"MIK" (space) message & send to 7575

زبان و بیان کا معاملہ

جس طور سانس کا تسلسل زندگی بھر کا معاملہ ہے‘ بالکل اسی طور زبان کے استعمال اور ابلاغ کا بھی مرتے دم تک کا معاملہ ہے۔ ہم سانس لیے بغیر رہ سکتے ہیں؟ نہیں۔ ابلاغ کا معاملہ بھی ملتا جلتا ہے۔ بولے بغیر ہم زندہ تو رہ سکتے ہیں مگر اس طور زندہ رہنے کو زندگی نہیں کہا جا سکتا۔ محض بولنا بھی کافی نہیں‘ سوال اچھا بولنے کا ہے۔ بولنے کا ڈھنگ نہ آئے تو بہت بولا ہوا بھی بے کار جاتا ہے اور اگر ڈھنگ سے دو چار جملے بھی ادا کیجئے تو بات یوں بنتی ہے کہ لوگ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
بولنے کی صلاحیت کس لیے عطا کی گئی ہے؟ دل کی بات بیان کرنے کے لیے۔ دل کی بات؟ جو کچھ بھی بیان کرنا لازم ہے وہ بیان کیا ہی جانا چاہیے۔ یہی تو ہوئی دل کی بات۔ کیا ہماری ہر بات ایسی ہوتی ہے کہ کہی جائے؟ یا یوں کہیے کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں‘ کیا وہ سب کا سب اس قابل ہوتا ہے کہ بیان کیا جائے؟ اس سوال کا موزوں جواب سب کے نزدیک مختلف ہو سکتا ہے۔ ویسے تو خیر ہمارا پورا وجود ہی اللہ کی نعمت ہے تاہم بولنا خصوصی نعمتوں میں سے ہے۔ زبان عطا ہوئی ہے تو انسان کے لیے ضروری بات بیان کرنا آسان ہوا ہے۔ گونگوں کی زندگی بھی ہم دیکھتے ہیں کہ مشکلات سے عبارت رہتی ہے۔ وہ اپنی بات بیان نہیں کر پاتے اور جو کچھ وہ کہنا چاہتے ہیں اسے سمجھ پانا عام آدمی کے لیے انتہائی دشوار ہوتا ہے۔
زبان و بیان کا معاملہ ہر فرد کے لیے ناگزیر حیثیت و اہمیت رکھتا ہے۔ ہمیں روزانہ بہت سے لوگوں سے بات کرنا ہوتی ہے۔ کہیں ہمیں کچھ کہنا ہوتا ہے اور کہیں بات سن کر سمجھنا ہوتی ہے۔ دونوں ہی معاملات میں زبان و بیان کی غیرمعمولی حیثیت ہے۔ زبان و بیان؟ بات کہنے کا ڈھنگ۔ کسی بھی بات کا کوئی اثر ہوگا یا نہیں ہوگا‘ اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ وہ بات کس طور کہی جائے گی۔ بات ڈھنگ سے کی جائے تو بگڑا ہوا کام بھی بن جاتا ہے۔ اندازِ بیان پست درجے کا ہو تو انسان لاکھ کوشش کرنے پر بھی اپنی بات منوانے میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔ہر معاشرے میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ بات ڈھنگ سے کی جائے تو فریقِ ثانی نہ صرف یہ کہ تسلیم کرتا ہے بلکہ اپنی بات بھی ڈھنگ سے کہنے پر مائل ہوتا ہے۔ عام آدمی جس زبان میں بات کرتا ہے وہ خصوصی حیثیت کی حامل نہیں ہوتی کیونکہ زبان کو احسن طریق سے بروئے کار لانا سب کے بس کی بات نہیں۔ عام آدمی کے لیے تو خیر بالکل نہیں۔ وہ بے چارہ زندگی کو زیادہ سے زیادہ بارآور بنانے کے معاملے میں اتنا الجھا ہوا رہتا ہے کہ زبان و بیان کی طرف خاطر خواہ حد تک توجہ دینا اس کے لیے بالعموم ممکن نہیں ہو پاتا۔ اور عام آدمی کو کیا روئیے کہ اب تو وہ بھی ڈھنگ سے بولنے کی اہمیت عملاً تسلیم نہیں کرتے جن کا کام ہی زبان و بیان کے حوالے سے تعلیم و تربیت کرنا اور موثر راہ نمائی کا اہتمام کرنا ہے!
پاکستانی معاشرے میں زبان و بیان کا معاملہ کبھی اتنا خراب نہیں تھا جتنا اس وقت ہے۔ اچھا بولنا کبھی بہت اچھا معاملہ سمجھا جاتا تھا۔ ہر زبان‘ نسل اور طبقے کے لوگ اچھا بولنے کی اہمیت سمجھتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ جو کچھ بھی بیان کریں‘ احسن طریق سے بیان کریں۔ اپنی بات اس طور کہیں کہ لوگ نہ صرف یہ کہ سمجھیں بلکہ سراہیں بھی۔ یہ ملک کے قیام کے بعد ابتدائی عشروں کا معاملہ تھا۔ پریشانیاں تب بھی تھیں‘ بحران بھی تھے مگر اس کے باوجود ملک کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ زیادہ شدید اور موثر تھا۔ لوگ بات بات پر حواس باختہ نہیں ہو جاتے تھے۔ کوشش ہوتی تھی کہ ذاتی پریشانی کو اپنی ذات تک رکھا جائے‘ دوسروں کے لیے الجھن کا سامان نہ کیا جائے۔ یہی معاملہ زبان و بیان کا بھی تھا۔ لوگ اچھا بولنے پر متوجہ رہتے تھے۔ والدین اور خاندان کے بزرگ بچوں سے بات کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھتے تھے کہ بلا جواز طور پر کوئی غلط پیغام نہ جائے۔ تول مول کر بولنے کی وقعت تھی۔ اچھے لب و لہجے میں بات کرنے والوں کو پسند کیا جاتا تھا اور ان کی مثال بھی دی جاتی تھی۔ الفاظ کا انتخاب بھی بالعموم نپا تلا ہوتا تھا۔ جب الفاظ معیاری ہوتے ہیں تو انہیں ادا کرنے کا معاملہ بھی ڈھنگ ہی کا ہوتا ہے۔
انسان اچھا کب بولتا ہے؟ اس سوال کا جواب کئی صورتوں میں دیا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ بات ہے کہ گھر اور خاندان کی طرف سے ملنے والی تربیت انسان کو اچھا بولنے کے قابل بناتی ہے۔ گھر جس علاقے میں ہو‘ اس کا ماحول بھی کم اہم نہیں ہوتا۔ پڑوسیوں کا مزاج بھی بچوں پر اثر انداز ہوتا ہے اور ان کی طرزِ گفتگو کو بدلے بغیر نہیں رہتا۔ بچہ سکول میں بھی بہت کچھ سیکھتا ہے۔ اساتذہ کی طرزِ گفتگو بھی بچوں کو بہت حد تک متاثر کرتی ہے۔ اگر کوئی استاد غیرمعمولی علمی حیثیت کا حامل ہو اور بولنا بھی جانتا ہو تو طلبہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ دیکھا گیا ہے کہ اچھے اساتذہ کے اثرات طلبہ کی شخصیت پر مرتے دم تک رہتے ہیں۔
اچھا بولنا ہر انسان کے لیے لازمے کے درجے میں ہے۔ ہم اچھا بولنے ہی کی صورت میں یاد رہ پاتے ہیں۔ آپ جب بھی کسی انسان کو تادیر یاد رکھتے ہیں تو اس کی طرزِ گفتگو بھی نہیں بھولتے۔ بیشتر معاملات میں آپ کو وہی لوگ یاد رہتے ہیں جو بات کرنے کا ڈھنگ جانتے ہیں یعنی اس طور گفتگو کرتے ہیں کہ اپنی بات سمجھا دیتے ہیں اور آپ کے معاملات کو آسان بنانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ ہم کم و بیش ہر معاملے میں اچھی طرزِ گفتگو کے حاجت مند رہتے ہیں۔ کون ہے جسے یہ بات پسند نہیں کہ اس سے اچھی طرح گفتگو کی جائے؟ آپ خود بھی تو یہی چاہتے ہیں۔ تو پھر آپ کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ اچھی گفتگو انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے۔ جنہیں حقیقی کامیابی درکار ہے‘ انہیں ڈھنگ سے بات کہنے کا ہنر بھی آنا ہی چاہیے۔ انسان ڈھنگ سے بات کب کر سکتا ہے؟ یہ تربیت کا معاملہ بھی ہے اور مشاہدہ و مشق کا بھی۔ انسان زندگی بھر جو کچھ سیکھتا ہے وہی تو بولتا ہے۔ صحبت بھی طرزِ گفتگو پر اثر انداز ہوتی ہے۔ انسان جن لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے‘ ان کی طرزِ گفتگو اس کی اپنی طرزِ گفتگو کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتی۔
آج ہمارا نوجوان اچھا بولنے کی اہمیت نہیں سمجھتا۔ شہری کلچر نے نئی نسل کو اچھا خاصا لا اُبالی بنادیا ہے۔ وہ بات کو کسی نہ کسی طور بیان کرنے کو کافی سمجھتی ہے۔ اتنا کافی نہیں۔ بات ڈھنگ سے بیان کیے جانے ہی پر موثر ثابت ہوتی ہے اور مطلوب نتائج کا حصول ممکن بناتی ہے۔ بڑے شہروں میں نوجوان تعلیم و تربیت ضرور پاتے ہیں مگر محض پروفیشنل نقطۂ نظر سے۔ کلاس روم میں اساتذہ زبان و بیان کے معاملے کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ نئی نسل کو مستقبل کے لیے تیار کرتے وقت دیکھنا پڑتا ہے کہ وہ جب عملی زندگی میں گفتگو کرے گی تو کیونکر کرے گی۔ کراچی میں نوجوانوں کا یہ حال ہے کہ عام گفتگو میں انتہائی لا پروائی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جو کچھ بولا جارہا ہے اس میں مغلظات کی بھرمار ہے۔ جو لوگ مغلظات سے گریز کرتے ہیں‘ وہ بھی عامیانہ الفاظ سے بچنے کی کوشش بہرحال نہیں کرتے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ ان کی تعداد کم ہے جن کی بات میں تاثیر ہو۔
ہماری زبان پر کیا آتا ہے؟ وہی جو ذہن میں ہوتا ہے۔ ذہن میں کچرا بھرا ہو تو زبان سے بھی کچرا ہی جھڑے گا۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں جسے سمجھنا مشکل ہو۔ انسان دن رات جو کچھ سوچتا رہتا ہے‘ وہی زبان سے جاری ہوتا ہے۔ معیاری مطالعہ کیا جائے‘ اہلِ علم و دانش کی صحبت اختیار کی جائے تو انسان اچھا سوچتا ہے اور سوچ سمجھ کر بولتا ہے۔ جب انسان سوچ سمجھ کر‘ الفاظ کا درست انتخاب کرکے‘ شائستگی سے بولتا ہے تو فریقِ ثانی کے ذہن میں اس کے لیے اچھی رائے قائم ہوتی ہے۔ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ محض اچھا بولنا کافی نہیں‘ اچھا لکھنا بھی آنا چاہیے۔ آج کی دنیا میں اچھی طرزِ تحریر بھی اچھی طرزِ گفتگو کی رفیقِ اوّل ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں