میراث کی منتقلی بڑی چیز ہے۔ ہم اِس وقت دنیا میں جو کچھ بھی دیکھ رہے ہیں وہ ہزاروں سال کی ذہانت اور اُس پر عمل کا نتیجہ ہے۔ ہزاروں سال سے انسان جو کچھ کرتے آئے ہیں وہ سب کا سب ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر آج ہمارے سامنے ہے اور زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کر رہا ہے۔ کیا ہم دو‘ ڈھائی ہزار سال پہلے کے انسانوں سے براہِ راست کچھ سیکھ سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ہر اعتبار سے اثبات میں ہے۔ ہر عہد کے انسان نے جو کچھ سوچا اور کیا ہے وہ کسی نہ کسی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ ہم اُس سے مستفید ہوسکتے ہیں، بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، اپنی ذہانت اور کارکردگی کا معیار بلند کرسکتے ہیں، جہاں ہیں وہاں سے بہت آگے جاسکتے ہیں اور دنیا کو کچھ دینے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ یہی تو اِس میراث کی اصل ہے۔ ہر عہد کے انسان نے گزشتہ ادوار کے انسانوں کی میراث کو اضافے کے ساتھ آگے بڑھایا ہے۔
ہر دور کی نئی نسل گزشتہ نسلوں سے سیکھتی ہے۔ جن بزرگوں سے ملنا اور جن کے ساتھ بیٹھنا نصیب ہو اُن سے بہت کچھ بہت تیزی سے سیکھا جاسکتا ہے۔ گزرے ہوئے زمانوں کے لوگ بھی اپنے ترکے یا میراث کی شکل میں بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ سیکھنے یا سکھانے کے ذرائع بہت سے ہیں۔ انسان کتابیں پڑھ کر بھی سیکھتا ہے۔ جو کچھ سینہ بہ سینہ چلا آرہا ہے وہ بھی بہت کچھ سکھاتا ہے۔ بہت سے ہنر نسل در نسل منتقل ہوتے ہیں۔ ہزاروں سال سے مختلف پیشے اِسی طور منتقل ہوتے آئے ہیں۔ بعض معاملات میں اس بات کی کچھ اہمیت نہیں ہوتی کہ تحریری طور پر کیا محفوظ کیا گیا ہے۔ لوگ عملی سطح پر بہت کچھ سیکھ کر آگے منتقل کرتے ہیں۔
کیا کوئی بھی انسان تنِ تنہا کچھ کرسکتا ہے؟ ایسا ممکن نہیں! کوئی بھی انسان صرف اپنی ذات کے ذریعے کوئی بھی بڑی تبدیلی یقینی نہیں بنا سکتا۔ انسان معاشرتی حیوان ہے۔ ہم سب مل جل کر رہتے ہیں تو زندگی ڈھنگ سے گزرتی ہے۔ بہت سوں کے بارے میں ہم‘ آپ خصوصی طور پر کہتے ہیں کہ وہ سیلف میڈ ہے یعنی کسی کی مدد کے بغیر کچھ بننے میں کامیاب ہوا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہوسکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ خالص لُغوی مفہوم میں تو کوئی بھی سیلف میڈ نہیں ہوتا۔ انسان اپنے طور کچھ زیادہ کر ہی نہیں سکتا۔ اُسے قدم قدم پر دوسروں سے مدد درکار ہوتی ہے۔ یہ کوئی شرم کی بات نہیں۔ اشتراکِ عمل یہی تو ہے کہ جو کچھ آپ کو آتا ہے وہ آپ دوسروں کو سکھائیں اور جو کچھ دوسروں کے پاس ہے اُس سے مستفید ہوکر اپنی ذہانت کا گراف بلند کریں، اپنے عمل کو بہتر اور زیادہ بارآور بنائیں۔ یہ کسی بھی سطح پر انا کا مسئلہ نہیں۔ بہت سوں کی یہ ضد فضول ہے کہ وہ کسی سے کچھ نہیں لیں گے اور کچھ نہیں دیں گے۔ دنیا اس طور چل ہی نہیں سکتی۔ یہ دنیا 'کچھ لو اور کچھ دو‘ کے اصول کی بنیاد پر کام کرتی ہے۔
گزشتہ نسلوں کے علم و فن کو نظر انداز کرکے آج کے لوگ اپنے علم و فن کا معیار بلند کرسکتے ہیں؟ یہ بھی ناممکن ہے۔ ہر عہد کے انسان نے گزشتہ نسلوں کے علم و فن سے بہت کچھ حاصل کیا ہے اور آنے والوں کو منتقل کیا ہے۔ ذرا سوچئے کہ ایسا نہ ہوا ہوتا تو آج دنیا کیسی ہوتی، کہاں ہوتی؟ اس دنیا کی ساری رونق اِسی بات سے تو ہے کہ ہر عہد کے انسان نے گزشتہ نسلوں سے بہت کچھ لے کر آنے والوں کے لیے بہت کچھ چھوڑا۔ علم و فن اور مہارت کی میراث منتقل ہوتی رہی اور دنیا ترقی کرتی گئی۔ عظیم ماہرِ طبیعیات، ریاضی دان، دانشور اور مصنف سر آئزک نیوٹن نے کہا تھا ''میں اگر بہت دور تک دیکھنے کے قابل ہوسکا ہوں تو یہ بڑوں کا فیضان ہے۔ میں نے اُن کے کاندھوں پر چڑھ کر ہی بہت دور تک دیکھا ہے‘‘۔ کاندھوں پر چڑھنا یعنی بڑوں سے سیکھنا۔ جو کچھ اُنہوں نے سوچا اور کیا اُس سے اپنے مطلب اور ضرورت کے مطابق کشید کرنا۔ ہم اپنے بڑوں ہی سے تو کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اِسی صورت تو ہم خود بھی بڑے بن کر چھوٹوں کو کچھ دینے کے قابل ہوسکتے ہیں۔
ہر دور کے انسان نے اپنے سے پہلے گزرے ہوئے انسانوں سے کم و بیش ہر شعبے میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ محض فنونِ لطیفہ ہی نہیں بلکہ پیشوں کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ کاروباری دنیا بھی گزرے ہوئے زمانوں سے بہت کچھ لیتی ہے اور آگے بڑھتی ہے۔ اس میں اُس کا اپنا بھی بھلا ہو جاتا ہے اور دوسروں کا بھی۔ لکھنے والے اچھا کب لکھ پاتے ہیں؟ جب وہ علم و فن کی میراث میں گم ہوتے ہیں، سینکڑوں یا ہزاروں سال پہلے کی دانش گاہوں کی‘ کتابوں کے ذریعے‘ سیر کرتے ہیں۔ نظم و نثر میں اعلیٰ مقام وہی پاسکتے ہیں جو ہر عظیم پیش رَو سے کچھ نہ کچھ سیکھیں۔ زبان و بیان پر عبور ممکن بنانے کے لیے سینکڑوں برس کا ادب کھنگالنا پڑتا ہے۔ جب بہت کچھ پڑھنے کے بعد انسان لکھنے بیٹھتا ہے تو اُس کی تحریر میں جان ہوتی ہے، دل کشی ہوتی ہے، گہرائی و گیرائی ہوتی ہے۔ جسے لکھنا آتا ہو وہ اِدھر اُدھر دیکھے بغیر بھی بہت کچھ لکھ سکتا ہے مگر ایسی تحریر میں دم نہیں ہوتا۔ جب انسان دوسروں کو پڑھتا ہے، دوسروں کے خیالات سے تحریک پاکر کچھ نیا سوچتا ہے، متعلقہ اعداد و شمار کی صحت یقینی بناتا ہے، متعلقہ حقائق کا ابہام دور کرکے لکھنے بیٹھتا ہے تب کچھ ایسا لکھ پاتا ہے جو لوگوں کو متاثر کرے، یاد رہ جائے۔
بڑوں سے سیکھنا ناگزیر ہے کیونکہ اُن کے تجربے کا نچوڑ ہمیں مفت کے دردِ سر سے بچاتا ہے۔ جو کچھ دوسروں نے کیا اور کامیاب رہے اُس کی مدد سے ہم بھی کامیاب ہوسکتے ہیں۔ بہت سے معاملات میں اپنے طور پر بہت محنت کرنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ انسان دوسروں سے استفادہ کرتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھ جائے۔ کامیابی کے حوالے سے کی جانے والی محنت کے معاملے میں معقول ترین رویہ یہی ہے۔ اگر کوئی دوسروں کی محنت کو تسلیم کرنے سے انکار کرے تو اُس کی مرضی۔ ہم پورے ماحول سے سیکھ سکتے ہیں اور سیکھتے ہی ہیں۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کامیڈینز کس طور کام کرتے ہیں؟ وہ معاشرے کے ہر طبقے اور ہر پہلو پر نظر رکھتے ہیں۔ جہاں جہاں بھی حماقتیں سرزد ہو رہی ہیں وہاں کامیڈینز آپ کو متحرک دکھائی دیں گے۔ کامیڈینز معاشرے کی خرابیوں اور خامیوں کو چُن چُن کر اپنے فن کا حصہ بناتے ہیں۔ معاشرے کی خرابیوں کو بے نقاب کرکے ہی کامیڈینز اپنے لیے روٹی کماتے ہیں۔
ہم اپنے ماحول کا بغور جائزہ لیں تو اُس کی بہت سی خصوصیات سے کچھ نہ کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ دوسروں کی کارکردگی کا جائزہ لے کر ہم سیکھتے ہیں کہ اُن سے بہتر کیسے کیا جائے یا اُن کے نقوشِ قدم پر چل کر اپنی کارکردگی کا گراف کیونکر بلند کیا جائے۔ ہر شعبے کے نمایاں افراد ہمیں آگے بڑھنے کی تحریک دیتے ہیں۔ نمایاں کامیابی سے ہم کنار افراد کی کہانیاں سُن کر ہم سمجھ سکتے ہیں کہ سیکھا کیسے جاتا ہے اور جو کچھ سیکھا گیا ہو اُسے بروئے کار کیونکر لایا جاسکتا ہے۔ آج کل انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم بہت کچھ پڑھ بھی سکتے ہیں اور دیکھ، سُن بھی سکتے ہیں۔ اب کسی بھی شعبے میں کامیابی کے اسرار درحقیقت اسرار نہیں رہے۔ آڈیو، وڈیو فائلز کے ذریعے ہم ہر چیز کی حقیقت جان سکتے ہیں اور کتابوں کے ذریعے بہت کچھ منظم طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ ایسے میں گزشتہ ادوار کی نسلوں کے تجربے سے بھی آسانی سے مستفید ہوا جاسکتا ہے۔
اگر کسی نے واقعی طے کرلیا ہو کہ کامیاب ہونا ہے تو قدم قدم پر اُستاد ملتے ہیں۔ یہ اُستاد مشاہدے، تجربے اور علم و فن کی میراث کی شکل میں ہوتے ہیں۔ سیکھنے پر رضامند ہو جانا انسان کو اُستاد تک پہنچا ہی دیتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم سیکھنے کے مواقع سے کماحقہٗ مستفید ہوتے ہیں یا نہیں۔ بڑوں سے سیکھنے میں آسانی بھی ہے اور فائدہ بھی۔ وہ اپنے تجربے سے ایسا بہت کچھ سکھاتے ہیں جو غلطیوں کے اعادے سے بچاتا ہے۔ یوں اچھا خاصا وقت ضیاع کی منزل سے دور رہتا ہے اور ہم ڈھنگ سے کچھ کر پاتے ہیں۔