بالکل سامنے کی بات کو نہ ماننا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ وقت ہم سے بہت سے تقاضے کرتا ہے اور ہر اعتبار سے جامع ترین اور انتہائی بنیادی تقاضا ہے حقیقت پسندی۔ جو کچھ سامنے ہو اُسے تسلیم کرنے سے انکار صرف اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ حقیقت پسندی کی بنیاد کسی بھی معاملے کو اس کی اصلیت کے ساتھ پہچاننے میں ہے۔ حقیقت پسندی ہی انسان کو معقول ترین طرزِ فکر و عمل اختیار کرنے کی تحریک دیتی ہے، راستہ دکھاتی ہے۔ ہر کامیاب انسان کو آپ حقیقت پسند ہی پائیں گے۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ جو کامیاب ہوتے ہیں وہ حقیقت پسند ہو جاتے ہیں بلکہ بات یوں ہے کہ جو حقیقت پسند ہوتے ہیں وہی حقیقی کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہیں۔ حقیقت پسندی کا وصف اگر ڈھنگ سے پروان چڑھایا جائے، بے جا یا انتہائی غیر ضروری نوعیت کی اَنا سے دامن کش رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کو ترجیح دی جائے تو انسان بہت سی فضول باتوں کو اپنی زندگی سے بہ آسانی دیس نکالا دے سکتا ہے۔ پاکستان اس وقت جن حالات سے دوچار ہے اُن کا بھرپور تقاضا ہے کہ حقیقت پسندی کو اس کی روح کے ساتھ قبول کیا جائے، اپنایا جائے‘ اور وہ بھی پوری طرح۔ ہم طرح طرح کے بحرانوں کی زد میں ہیں۔ بہت سے معمولی معاملات بھی بگڑتے بگڑتے ایسی شکل اختیار کرچکے ہیں کہ ہمیں عفریت دکھائی دینے لگے ہیں۔ بنیادی سہولتوں ہی کا معاملہ لیجیے۔ کسی بھی معاشرے میں پانی، بجلی، گیس، سڑکیں، تعلیم اور صحت کی سہولتیں انتہائی بنیادی ضرورتوں میں شمار ہوتی ہیں۔ ترقی یافتہ معاشرے تو نئی نسل کو بہتر مستقبل کے لیے تیار کرنے کے عمل کو بھی بنیادی ضرورتوں میں شمار کرنے لگے ہیں۔ جن معاشروں کو آگے بڑھنا ہوتا ہے اُن کے ایسے ہی اطوار ہوتے ہیں۔ انہیں اپنے زمانے سے زیادہ آنے والے زمانوں کی فکر لاحق رہتی ہے۔ نئی نسل کو وہ آنے والے زمانے کے لیے تیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ وہ اچھی طرح جی سکے۔ ایک ہم ہیں کہ آنے والے زمانوں کو تو چھوڑیے‘ جس زمانے میں ہم خود ہیں اس کو سنوارنے کی کوئی معقول صورت بھی نکال نہیں پارہے۔
ملک کے حالات کم و بیش دو عشروں سے دگرگوں ہیں۔ ہم آج جن بحرانوں کا شکار ہیں وہ دراصل کئی عشروں کے دوران پروان چڑھنے والی خرابیوں کا منطقی نتیجہ ہیں۔ جب ہم مسائل کے ذیل میں منطق کی بات کرتے ہیں تو پھر مسائل کا حل بھی منطق ہی کے ذریعے ڈھونڈا جانا چاہیے۔ افسوس کہ ہم ایسا نہیں کر رہے۔ کسی بھی مشکل صورتِ حال کا سامنا ہونے پر ہمیں جو طرزِ فکر و عمل اپنانی چاہیے وہ نہیں اپنائی جارہی۔ معاملات دیکھتے ہی دیکھتے اِتنے بگڑتے ہیں کہ ہاتھ سے نکل جاتے ہیں اور ہم محض تماشا دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ ریاست کی بنیادوں پر کلہاڑے چلائے جارہے ہیں۔ ریاستی اداروں کو کمزور سے کمزور تر کرنے کی بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں۔ ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دینے کا رجحان اِتنا قوی ہے کہ اِس کے ختم ہونے کا تو کیا‘ فی الحال اِس کے کمزور ہونے کا بھی تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اہلِ سیاست زیادہ سے زیادہ فوائد بٹورنے کے لیے بے تاب ہیں۔ مقتدرہ کے اپنے مفادات ہیں۔ نچلے درجے کے سرکاری ملازمین کو اپنے لیے زیادہ سے زیادہ فوائد کی فکر لاحق ہے۔ وہ بھی حسبِ توفیق بلیک میلنگ سے باز نہیں آتے۔ کاروباری طبقہ اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر گھناؤنے عزائم رکھنے والے گروہوں (مافیا) میں منقسم ہوچکا ہے۔ رہ گئے عوام تو وہ بھی ایک دوسرے کا گلا کاٹنے میں مصروف ہیں۔ جس کا جہاں بس چل رہا ہے وہ وہاں اپنی طاقت دکھارہا ہے۔ نتائج کی بظاہر کسی کو کچھ خاص پروا نہیں۔ یہ سب کچھ بہت مایوس کن ہے۔ ہم مذہبی معاشرہ ہونے کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے اور زندگی میں دین کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ اخلاقی پستی بھی عروج پر ہے۔ تہذیبی اقدار کا جنازہ اٹھ چکا ہے۔ معمولی باتوں پر محض بدگمان نہ ہونا بلکہ لڑنا اور لڑتے رہنا ہمارے مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔ جن باتوں سے صاف منع کیا گیا‘ وہ ساری باتیں ہم میں پائی جاتی ہیں، تمام قباحتوں کو ہم نے یوں اپنایا کہ اصلاح کی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ کیا ہم اِس بند گلی سے نکل نہیں سکتے؟ اس سوال کا جواب صرف اِتنا ہے کہ ؎
وہ کون سا عقدہ ہے جو وا ہو نہیں سکتا
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا
ہم انوکھے نہیں ہیں کہ تباہی کی طرف گئے ہیں تو اب دوبارہ آباد ہونے کی طرف آ ہی نہیں سکتے۔ تاریخ میں بیسیوں مثالیں موجود ہیں کہ کوئی معاشرہ پستی کا شکار ہوا، شکست و ریخت سے دوچار ہوا مگر کچھ مدت کے بعد پھر اٹھ کھڑا ہوا۔ کسی بھی معاشرے کا دوبارہ اٹھ کھڑا ہونا کسی بھی درجے میں ناممکن نہیں۔ ہاں‘ اِس کام میں محنت بہت لگتی ہے، برداشت بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ راتوں ہوتا ہے نہ آسانی سے۔ محض صلاحیت اور مہارت کا ہونا بھی کافی نہیں۔ محنت بھی کرنا پڑتی ہے اور صبر سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔ اس معاملے میں جاں فشانی اور ایثار ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ آج کا پاکستانی معاشرہ جن خرابیوں سے دوچار ہے، بلکہ اَٹا ہوا ہے اُن سے نمٹنے کی جو بھی معقول ترین حکمتِ عملی ہوسکتی ہے اُس میں محنت پہلے نمبر پر ہے اور تحمل دوسرے نمبر پر۔ لیاقت و مہارت بھی ناگزیر ہے مگر اُس سے کہیں بڑھ کر عزمِ مصمم درکار ہے کیونکہ ع
مشکل نہیں کچھ بھی اگر ٹھان لیجیے
کوئی بھی اپنے مفادات کا عشرِ عشیر بھی ترک کرنے کو تیار نہیں۔ اور مفادات بھی وہ ہیں جو ازخود طے کیے گئے ہیں۔ کسی بھی صورتِ حال سے پہنچنے والے اتفاقیہ ایڈوانٹیج کو اب مستقل مفاد کے درجے میں رکھا جانے لگا ہے۔ حالات کی مہربانی سے کسی چیز کی قلت پیدا ہو جائے اور دام بڑھ جائیں تو اُس کی چیز کی بہتات ہو جانے پر بھی دام نیچے نہیں لائے جاتے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ داموں کو نیچے نہیں آنے دیا جاتا۔ اِسی کو manipulation کہتے ہیں۔ مارکیٹ پر قابض عناصر اپنے مفادات کے لیے ایک ہوکر ایسے حالات پیدا کرتے ہیں جن میں کسی بھی موقع سے غیر معمولی اور یکسر غیر اخلاقی فائدہ بٹورنا آسان تر ہوتا جائے۔ آج کا ہمارا معاشرہ بہت سی فوری تبدیلیوں کا متقاضی ہے۔ ہر شعبے اور طبقے سے وابستہ افراد کو اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا ہے تاکہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا احساس ہو۔ یہ احساس ہی اصلاحِ احوال کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ کسی بھی بگڑے ہوئے اور تباہی کی طرف تیزی سے بڑھتے ہوئے معاشرے کی بقا کے لیے پہلے قدم پر احساسِ زیاں کا پایا جانا ناگزیر ہے ؎
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
کسی بھی کارواں کے لیے سب سے بڑا متاع یہ ہے کہ اُسے اپنے زیاں یعنی خسارے کا احساس ستاتا رہے۔ یہ احساس ہی معاملات کی درستی کی راہ سجھاتا اور کچھ کرنے کا حوصلہ بخشتا ہے۔ اگر کوئی معاشرہ اپنے زیاں ہی کو بھول جائے تو سمجھ لیجیے اُسے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اس وقت ملک کے سٹیک ہولڈرز جس کھیل میں مشغول ہیں وہ ریاست کی بنیادیں ہلانے کے درپے ہے۔ کسی کو ملک کی بقا و استحکام کی فکر لاحق ہے نہ عوام کی بہبود ہی کا کچھ خیال ہے۔ سب کی اپنی اپنی ڈفلی ہے اور اپنا اپنا راگ ہے۔ ایسے میں ہر اُس پاکستانی کو آگے بڑھنا ہے جسے قدرت نے شعور کے ساتھ ساتھ احساسِ ذمہ داری سے بھی نوازا ہے اور دلِ دردمند سے بھی محروم نہیں رکھا۔ ملک و قوم کا درد رکھنے والوں کو اپنے اپنے محاذ پر ڈٹ جانا ہے اور پھر ڈٹے رہنا ہے۔ دردمند دل رکھنے والے ہر شخص پر لازم ہے کہ اصلاحِ احوال پر مائل ہو اور دوسروں کو بھی ملک و قوم کیلئے سوچنے کی تحریک دے۔ منفی باتیں پھیلانے والوں کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔ یہ ناگزیر ہے۔ خرابیاں پیدا کرنے والوں کے مقابل کھڑا ہونا ہے۔ یہ وقت کی پکار ہے جس پر لبیک کہے بغیر بات بنے گی نہیں۔ عزم بلند ہونا چاہیے اور اُسے کسی بھی لمحے کمزور نہیں پڑنے دینا۔ حقیقی اور منطقی انقلاب اِسی طور آیا کرتے ہیں۔