سانسوں کا تسلسل زندگی ہے؟ کہنے کو تو ہے! یعنی جیے جانے کو ہم زندگی قرار دے کر خوش ہو لیتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ محض زندہ رہنا، جیے جانا کسی بھی درجے میں حقیقی اور اصلی زندگی نہیں۔ ہر انسان کو اس دنیا میں ایک خاص مدت تک قیام دیا گیا ہے۔ یہ خاص مدت محض جیے جانے کے لیے نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر بہت کچھ کرنے کے لیے ہے۔ زندگی کا بنیادی تقاضا منصوبہ سازی ہے۔ پورے شعور کے ساتھ جینے کی کوشش ہر انسان پر فرض ہے۔ قدرت نے ہمیں یہ سانسیں اس لیے عطا کی ہیں کہ ہم پورے شعور کے ساتھ اپنے ایک ایک سانس کو بروئے کار لانے پر متوجہ ہوں تاکہ زندگی کا حق ادا کرنے کی راہ ہموار ہو۔
ہم میں سے بیشتر کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ زندگی کی شکل میں ہمیں کائنات کی سب سے بڑی نعمت عطا کی گئی ہے۔ ایسی نعمت کا‘ ظاہر ہے‘ حق بھی ادا کرنا ہے اور حساب بھی لیا جائے گا۔ زندہ رہنا کوئی کمال کی بات نہیں۔ یہ اگر کمال ہے بھی تو سبھی کر رہے ہیں اس لیے اس پر فخر نہیں کیا جاسکتا۔ انسان کے سرمایۂ افتخار تو وہ زندگی ہے جو پورے شعور اور عمل پسندی کے ساتھ گزاری جائے۔ ایسی زندگی ہی اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی کارآمد ثابت ہوتی ہے۔ کیا ہم زندگی کا حق ادا کر رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب اب تک نفی ہی میں دیا جاسکتا ہے۔ تو کیا آگے چل کر اِس کی کوئی گنجائش دکھائی دیتی ہے؟ بدقسمتی سے اس سوال کا جواب بھی نفی ہی میں دکھائی دے رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم نے‘ یعنی مجموعی طور پر پورے معاشرے نے‘ اب تک زندگی کی نوعیت اور ماہیت پر کماحقہٗ غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی ہے۔ زندگی سی نعمت کو اس قابل نہیں سمجھا گیا ہے کہ اس پر غور کیا جائے، اس کا حق ادا کرنے کے بارے میں سوچا جائے۔
واضح منصوبہ سازی کے بغیر جینے میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ انسان کسی بھی واقعے یا موقع کا پوری دیانت سے نہ تو تجزیہ کر پاتا ہے اور نہ ہی حق ادا کر پاتا ہے۔ جو کچھ بھی ہماری زندگی میں اور میں ماحول میں ہو رہا ہے وہ ہم سے قدم قدم پر سوچ بچار کا تقاضا کرتا ہے۔ عمومی سطح پر انسان صرف اور صرف خواہشات کے زیرِ تصرف رہتا ہے۔ زندگی کے نام پر محض سانسوں کا تسلسل برقرار ہے اور انسان خواہشات کے دائرے میں گھومتے ہوئے جی رہا ہے۔ یہ سوچنے کی زحمت گوارا کرنے والے کم ہیں کہ شعور کو بروئے کار لاتے ہوئے جینے والے ہی کچھ کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ محض خواہشات کے زیرِ تصرف رہنے کی صورت میں انسان کچھ بھی نہیں کر پاتا ؎
زندگی سی نعمت کو قتل کرگیا آخر
دل کہ جس کے ہاتھوں میں خواہشوں کا خنجر تھا!
ہر عہد کی دنیا انسان سے باشعور رہتے ہوئے جینے کا تقاضا کرتی رہی ہے۔ ہوش و حواس کی حدود میں رہتے ہوئے جینا ہی حقیقی معنوں میں زندگی ہے۔ جس نے یہ راز جانا وہی کامیاب ہوا۔ آج کی زندگی اپنے آپ میں ایک بڑا بحران ہے، ایک بڑا چیلنج ہے۔ سو سال پہلے تک زندگی کی رفتار سست تھی۔ تب عام آدمی کے لیے مشکلات زیادہ نہ تھیں۔ جیسے تیسے جی لیا جاتا تھا۔ جو لوگ کچھ زیادہ نہ کر پاتے تھے وہ بھی جی ہی لیتے تھے۔ زندگی قدم قدم پر امتحان نہیں لیتی تھی۔ ٹیکنالوجیز کا بازار گرم نہیں ہوا تھا۔ عصری علوم و فنون کی گرم بازاری کسی حد تک شروع ہوئی تھی مگر پھر بھی ماہرین تک کو اندازہ نہ تھا کہ آنے والے عشروں میں دنیا کیا شکل اختیار کرے گی، زندگی کس نوعیت کی ہو جائے گی۔ ماہرین کو بہت سی باتوں کا پہلے سے اندازہ ہو جاتا ہے اور ایسا علم کی بنیاد پر ہوتا ہے؛ تاہم حقیقت یہ ہے کہ سو سال پہلے ماہرین کے پاس ایسا بہت کم تھا جس کی بنیاد پر پچاس یا سو سال بعد کی زندگی کی نوعیت اور ماہیت کے بارے میں قدرے پُراعتماد انداز سے اور بہت حد تک تیقن کے ساتھ کچھ کہا جاسکتا۔
آج ہم جس بحرانی کیفیت سے دوچار ہیں اُس کا اندازہ ہمارے آبا کو ذرا بھی نہ تھا۔ خیر‘ اندازہ ہوتا بھی تو وہ کیا کرلیتے؟ اِس خطے میں زندگی کو بس یونہی، عمومی انداز سے لینے کا چلن صدیوں سے عام ہے۔ فطری علوم و فنون کی بنیاد پر یورپ نے چار صدیوں کے دوران جو ترقی کی ہے اُسے دیکھتے ہوئے بھی کچھ سوچنے اور کرنے کے بارے میں نہیں سوچا گیا۔ ایک دنیا ہمارے سامنے بدل گئی اور کچھ کی کچھ ہوگئی مگر ہم ٹس سے مس نہ ہوئے۔ آج معاملہ اُس مقام تک پہنچ گیا ہے جہاں ہمارے لیے صرف پریشان ہونے کا آپشن بچا ہے۔ پاکستان سمیت پورے جنوبی ایشیا کے معاشرے کی بات کیجیے تو زندگی کے بارے میں سنجیدہ ہونے کا رجحان اب بھی عام نہیں۔ لوگ قدرے بے شعوری کے ساتھ جی رہے ہیں۔ گزرے ہوئے زمانوں میں رہنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ خیالی دنیا کی سیر کرتے ہوئے وقت ضائع کرنے والے کم نہیں۔ کوئی لمحۂ موجود کو خاطر خواہ اہمیت دینے کو تیار نہیں تو مستقبل کے بارے میں کیا سوچے گا؟ مجموعی مزاج یہ ہے کہ بس کسی نہ کسی طور جیے جائیے۔ اگر کسی سے کہیے کہ ہمارے ماحول میں اور باقی دنیا میں بہت کچھ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے، اُس کے بارے میں کیا سوچا ہے تو جواب ملتا ہے ''سوچنے ووچنے سے کیا ہوتا ہے، جو ہوگا دیکھا جائے گا۔‘‘ صدیوں سے ہمارے ہاں ''جو ہوگا دیکھا جائے گا‘‘ والی اپروچ کے ساتھ زندگی بسر کی جارہی ہے اور اِسی کو سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے۔ کوئی نہیں سوچتا کہ یوں جینا کسی بھی درجے میں جینا نہیں کیونکہ زندگی شعور کے بسر کیے جانے ہی پر کچھ دے پاتی ہے۔ رینڈم کے اصول کی بنیاد پر ڈھنگ سے جیا نہیں جاسکتا۔
ہمارے ہاں آج بھی معاملہ یہ ہے کہ کسی کو سمجھائیے کہ زندگی کے بارے میں سنجیدگی اختیار کیجیے گا تو کچھ ہو پائے گا، کچھ مل پائے گا تو مزے سے کہہ دیا جاتا ہے کہ زیادہ سوچنے کی ضرورت کیا ہے، زندگی تو گزر ہی جاتی ہے۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ انسان سوچے یا نہ سوچے، زندگی تو گزر ہی جاتی ہے۔ لیکن ایسی صورت میں یہ محض گزر جاتی ہے، کچھ دے نہیں پاتی کیونکہ ایسے میں کچھ ہو نہیں پاتا۔ ہم اپنے ماحول میں بہت سوں کو دیکھ سکتے ہیں کہ شدید بے عملی کے ساتھ زندہ ہیں مگر کیا ہم اُن کے جینے کو واقعی جینا کہہ سکتے ہیں؟ معاشرہ بے عمل انسانوں کو ختم نہیں کردیتا، مار نہیں ڈالتا۔ مگر کیا اُنہیں عزت سے جینے کا موقع ملتا ہے؟ بالکل نہیں! بے عملی کے ساتھ یا منصوبہ سازی کے بغیر جینے کی صورت میں انسان کسی کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوتا۔ معاشرہ بظاہر کیسا ہی بے نیاز اور بے پروا سا ہو، شعور اور توجہ کے ساتھ جینے سے گریز کرنے والوں کو کبھی احترام کی نظر سے نہیں دیکھتا۔ کسی بھی معاشرے میں ایسے لوگوں کی کوئی وقعت نہیں ہوتی جو زندگی کا حق ادا کرنے کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔ احترام اُنہی کے لیے ہوتا ہے جو اپنے آپ سے مخلص ہوں، زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کے معاملے میں سنجیدہ ہوں اور کچھ کرنے پر یقین رکھتے ہوں۔ جو لوگ کچھ کرنے پر یقین رکھتے ہیں وہی اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی بھلا کر پاتے ہیں۔ آج کی دنیا بہت بدلی ہوئی ہے۔ عصری علوم و فنون میں پیش رفت کا بازار گرم ہے۔ ٹیکنالوجیز آتی جارہی ہیں۔ جدت اور ندرت کا دریا ایسا بھرپور بہہ رہا ہے کہ کناروں کو چھو رہا ہے۔ ایسے میں کوئی بھی فرد یا معاشرہ لاتعلق رہتے ہوئے نہیں جی سکتا۔ ایسا کرنے کی گنجائش برائے نام بھی نہیں۔
پاکستانیوں کی غالب اکثریت زندگی کے بارے میں سنجیدہ نہیں۔ اب تک یہی سمجھا جارہا ہے کہ جیسے تیسے جیے جانا ہی کافی ہے، کچھ کرنے کی خاص ضرورت نہیں۔ دنیا بھر میں تحقیق و ترقی کی گڈی چڑھی ہوئی ہے۔ معاشرے اپنا آپ بدل رہے ہیں۔ ایسے میں بے شعوری اور بے عملی کا آپشن اپنایا ہی نہیں جاسکتا۔ ہمیں اور ہمارے معاشرے کو بھی اپنا مزاج بدلنا ہوگا، سنجیدگی اور عمل پسندی کی طرف آنا ہی پڑے گا۔ ہر زمانے کی طرح آج بھی یہی آپشن بچا ہے۔ کوئی اور آپشن ہو تو بتائیے۔