"MIK" (space) message & send to 7575

وقت بہت کم ہے

وقت کی اصلیت کس کی سمجھ میں آئی ہے؟ بھری دنیا میں کوئی ایک فرد بھی دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ وقت کو مکمل طور پر سمجھ چکا ہے۔ فطری علوم کے بہت سے ماہرین تو کہتے ہیں کہ وقت کوئی چیز ہے ہی نہیں! اُن کے خیال میں ہم نے حرکت کو وقت کا نام دے رکھا ہے۔ سورج طلوع ہوتا ہے اور غروب ہوتا ہے۔ یہ بھی بصری دھوکا ہے۔ سورج طلوع ہوتا ہے نہ غروب۔ یہ سب کچھ سورج کے تحرک سے نہیں‘ زمین کے تحرک سے ہے۔ اگرچہ سورج بھی متحرک ہے؛ تاہم حقیقت یہ ہے کہ زمین حرکت کرتی ہے تو ہی ہمیں سورج طلوع اور غروب ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور وقت کے گزرنے کا بھی احساس ہوتا ہے۔ اگر زمین بھی ساکن ہو اور سورج، چاند بھی ساکن رہیں تو؟ کیا تب ہمیں وقت کے گزرنے کا احساس ہوگا؟ ذہن کہتا ہے احساس تو تب بھی ہوگا کہ کچھ نہ کچھ تو گزر رہا ہے۔ بہت سوں کی زندگی میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہو رہی ہوتی یعنی زندگی بالکل ساکن دکھائی دے رہی ہوتی ہے؛ تاہم تب بھی وقت کے گزرنے کا احساس تو پایا جاتا ہے۔ انسان کو ہر پل یہ احساس ستاتا رہتا ہے کہ کوئی چیز گزر رہی ہے یا وہ کہیں سے گزر رہا ہے۔ ہمارے رب نے بھی زمانے کی قسم کھائی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وقت ایک بدیہی حقیقت ہے اور اُس کے بارے میں سوچنا بھی واجب ہے۔
وقت کی نوعیت کے حوالے سے پائی جانے والی بحث خاصی پیچیدہ اور دِقّت طلب ہے۔ عام آدمی کو وقت کی نوعیت اور تاثر و تاثیر سے کچھ خاص غرض نہیں ہوتی۔ ہو بھی نہیں سکتی! سچ تو یہ ہے کہ وہ وقت کے بارے میں سوچنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ وہ تو ہر وقت اپنے معاملات میں اِتنا الجھا رہتا ہے کہ وقت کے بارے میں سوچنے یا غور کرنے کا موقع مشکل ہی سے مل پاتا ہے۔ اور پھر یہ بحث ہے بھی اِتنی پیچیدہ کہ عام آدمی کو اِس میں ذرا سی بھی کشش محسوس نہیں ہوتی۔ جنہیں دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے کی فکر لاحق ہو وہ بھلا کسی بھی کائناتی حقیقت کے بارے میں سوچنے کے لیے وقت کہاں سے لائیں؟ یہ کام تو اُن کا ہے جنہیں قدرت نے اس حوالے سے صلاحیت و سکت سے نوازا ہے۔ دنیا کے ہر انسان کو وقت برابری کی بنیاد پر دیا گیا ہے۔ ہر انسان کو یومیہ چوبیس گھنٹے عطا کیے جاتے ہیں۔ ان چوبیس گھنٹوں کو کس طور گزارنا ہے، اُن سے کس حد تک مستفید ہونا ہے یہ طے کرنا خالص انفرادی معاملہ ہے۔ کچھ لوگ چوبیس گھنٹوں میں اٹھارہ گھنٹے کام کرتے ہیں۔ کچھ لوگ یہ پورا وقت سوکر گزار دیتے ہیں۔ یہ خالص پسند و ناپسند اور ترجیح و عدمِ ترجیح کا معاملہ ہے۔
کیا ہم وقت کے معاملے میں عدمِ توجہ کی عیاشی کے متحمل ہوسکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ہر اعتبار سے نفی ہی میں ہوسکتا ہے۔ وقت ہماری سب سے بڑی دولت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں (ایمان کے بعد) وقت اور صحت تقریباً برابری کی بنیاد پر ہیں۔ پھر بھی صحت کا نمبر دوسرا ہی گِنا جائے گا۔ پہلے نمبر پر تو وقت ہی رہے گا۔ وقت کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے اِتنا سوچ لینا کافی ہے کہ اور جو کچھ بھی ہے وہ اگر ہاتھ سے جاتا رہے تب بھی واپس لایا جاسکتا ہے، دوبارہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ وقت کے معاملے میں یہ ممکن نہیں۔ قدرت نے ہمارے لیے جتنی سانسیں طے کر رکھی ہیں وہ گزر گئیں تو گزر گئیں۔ طب کی دنیا میں تواتر سے واقع ہونے والی پیش رفت انسان کی اوسط عمر میں اضافہ کرتی جارہی ہے۔ اِس پیش رفت اور اِس کے نتیجے کی بنیاد پر بھی یہ دعویٰ بہرحال نہیں کیا جاسکتا کہ انسان کے لیے روئے ارض پر وقت کی میعاد میں‘ ماہرین کی بدولت‘ اضافہ ممکن بنالیا گیا ہے۔ انسان کی اوسط عمر چاہے کچھ بھی ہو، اللہ تعالیٰ ہی کی طے کردہ ہے۔ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہے اِس لیے ہم تقدیر کے حوالے سے کوئی بھی دعویٰ نہیں کر سکتے۔
اگر تھوڑی توجہ دی جائے اور کامیاب افراد کے بارے میں سوچا جائے، اُن کے حالاتِ زندگی کا جائزہ لیا جائے، اُن کے معمولات اور فکری ساخت کا تجزیہ کیا جائے تو ہم بالآخر اِسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ اُنہوں نے جو کچھ بھی پایا ہے وہ وقت کے حوالے سے فہم کی بنیاد ہی پر پایا ہے۔ کامیاب صرف وہی ہوسکا ہے جس نے وقت کو سمجھا، اِس کے تقاضوں کو تسلیم کیا، اپنے آپ کو بدلا اور دنیا کو یہ دکھایا کہ وقت کو سمجھے بغیر کچھ بھی سمجھا نہیں جا سکتا۔ حقیقی کامیابی یہ ہے کہ انسان روئے ارض پر گزارنے کے لیے عطا کیے جانے والے وقت کو کسی بھی حال میں ضائع نہ کرے۔ وقت دو صورتوں میں ضائع ہوسکتا ہے؛ یا تو ہماری اپنی ذہنی روش کے باعث یا پھر حالات ہی ایسے ہوں کہ ہمارے لیے اپنے وقت کو ضائع ہونے سے بچانا ممکن نہ ہو۔ ٹرین کا انجن فیل ہو جائے اور متبادل انجام تین چار گھنٹے بعد لایا جاسکے تو آپ کے تین چار گھنٹے ضائع ضرور ہوئے؛ تاہم اِس میں آپ کا کوئی قصور نہ تھا۔ آپ مجبور تھے کہ جہاں ہیں وہاں رہیں۔ ایسی حالت میں تاسّف ضرور ہوتا ہے؛ تاہم اپنے آپ پر غصہ نہیں آتا۔ اگر کوئی ایسے میں اپنے آپ کو کوسنا شروع کرے تو اِسے محض حماقت گردانا جائے گا۔ جس معاملے پر آپ کا اختیار تھا ہی نہیں اُس کے حوالے سے اپنے آپ کو کوسنا؟ یہ تو وقت کے ساتھ ساتھ عقلِ سلیم کا بھی ضیاع سمجھیے۔
ٹائم مینجمنٹ کے نام پر ہم جو کچھ سیکھتے ہیں وہ دراصل اپنی مینجمنٹ ہوتی ہے۔ وقت کو manage نہیں کیا جاسکتا۔ ہم دراصل اپنے آپ کو manage کر رہے ہوتے ہیں۔ ٹائم مینجمنٹ کے نام پر جو کچھ بھی سکھایا جاتا ہے وہ دراصل اپنے آپ کو چند حدود و قیود کا عادی بنانے کا معاملہ ہے۔ وقت کا کام گزرنا ہے، گزر جاتا ہے۔ جیسے کوئی دریا بہتا رہتا ہے۔ بہتے ہوئے دریا کے پار کیسے جانا ہے یہ آپ کو طے کرنا ہے۔ تیرنا سیکھنا ہے یا کشتی میں سوار ہونا ہے؟ یا پھر پُل تعمیر کرکے بہت ہی آسانی سے اُس پار اُترنا ہے۔ سوچنا آپ کو ہے، دریا کو نہیں۔ دریا اِن تمام معاملات سے یکسر بے نیاز ہے۔ وقت کا بھی یہی معاملہ ہے۔ وقت کا ضیاع کیونکر روکا جاسکتا ہے یہ سوچنا آپ کا کام ہے، وقت کا نہیں۔ وقت بھی یکسر بے نیاز ہے۔ زندگی کیا ہے؟ وقت کی میعاد۔ زندگی کس طور بسر کی جانی چاہیے یہ آپ کو طے کرنا ہے۔ طے کیجیے اور جیے جائیے۔ غلط منصوبہ سازی کا نتیجہ آپ بھگتیں گے۔ اچھا سوچا ہوگا تو اچھا صلہ آپ کو ملے گا۔
کیا ہم زندگی کے حوالے سے واقعی سنجیدہ ہیں؟ عمومی سطح پر تو ایسا بالکل نہیں لگتا۔ عام آدمی تو خیر کیا سوچے گا، جنہیں قدرت نے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت عطا کی ہے وہ بھی اِس معاملے میں بُودے اور کورے ہیں۔ یہ توفیق کا معاملہ ہے۔ زندگی یعنی بخشی گئی سانسوں کے بارے میں سوچنا، منصوبہ سازی کرنا، وقت کا ضیاع ہر حال میں روکنے کی کوشش کرنا ہر انسان پر فرض ہے۔ وقت کے بارے میں ہر شخص کی سوچ حقیقت پسندی پر مبنی ہونی چاہیے کیونکہ اِس میں اُسی کا فائدہ ہے۔ جب ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں تب اندازہ ہوتا کہ وقت جیسی نعمت کو بھی یاروں نے بس یونہی لیا ہوا ہے۔ لوگ سنجیدہ نہیں ہوتے۔ وقت کے ضیاع کو محض دیکھ نہیں رہے ہوتے بلکہ خود بھی اِس کے مرتکب ہوکر سنگین نتائج بھگت رہے ہوتے ہیں مگر پھر بھی لوگ وقت کے بارے میں حقیقی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ وقت کے ضیاع کی بیسیوں صورتیں ہیں اور لوگ جانتے بھی ہیں مگر اِس کے باوجود اپنے معاملات درست نہیں کرتے :
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زُہد
پر طبیعت اِدھر نہیں آتی
باقی تمام معاملات میں فراوانی ہی فراوانی ہے، وقت بہت کم ہے اور اِس میں اضافہ بھی ممکن نہیں۔ جو چیز کم ہو وہ احتیاط سے خرچ کی جانی چاہیے۔ وقت کو بروئے کار لانے کے معاملے میں سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ اِس کا ضیاع روکنے کے لیے ہمیں اپنی قوت صرف کردینی چاہیے۔ کامیاب زندگی وہی ہے جس میں وقت کا ضیاع برائے نام بھی دکھائی نہ دے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں