بھرنے کا اہتمام کرنا بھی دشوار تر ہوتا جارہا ہے۔ کرائے کے مکانوں میں رہنے والوں کی مشکلات کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ بس وہی جانتے ہیں وہ کس طور جی رہے ہیں۔ بیروزگاری بھی کم نہیں۔ معاشی مشکلات نے بہت سے اداروں کو مقابلے کے قابل ہی نہیں چھوڑا۔ حقیقت یہ تو ہے کہ اُن کی بقا خطرے میں پڑچکی ہے۔ کورونا کی وبا نے چھوٹے اور درمیانے حجم والے صنعتی و تجارتی اداروں کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔ اب وہ مقابلے کی دوڑ میں زیادہ دور نہیں جا پاتے۔ ذرا سی خرابی نمودار ہونے پر وہ ہمت ہار بیٹھتے ہیں اور چھانٹی پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ چھانٹی کے نتیجے میں بیروزگاری بڑھتی ہے۔
بیروزگاری ہمارے ہاں اب ایک مستقل مسئلے کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ اس کے متعدد اسباب ہیں۔ ملک کے حالات بھی بیروزگاری پیدا کرتے ہیں اور علاقائی و عالمی حالات بھی بیروزگاری کی طرف لے جاتے ہیں۔ دیہات میں موسمی بیروزگاری بھی ہوتی ہے۔ فصلوں کی کٹائی کے بعد دیہات میں لاکھوں افراد کئی ہفتوں بلکہ مہینوں تک بیروزگار رہتے ہیں۔ شہروں میں بھی موسمی نوعیت کی بیروزگاری ابھرتی رہتی ہے؛ تاہم کسی نہ کسی طور لوگ اپنے آپ کو کھپا ہی لیتے ہیں۔ بیروزگاری کا بنیادی سبب ہے اپنے آپ کو مارکیٹ کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کرنا۔ پس ماندہ معاشروں ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ لوگ ہنر سیکھنے اور مہارت پیدا کرنے پر زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ حالات کی خرابی سے پیدا ہونے والی بے دِلی انسان کو کچھ بھی نیا اور زیادہ کرنے سے روکتی ہے۔ بیروزگاری کے عالم میں ذہن کو بروئے کار لانا چاہیے مگر المیہ یہ ہے کہ جس وقت ذہن کو زیادہ بروئے کار لایا جانا چاہیے عین اُسی وقت وہ کام کرنے سے انکار بھی کردیتا ہے اور ہم بھی اُس سے کوئی کام لینے کے بارے میں کم ہی آمادہ ہو پاتے ہیں۔ بیروزگاری سمیت تمام مسائل انسان کو کچھ نہ کچھ کرنے کی تحریک بھی دے رہے ہوتے ہیں۔ اس تحریک کے حوالے سے سنجیدہ ہونا سب کے لیے لازم ہے مگر دیکھا گیا ہے کہ لوگ مسائل کا حل سوچنے کے بجائے محض پریشان ہوتے رہتے ہیں۔ اُن کا بیشتر وقت محض ذہنی الجھنوں میں گزرتا ہے۔ اُن کی گفتگو میں حل کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ وہ جب بھی زبان کھولتے ہیں گِلے شکوے ہی کرتے پائے جاتے ہیں۔
آج ہمارے ہاں بیروزگاری کا عفریت بہت کچھ ڈکار جانے کے درپے ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بیروزگاری کے ہاتھوں لوگ شدید بدحواسی کا شکار ہوکر زندگی کے ہر پہلو کو شدید عدم توازن سے دوچار کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ بیروزگاری میں اضافہ ایک طرف تو حکومت کی نا اہلی کا مظہر ہے اور دوسری طرف نجی شعبے میں منصوبہ سازی کی کمی کا بھی نتیجہ ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس کو بڑھاوا دینے میں عوام کا اپنا بھی اچھا خاصا کردار ہے۔ اس کردار کو تسلیم کیے بغیر معاملات کو درست کرنے کی سبیل نہیں نکالی جاسکتی۔ کسی بھی معاشرے میں تمام خرابیاں نہ تو عوام کی پیدا کردہ ہوتی ہیں نہ حکومت کی۔ سب جو کچھ بھی (غلط) کرتے ہیں وہ جمع ہوکر ایک خاص شکل اختیار کرتا ہے اور یوں معاملات الجھتے جاتے ہیں۔ عام آدمی کی قوتِ خرید تواتر اور باقاعدگی سے گھٹتی گئی ہے تو اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ سب نے مل کر اس معاملے کو خراب کیا ہے۔ عام دکاندار ہو یا درمیانہ تاجر، سب نے قوتِ خرید گھٹانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ کوئی بھی چیز حکومت کے ہاتھوں پانچ فیصد مہنگی ہوتی ہے تو لوگ اپنے طور کچھ نہ کچھ اضافہ کرکے یہ شرح بارہ سے پندرہ فیصد تک لے جاتے ہیں۔ عوام ایک دوسرے کے دُکھ درد میں شریک نہیں ہوتے۔ ایک دوسرے کے دُکھ درد میں شریک ہونے کا ایک اچھا طریقہ یہ بھی ہے کہ کسی کو جہاں تک رعایت دی جاسکتی ہے‘ دی جائے۔ اگر کسی غریب آدمی کو کچھ کام کرانا ہو تو متعلقہ کاریگر کو اپنی اُجرت یا معاوضے میں تھوڑی بہت کمی ضرور کرنی چاہیے تاکہ فریقِ ثانی کو کچھ فائدہ ہو۔ ہم دیکھتے ہیں کہ نچلی سطح پر یہ ہوتا نہیں۔ مہنگائی میں اضافے کے ساتھ ساتھ سب اپنی اپنی اُجرت بڑھاتے چلے جاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ مہنگائی کا رونا بھی روتے رہتے ہیں۔ جب اپنی مرضی کی اُجرت یا معاوضے کے ساتھ کام کرنا ٹھہرا تو پھر رونا کس بات کا؟ بیروزگاری حالات سے زیادہ ذہنیت کی پیدا کردہ ہوتی ہے۔ جب لوگ اپنا اپنا منافع بڑھاتے چلے جاتے ہیں تب عمومی قوتِ خرید گھٹتی چلی جاتی ہے۔ اِس کے نتیجے میں معاشی ابتری بڑھتی ہے۔ ایسے میں لوگوں کے لیے پچھلی اُجرت یا معاوضے پر کام کرنا دشوار تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ آجروں پر دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔ اجیر اپنی گھٹتی ہوئی قوتِ خرید کے حوالے سے پریشان ہوکر اُجرت بڑھانے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں اور یوں آجروں کے لیے بھی الجھن میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ ہم سب مل جل کر کر رہے ہیں اور کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔
نچلی یا عمومی سطح پر بیروزگاری کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ لوگ ہنر سیکھنے سے گریز کرتے ہیں۔ کسی ہنر کے بغیر جاب مارکیٹ محدود رہتی ہے۔ بیشتر نوجوان آفس ورک چاہتے ہیں مگر اُنہیں ٹائپنگ تک ڈھنگ سے نہیں آتی۔ فی زمانہ کمپیوٹر سے متعلق بنیادی مہارتیں عام ہیں یعنی اُنہیں سیکھے بغیر چارہ نہیں۔ اس طرف بھی لوگ کم متوجہ ہوتے ہیں۔ بہت سے شعبوں میں نئے آنے والوں کی گنجائش رہتی ہے مگر لوگ اُس طرف زیادہ متوجہ نہیں ہوتے۔ زیادہ افرادی قوت والے شعبوں میں بیروزگاری فطری امر ہے۔ بیروزگاری سے کماحقہٗ نمٹنے کے لیے سوچ بدلنا ہوگی۔ جاب مارکیٹ کے مطابق مہارتیں بھی سیکھنا ہوں گی اور زیادہ کام کرنے کے لیے بھی تیار رہنا ہوگا۔ لوگ مہارتیں بھی نہیں سیکھتے اور کام بھی بے دِلی سے کرتے ہیں۔ اگر موزوں کونسلنگ کے ذریعے خود کو تیار کرکے میدان میں آیا جائے تو ہم دیکھیں گے بیروزگاری کہاں ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں