ہر وہ انسان خسارے کا سودا کر رہا ہے جو ''انکاری قبیلے‘‘ سے تعلق رکھتا ہے۔ ہر معاملے میں معاشرتی رویوں کے اعتبار سے کئی ''قبیلے‘‘ پائے جاتے ہیں۔ پس ماندہ معاشروں میں سب سے بڑا ہوتا ہے ''قبیلۂ انکار!‘‘ جو اس قبیلے کا حصہ بنا اُس نے کامیابی، ترقی اور خوش حالی کی راہیں اپنے لیے بند کرلیں۔ کوئی بھی انسان انکاری قبیلے کی رکنیت کب اختیار کرتا ہے؟ کسی بھی وقت! بالعموم ماحول کے ہاتھوں مجبور ہوکر! والدین اور خاندان کے دیگر بزرگوں کی طرف سے معیاری تربیت کی کمی بھی انسان کو انکار کی طرف دھکیلتی رہتی ہے۔ کچھ مزاج کا معاملہ بھی ہوتا ہے۔ اگر انسان یہ طے کرلے کہ کسی کی کوئی بات نہیں ماننی تو پھر اُسے اقرار کی طرف کوئی نہیں لے جاسکتا۔ ایسے لوگ انکار کی بند گلی میں پھنس کر زندگی گزارتے ہیں۔ ذہنی یا فکری ساخت کی جڑ میں انکار بیٹھ گیا ہو تو انسان کے لیے اقرار کو چلن کے طور پر اپنانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ پس ماندہ یا پس ماندگی کی طرف مائل معاشروں میں عمومی چلن انکار کا ہوتا ہے۔ ہر معاملے میں منفی سوچ پروان چڑھ رہی ہوتی ہے۔ ایسے میں لوگ انکار کی طرف بڑھتے جاتے ہیں۔ انکار یعنی کسی بھی مثبت قدر کو ماننے سے انکار۔ انکار یعنی اپنے آپ کو سب کچھ سمجھتے ہوئے دوسروں کو تسلیم کرنے سے انکار۔ انکار یعنی صرف اپنی ذات کو سب سے بالا ماننا اور کسی دوسرے کی شخصیت میں پائی جانے والی تمکنت کو بالکل نہ ماننا۔
ایسا کیوں ہے کہ ہم عمومی سطح پر دوسروں کو تسلیم یا قبول کرنے سے انکار کر رہے ہوتے ہیں؟ کسی کو کھلے دل کے ساتھ قبول کرنے میں کیا حرج ہے؟ انسان عمومی چلن کے ساتھ چل رہا ہوتا ہے۔ بغاوت کی ہمت کم ہی لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ بات اِتنی سی ہے کہ عام آدمی پورے ماحول کو دیکھتے ہوئے اُس سے ہم آہنگ رہتے ہوئے جینے کی کوشش کرتا ہے۔ کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہمارے لیے حقیقی کامیابی کی راہ کب ہموار ہوتی ہے؟ کب ہم اپنے آپ کو مثبت طور پر بدلتے ہوئے بھرپور زندگی کی طرف بڑھتے ہیں؟ شخصیت کے ارتقا سے متعلق امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی انسان کے لیے حقیقی کامیابی کا سامان اُسی وقت ہوتا ہے جب وہ کامیابی کو ایک انتہائی بنیادی قدر کے طور پر اپنانے کے بارے میں سوچتا ہے۔ اس سوچ کا نمایاں ترین مظہر کامیاب انسانوں کو تسلیم کرنا ہے۔ جب ہم کسی کی کامیابی کو تسلیم کرتے ہیں تو دراصل کامیابی کی طرف بڑھ رہے ہوتے ہیں۔ کسی بھی کامیاب انسان کو اُس کا جائز مقام یعنی کریڈٹ دینے سے ہمارے ذہن میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ یہ وسعت کامیابی کے بارے میں سوچنے کی تحریک دیتی ہے۔
کسی بھی کامیاب انسان کی لیاقت اور مہارت کو قبول کرنا وسیع القلب ہونے کی دلیل ہے۔ یہ وسعتِ قلب ہی انسان کو بڑے کاموں کے قابل بناتی ہے۔ کسی بھی انسان کی پہلی کامیابی محض اتفاق کا نتیجہ ہوسکتی ہے مگر تواتر سے ملنے والی کامیابیاں اتفاقی یا حادثاتی نہیں ہوسکتیں۔ ہر کامیابی صلاحیت، منصوبہ سازی اور محنت مانگتی ہے۔ جس نے بھرپور محنت کے ذریعے کامیابی حاصل کی ہو وہ چاہتا ہے کہ اُسے سراہا جائے، اُسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ کسی بھی دور کے انسان کے لیے کامیابی کا حصول معمول کا معاملہ نہیں رہا۔ ہر عہد کے انسان نے بہت محنت کرنے ہی پر کچھ پایا ہے۔ جب کسی کو اُس کی کامیابی پر سراہا جاتا ہے تب اُس کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور اُس کے دل میں آپ کے لیے اچھے جذبات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ یہی کیفیت اُس کے ذہن کو مثبت رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
ترقی یافتہ معاشروں پر اُچٹتی سی نظر ڈالیے، وہاں کچھ وقت گزار کر آنے والوں سے ملیے، اُن سے بات کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ اُن معاشروں میں لوگ ایک دوسرے کو کھلے دل سے قبول کرتے ہیں۔ وہاں کوئی کسی کی بھرپور کامیابی سے حسد نہیں کرتا۔ کسی کی کامیابی کو نگاہِ رشک سے دیکھنے کا چلن عام نہیں۔ لوگ اپنی مرضی کے مطابق جیتے ہیں۔ جو شعبہ اچھا لگتا ہو اُس میں آگے بڑھنے کا ذہن بناتے ہیں۔ زندگی بسر کرنے کا یہی معقول ترین ڈھنگ ہے۔ جو لوگ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں وہ بالعموم منفی ذہنیت کے ساتھ جی رہے ہوتے ہیں۔ ایسی ذہنیت کے ساتھ جینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ جو کچھ دوسروں کو ملا ہے وہ آپ کو بھی مل سکتا ہے۔ سوال لیاقت کو محنت کے ذریعے بروئے کار لانے ہی کا نہیں، وقت کی موزونیت کا بھی ہے۔ ہر کام اپنے وقت پر اچھا لگتا ہے۔ اگر آپ یہ حقیقت نظر انداز کریں گے تو اپنا ہی نقصان کریں گے۔ جو چیز جس وقت منظرِ عام پر آنی چاہیے وہ چیز اُسی وقت منظرِ عام پر آنی چاہیے۔ جینے کے کئی ڈھنگ ہوسکتے ہیں۔ انسان اپنی مرضی سے کوئی بھی ڈھنگ اپنا سکتا یا وضع کرسکتا ہے۔ زندگی جیسی نعمت کو کس طور برتنا چاہیے اس حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ ہم جیسے چاہیں جی سکتے ہیں مگر کیا سوچے سمجھے بغیر جینا چاہیے؟ دیکھا دیکھی جینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ جینا وہی کام کا ہے جو شعور کے ساتھ ہو۔
شعور کے ساتھ جینے میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ وہ کر کیا رہا ہے۔ بے ذہنی کے ساتھ جینے میں نقصان یہ ہے کہ بہت بعد میں معلوم ہو پاتا ہے کہ کیا غلطی سرزد ہوئی جس نے زندگی کا تیا پانچا کردیا۔ بے ذہنی یا عدمِ توجہ سے انسان زندگی جیسی نعمت کو بھی داؤ پر لگا بیٹھتا ہے۔ مگر کیا شعور کے ساتھ جینا کافی ہے؟ شعور بڑی نعمت ہے مگر اِس سے بڑی نعمت ہے احساس۔ احساس اس بات کا نام ہے کہ ہم اپنے ماحول سے کس حد تک ہم آہنگ ہیں، دوسروں کو کس حد تک اپنا سمجھتے ہیں اور دوسروں کے لیے اپنے وجود کو کس حد تک کارآمد بنانا چاہتے ہیں۔ کسی کی کامیابی کو تسلیم کرنا دراصل اُس کی خوشی میں خوش ہونا ہے۔ اِس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے کہ ہم کسی کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھیں، خوش ہوں اور خوشی کا اظہار بھی کریں؟ جب ہم کسی کی خوشی میں خوش ہوتے ہیں تب اپنے ذہن کو غیر ضروری کلفتوں سے آزاد کر رہے ہوتے ہیں۔ کھنچے اور بھنچے ہوئے دل کے ساتھ جینے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ انسان کھلے دل کے ساتھ دوسروں کو قبول کرتے ہوئے زندگی بسر کرے۔
یہ دنیا اُن کے لیے ہے جو انکار کو چھوڑ کر اقرار کی طرف بڑھتے ہیں۔ ''میں نہ مانوں‘‘ کی ذہنیت ترک کرتے ہوئے جینے ہی میں جینے کا مزہ ہے۔ ایسی حالت میں انسان دنیا کو قبول کرتا ہے اور دنیا اُسے قبول کرتی ہے۔ قبولیت کی کیفیت انسان کو بلندی کی طرف لے جاتی ہے۔ وہ اپنے لیے زیادہ امکانات تلاش کرنے نکلتا ہے اور قبول کی ہوئی دنیا کے لیے اپنے آپ کو زیادہ قابلِ قبول بنانے پر متوجہ رہتا ہے۔ نہ ماننے کی ذہنیت انسان کو بند گلی میں پہنچا دیتی ہے۔ نہ ماننے کا میلانِ طبع زندگی کو کشمکش اور کھنچاؤ سے دوچار رکھتا ہے۔ جب انسان دوسروں کو اور بالخصوص اُن کی کامیابیوں کو تسلیم کرنے سے گریز کی راہ پر گامزن ہوتا ہے تب اُس کا ذہن امکانات کے بارے میں سوچنا ترک کردیتا ہے۔ امکانات کے بارے میں سوچنے کی ذہنیت اُسی وقت پروان چڑھتی ہے جب انکار کو چھوڑ کر اقرار کو گلے لگایا جاتا ہے۔ یہ کام جس قدر جلد کرلیا جائے اُتنا ہی اچھا ہے۔
زندگی ہر حال میں نعمت ہے۔ جو لوگ اِسے نعمت گردانتے ہوئے پورے شعور کے ساتھ اِس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہی اپنا دامن حقیقی مسرت سے بھر پاتے ہیں۔ زندگی کا حق ادا کرنے کی ایک مستحسن صورت یہ ہے کہ انسان بلا جواز طور پر کسی کو نظر انداز نہ کرے، قبول کرنے سے گریز نہ کرے اور اپنے آپ کو ماحول سے غیر ہم آہنگ رکھنے کی کوشش نہ کرے۔ جب تک دوسروں کو اپنایا نہیں جاتا تب تک زندگی کا حق ادا کرنے کی معقول صورت نہیں نکل پاتی۔ ماننے میں کچھ حرج نہیں۔ جو دوسروں کو مانتے ہیں وہی اپنے آپ کو منوانے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ قبولیت کی منزل تک پہنچنے کے لیے دوسروں کو اُن کی صلاحیتوں اور کامیابیوں کے ساتھ قبول کرنا پڑتا ہے۔ کامیابی کی ذہنیت قبولیت کے مرحلے سے گزرے بغیر پروان نہیں چڑھائی جاسکتی۔